63-62 کی حکمرانی…آدھے پاکستانی کی مہربانی

جبار جعفر  ہفتہ 6 اپريل 2013

دعا دیجیے نامی گرامی آدھے پاکستانی ڈاکٹر طاہر القادری مدظلہ العالی کو جو بیٹھے بٹھائے، بن بلائے کینیڈا سے سیدھے بلائے بے درماں کی صورت پاکستان تشریف لائے اور ڈی چوک اسلام آباد کے بیچوں بیچ دھانسو دھرنے کے دوران آرٹیکل 63-62 کو جو قانون کی گرد آلود کتابوں میں بے گوروکفن تھا۔

کھینچ نکالا اور جھاڑ پونچھ کر قوم کے آگے رکھ دیا اس دعوے کے ساتھ کہ Status Que کے پجاریوں اور قرضہ خور کھلاڑیوں سے نجات کا یہی پہلا اور آخری راستہ ہے اور مطالبہ داغ دیا کہ آیندہ جو بھی رکن اسمبلی منتخب ہوگا وہ ہر حال میں آرٹیکل 63-62 کی چھلنی کا چھنا ہوگا۔ اس طرح وہ بھوکے ننگے آدھے پاکستان کے دو فیصد کھاتے پیتے پورے پاکستانیوں کے حلق میں اٹک گئے۔ انکار کر نہیں سکتے تھے کیونکہ سوال آئین کی پاسداری کا تھا (جس کی خلاف ورزی کی سزا چار کم دس کو ہزاروں بار دھراتے شرم آتی ، جس سے پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے۔)

الحمد للہ کہ آج پاکستان میں 63-62 ہر طرف سکہ رائج الوقت کی طرح زیرگردش ہے مثلاً

A:(1) چیف الیکشن کمشنر فخرو بھائی نے تو 63-62 کی تعریف/تفصیل کاغذات نامزدگی چھاپ دی ہے تاکہ سند رہے اور الیکشن 2013 کے بعد بھی کام آئے۔ (2)الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ نہ صرف کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال 63-62 کے تحت بے رحمی سے کی جائے گی بلکہ ساری معلومات عوام کے مطالعے کے لیے ویب سائٹ پر بھی ڈال دی جائے۔

B:سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی غیر مشروط حمایت کے ساتھ ساتھ اس پر کڑی نظر بھی رکھے ہوئے ہے مثلاً چند عدالتی ریمارکس ملاحظہ کیجیے۔

(1)الیکشن کمیشن بادشاہ نہیں کہ وہ جو چاہے کریں۔ امیدواروں کے متعلق یہ یقینی بنایا جائے کہ وہ آرٹیکل 63-62 پر پورے اترتے ہوں۔ (2)الیکشن کمیشن کرپٹ اقدامات کو روکنے کا مجاز ہے۔ 18 کروڑ عوام کا یہ حق ہے کہ ان کی نمایندگی ایماندار لوگ کریں۔ (3)بے شک اب ڈگری کی ضرورت نہیں ہے لیکن 2008 کے الیکشن میں دھوکا دہی اور غلط بیانی کے مرتکب آرٹیکل 63-62 کی زد میں آتے ہیں۔

C: مذہبی سیاسی پارٹی JUI کے رہنما مولانا فضل الرحمن کے موجودہ موڈ کی جھلک ملاحظہ کیجیے۔ مینار پاکستان پر ایک بڑے جلسے سے خطاب کے دوران فرماتے ہیں ’’مزارعوں (کسانوں) کو جاگیرداروں کی زمین اور مزدوروں کو کارخانے کا آدھا مالک بنائیں گے، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں جاگیرداروں کو زمین بوس کیا، پنجاب میں بھی کرسکتے ہیں۔‘‘

D: معاشرے میں 63-62 کا چلن ملاحظہ کیجیے۔

(1)ایک بزرگوار بیکری والے پر برس رہے تھے جس نے ان کے پوتے کو باسی ڈبل روٹی تھمادی تھی ’’دیکھنے میں تو بڑے 63-62 لگتے ہو مگر ہو بڑے 420‘‘

(2)بعد نماز جمعہ مسجد کے باہر ہینڈ بلز تقسیم کیے جارہے تھے جن میں درج تھا “ABC” گرامر اسکول میں قوم کے نونہالوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ 63-62 بنانے پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے‘‘۔

(3)ایک دوست اپنے دوسرے دوست پر بگڑ رہا تھا ’’میرے سامنے 63-62 بننے کی کوشش مت کر، سمجھا؟ میں تیری رگ رگ سے واقف ہوں۔‘‘

(4)ایک رشتہ لگانے والی ’’باجی‘‘ لڑکی کی والدہ سے کہہ رہی تھی ’’بہن! یہ رشتہ آنکھ بند کرکے قبول کرلیجیے، لڑکا تو لڑکا ماشاء اللہ سارا گھرانہ ہی 63-62 ہے۔‘‘

برادرم جاوید چوہدری نے اپنی کتاب ’’گئے وقت کے سورج‘‘ میں ایک دلچسپ واقعہ درج کیا ہے جو کچھ یوں ہے۔

’’کرسمس کی مبارکباد دینے کے لیے ہر سال جاگیردار بن ٹھن کر پھل مٹھائی تحفے کے لیے گورے صاحب (کمشنر) کی کوٹھی پر حاضری دیتے تھے۔ جہاں باہر ایک تمبو لگا ہوا ہوتا تھا۔ یہ اپنے تحائف وغیرہ ایک طرف رکھ کر اوروں کی طرح کرسی پر بیٹھے گورے صاحب کا انتظار کرنے لگتے اور گورے صاحب رات بھر مشروب و شباب کی محفلیں بھگتا کر تھکے ماندے سوئے ہوئے تھے۔ بارہ بجے کے لگ بھگ ان کا اردلی باہر آتا اور خوش خبری سناتا کہ صاحب کہہ رہے ہیں آپ کا سلام مل گیا۔

اب آپ جاسکتے ہیں‘‘۔ یہ سنتے ہی جاگیرداروں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ وہ بڑے تپاک سے ایک دوسرے سے گلے ملتے، کرسمس کی مبارکباد دیتے اور شاداں و فرحاں (کمشنر صاحب سے ملنے کے بعد) اپنے اپنے گاؤں روانہ ہوجاتے، وہ سوال یہ ہے کہ اگر63-62 پر صد فی صد عمل ہوا تو جاگیردار زندہ کیسے رہے گا؟

کیونکہ انگریزوں نے ہندوستان میں جو جاگیریں عطا کی تھیں(اس بحث میں پڑے بغیر کے کیوں دی تھیں؟) وہ زمین انگریزوں کے باپ کی جاگیر نہیں تھی۔ اگر ہوتی تو وہ برطانیہ میں ہوتی۔ انھوں نے وہ زمینیں عطا کیں جن پر ان کا ناجائز قبضہ تھا۔ اور قبضہ بھی 14 اگست 1947 کو رات بارہ بجے ختم ہوگیا۔ یہ نئی نئی ٹیکنالوجی کی صدی ہے۔ گلوبل ولیج کا زمانہ ہے عوامی حاکمیت کا دور ہے دنیا انقلابی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ یورپ امریکا ’’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘ تحریک سے لرزاں ہیں۔ عرب دنیا کی بادشاہتیں ہوں یا شخصی آمریتیں ایک ایک کرکے ’’عرب اسپرنگ‘‘ کے نتیجے میں زمیں بوس ہورہی ہیں۔ جتنی ہماری سیاسی تاریخ ناقابل رشک ہے اتنا ہی ہمارا ملکی جغرافیہ قابل رشک ۔

دنیا میں پانچ نئے معاشی سپر پاورز ابھر رہے ہیں۔ جن کو BRICS کا نام دیا گیا (برازیل، روس، انڈیا، چائنا، ساؤتھ افریقہ) تین ہمارے پڑوسی ہیں (انڈیا، چائنا، روس) انڈیا ہمارے ساتھ آزاد ہوا، چین ہمارے بعد آزاد ہوا ، اور روس ٹکڑے ٹکڑے ہوکر سنبھلا۔ ہم کسی گنتی میں نہیں ہیں لیکن ہماری گرم پانی کی بندرگاہیں، روس اور چین کی پیداوار کو عالمی مارکیٹوں تک رسائی دینے کا واحد، سستا ذریعہ ہیں۔

جمہوری طرز عمل سے ہی جمہوری کلچر فروغ پاتا ہے جس کی بنیاد جمہوری سوچ/طرز فکر ہے۔ برطانیہ میں ’’شاہی جمہوریت‘‘ رائج ہے۔ کامیاب اس لیے ہے کہ ملکہ الزبتھ کا طرز فکر جمہوری ہے، ان کی سوچ میں ’’شاہی خناس‘‘ نہیں ہے۔ ہم نے اپنی فیوڈل ذہنیت کے سبب مشرقی پاکستان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا۔ ان کو حق حکمرانی نہیں دیا ان سے نجات حاصل کرلی۔ آج وہ پرامن، خوش حال اور دہشت گردی سے پاک ہیں۔ چین کے تعاون سے صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری میں مرد تو مرد لاکھوں عورتیں کام کرتی ہیں۔ ہم دہشت گردوں کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اب بھی وقت ہے کہ آنے والے الیکشن کا فائدہ اٹھاکر ملک کو جمہوریت کی پٹری پر ڈال دیں جس کے لیے (جیساکہ پچھلے کالم میں عرض کیا تھا) فیوڈل چھاپ والی دو بڑی پارٹیاں کم ازکم پچاس فیصد سے زیادہ اپنے آزمودہ، مخلص، پڑھے لکھے اوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کو انتخابی ٹکٹ دیں۔ اور انتخابات کے بعد ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو کھلے دل سے تسلیم کریں۔ ایسا نہ ہو کہ جب تک باپ زندہ رہا روٹی کو ترستا رہا، جونہی فاقوں سے مرگیا اس کی قبر پر بھینس باندھ دی گئی، فائدہ۔۔۔۔؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔