سنو برما سے باہر رہنے والو…

سارہ لیاقت  ہفتہ 6 اپريل 2013

ہر طرف جلے ہوئے مکانات، کٹی پھٹی لہو سے تر بکھری لاشیں، وحشیانہ درندگی اور زیادتی کا شکار نازک بدن، درختوں کے ساتھ جھولتے یہ بچوں کے بدن، سوشل میڈیا پہ آنے والی تصویریں برما میں ہونے والی سفاکی، ہولناکی کو اس طرح بیان کر رہی ہیں کہ دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ قرآن پاک میں تو ارشاد ہوتا ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، لیکن ہم کیسے مسلمان ہیں کہ نہ ان مظلوموں کے لیے ہمارے دل تڑپتے ہیں، نہ آنکھ سے آنسو بہتے ہیں، نہ ہی ان کی ہمدردی میں ان مظالم کے خلاف آواز اٹھتی ہے۔

سورہ النسا کی آیت نمبر 75 میں اﷲ تعالی فرماتے ہیں۔ ’’اور کیا ہوا ہے تم کو کہ نہیں جنگ کرتے تم اﷲ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں (کی خاطر) جو فریاد کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب نکال تو ہمیں اس بستی سے کہ ظالم ہیں جس کے رہنے والے اور بنا تو ہمارے لیے اپنی جانب سے کوئی حامی اور بنا تو ہمارے لیے اپنی جانب سے کوئی مددگار‘‘۔ اس کے باوجود ہم مسلمانوں پر یہ کیسی بے حسی طاری ہے کہ لڑنا تو دور کی بات ہم ان مظلوموں کے حق میں آواز بھی نہیں اٹھاتے۔ کیا ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ اس وقت دنیا کے کچھ حصوں میں ایسے مسلمان بھی ہیں جن کے لیے جینا موت سے بڑا عذاب ہے۔ جن کے لیے زندگی کی روشنی قبر کے اندھیروں سے زیادہ تاریک ہے۔ جن کا ایک ایک سانس ہمیں مدد کے لیے پکار رہا ہے۔

ساڑھے سات کروڑ کی آبادی کے اس ملک برما میں سات لاکھ مسلمان رہتے ہیں۔ 1962 میں جب فوج نے یہاں اقتدار پہ قبضہ کیا اس کے بعد سے برمی مسلمان فوج کی آشیر باد سے بدھ مذہب کے ماننے والوں کے مظالم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ حالیہ مظالم کا آغاز 3 جون 2012 کو اس وقت ہوا جب برما کے دارالحکومت رنگون میں 11 بے گناہ مسلمانوں کو بس سے اتار کر فوجیوں اور بدھ مت پیروکاروں نے مل کر شہید کردیا۔ ان بے گناہوں کی موت پر جب وہاں کے مسلمانوں نے احتجاج کرنا چاہا تو ان کے مجمع پر وہاں کے فوجیوں نے اندھادھند فائرنگ کرکے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کردیا، جس کے بعد سے ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور مسلمانوں کی اس نسل کشی کے خلاف تمام عالمی برادری اور امت مسلمہ سب خاموش ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برما میں اب تک بیس ہزار سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والے، روہنگیا مسلمانوں پر شدید مظالم ڈھا رہے ہیں، ان کی املاک تباہ کی جا رہی ہیں، خواتین کی بے حرمتی، عصمت دری کی جا رہی ہے۔ اس وقت ان کی معاشی حالت بھی بہت خراب ہے۔ کاروبار ان کے پہلے ہی برباد کیے جاچکے ہیں، اب روزگار کے دروازے بھی بند کیے جارہے ہیں۔ قتل و غارت، مار پیٹ اور لوٹ مار میں نہ کوئی کسی کی عمر کا لحاظ ہے اور نہ ہی جنس کی تفریق۔ ننھے ننھے شیر خوار بچے اور معمر افراد بھی ان مظالم سے بچ نہیں سکے۔ اب تک لاکھوں مسلمان وہاں سے ہجرت کرچکے ہیں لیکن ان کی حالت بھی کافی خراب ہے۔

دوسری جانب ہیومن رائٹس واچ بھی اب تک 56 صفحات پر مشتمل برما میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر رپورٹ دے چکی ہے، جس میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جون میں شروع ہونے والے نسلی فسادات میں وہاں کی سیکیورٹی فورسز بھی شامل ہیں۔ برما کی حکومت و فوج ان مظالم کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے بلکہ بہت سے تشدد کے واقعات میں خود بھی ملوث پائی گئی ہے۔ وہاں کی حکومت نے ان غیر انسانی افعال کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی، جو اب تک ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو گرفتار کرچکی ہے اور امداد کی غرض سے جانے والوں کو نہ صرف روکا گیا بلکہ کئی جگہوں پر تو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں عالمی برادری سے بھی کہا گیا ہے کہ بے گناہوں کے اس قتل عام پر اپنا مضبوط ردعمل ظاہر کرے۔

برما کے حالات ایک بہت بڑا المیہ ہیں جس پہ مسلم دنیا کی خاموشی اور بے حسی بہت افسوس ناک ہے۔ کیا ان سفاک ظالم درندوں کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ کیا مسلمانوں کا خون اس قدر ارزاں ہو گیا ہے؟ بدھ مت پیروکاروں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کی اس حوالے سے خاموشی کافی معنی خیز ہے جن کا یہ ماننا ہے کہ بدھ مت مذہب امن اور محبت کا پیغام دیتا ہے۔ وہ اس وقت کہاں ہیں؟ کیوں ظالموں کا ہاتھ نہیں روکتے؟ وہ خود آکر میانمار کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ بے گناہ مسلمانوں کا کس بے دردی سے قتل عام کیا جا رہا ہے، ان کی لاشوں کی کس طرح بے حرمتی کی جارہی ہے، عورتوں کی عزتیں کیسے پامال ہورہی ہیں۔

برما میں بدھسٹوں کی درندگی کو تاریک اور تہذیب کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، بدھ مت کے پیروکاروں نے برمی سیکیورٹی فورسز کی معیت میں مسلمانوں کو جس وحشیانہ انداز میں موت کے گھاٹ اتارا ہے وہ عالمی برادری کے ضمیر پر تازیانہ ہے۔ سنگدلی، بربریت،ظلم اور زیادتی کے جو مظاہر پیش پیش کیے ہیں ان پر انسانیت بھی اشکبار ہے۔

برما میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ان سنگین زیادتیوں اور بے گناہوں کا بہتا ہوا لہو ہم سے اس بات کا تقاضا کررہا ہے کہ ہم سب مسلمان ان مظلوموں کا ساتھ دیں۔ ہمارے میڈیا کا اس حوالے سے رول انتہائی سفاکانہ ہے جس کی نظر میں اس مسئلے کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ او آئی سی نے صورتحال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے 14 اپریل کو جدہ میں ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ محض اجلاس نہ ہو بلکہ تمام مسلمان متحد ہو کر اپنے بھائیوں پہ ڈھائے جانے والے ان مظالم کے خلاف کوئی ٹھوس قدم اٹھائیں اور اقوام متحدہ سے اپیل کریں کہ مشرقی تیمور کی طرح ان روہنگیا مسلمانوں کی آزادی کے لیے بھی کوئی اقدام کرے اور مقامی حکومت کی انتہائی سرزنش کرے جو انتہا پسندوں کے ہاتھ روکنے میں نہ صرف ناکام ہے بلکہ ان کی حامی بھی ہے۔ اب وہ وقت آگیا ہے جب ہم سب مسلمانوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ظلم و بربریت کی یہ داستان جو برما میں رقم کی گئی اور مسلمانوں کے ساتھ دہرائی نہ جاسکے۔

سنو برما سے باہر رہنے والو!

یہاں پر نفرتوں کے اژدھوں نے

اس طرح سے زہر اگلا ہے

کہ جن کی زد میں آکر

امن کے سارے کبوتر مرچکے ہیں

یہاں انسانیت نے خودکشی کرلی

سنو برما سے باہر رہنے والو

یہاں زیتون کے سب پیڑ کاٹے جاچکے ہیں

کہ اب انساں نہیں

اس دیش میں حیواں بستے ہیں

یہاں پر تتلیوں سے کھیلتی

ننھی سی کلیوں کے بدن سے پر نچے ہیں

ہوس کے کھیل نے کتنے دریدہ

جسم و جاں بے جان لاشوں میں بدل ڈالے

سنو برما سے باہر رہنے والو

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔