عمران زرداری ایک دن کا اتحاد۔ باقی انتخابات کے بعد

مزمل سہروردی  ہفتہ 17 مارچ 2018
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

سینیٹ چیئرمین کے لیے بننے والا اپوزیشن کا اتحاد اپنا مقصد حاصل کرنے کے اگلے دن ہی ٹوٹ گیا۔ لیکن شاید یہ اتحاد بنایا ہی ایک دن کے لیے گیا تھا۔ اس کی مدت ایک دن ہی تھی۔ بس ٹارگٹ یہی تھا کہ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب جیت لیا جائے اور شاید یہ بھی طے تھا کہ بس اگلے دن اس کو توڑ دیا جائے گا۔

یہ اتحاد ایک دن سے زیادہ قائم ہی نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ غیر فطری تھا۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی کی طرح یہ اتحاد بھی شیر کی طرح ایک دن قائم رہا۔ لیکن جہاں اس کی مخالفت میں بہت سے دلائل موجود ہیں وہاں اس کے حق میں ایک ہی دلیل کافی ہے کہ یہ ایک کامیاب اتحاد تھا جس نے ایک ہی دن میں شیر کو چاروں شانے چت کر دیا۔ اپنا ہد ف کامیابی سے حاصل کیا۔ میدان سیاست میں سب کو حیران کر دیا۔ ناممکن کو ممکن کر بنایا۔ اس لیے بنانے والوں کو اس کی مزید ضرورت ہی نہیں تھی۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے لیے آصف زرداری اور عمران خان کے درمیان اختلاف اور تنازعہ بھی اسی اسکرپٹ کا حصہ ہے جس اسکرپٹ کے تحت دونوں میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے مفاہمت ہوئی تھی۔ جیسے مفاہمت طے تھی ایسے ہی لڑائی بھی طے تھی۔ اس لیے سب اسکرپٹ کے مطابق چل رہا ہے۔

اگر یہ طے ہوتا کہ قائد حزب اختلاف تحریک انصاف کو دینا ہے تو آصف زرداری شیری رحمٰن کو نامزد نہ کرتے۔ لیکن یہ عمران خان کی ضرورت تھی۔ اس لیے شیری رحمٰن کو نامزد کر کے دوستوں نے عمران خان کی مدد کی ہے۔ انھوں نے جو زہر کا پیالہ پیا تھا اس زہر کے اثر کو زائل کرنے میں مدد کی جا رہی ہے ورنہ یہ کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ جو دوست چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا مشکل معاملہ حل کرواسکتے ہیں ان کے لیے قائد حزب اختلاف کا معاملہ حل کروانا کوئی مشکل نہیں ہے۔

سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا اتحاد ایک ٹیسٹ بھی تھا۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان ایک دن کا اتحاد ایک ٹیسٹ تھا کہ کیا یہ اتحاد چل بھی سکتا ہے یا نہیں۔ اس کو بنانے والے خوش ہیں کہ ان کا تجربہ کامیاب ہو گیا ہے۔ اب اس کو دشمن (یعنی ن لیگ ) کے خلاف بھی انتخابات میں کسی اہم موقع پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ شاید اب اس کو اگلے انتخابات کے بعد ہی دوبارہ استعمال کیا جا سکے گا۔ انتخابات سے قبل دوبارہ اس کو استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تا کہ تحریک انصاف کو کسی بڑے نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ آخر تحریک انصاف بچے گی تو یہ ہتھیار کارگر ہو سکتا ہے۔

سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں عمران خان کے لیے پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنا پیپلزپارٹی کے امیدوار کو ووٹ ڈالنا ایک زہر کا پیالہ پینے سے کم نہیں تھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عمران خان نے دوستوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے زہر کا پیالہ پیا ہے۔ اب زہر کا یہ پیالہ عمران خان کی سیاست پر نہایت زہریلے اثرات چھوڑ گیا ہے۔ جن پر قابو پانے کے لیے عمران خان کو شدید جدوجہد کرنا ہو گی۔ عمران خان آج کل شہر شہر پھر رہے ہیں۔ لیکن اس بار وہ اپنے مخالفین کو چت کرنے کے لیے میدان میں نہیں نکلے بلکہ وہ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کے لیے شہر شہر جا رہے ہیں۔ ان کو اندازہ ہے کہ ان سے بہت سی غلطیاں ہو گئی ہیں جن کے اثرات کو کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے۔

عمران خان نے سیاسی طور پر یہ پہلا زہر کا پیالہ نہیں پیا ہے وہ اس سے پہلے بھی کئی سیاسی زہر کے پیالے پی چکے ہیں۔ انھوں نے کئی دفعہ اپنے نظریات سے انحراف کیا ہے۔ وہ اپنی جماعت میں کرپٹ لوگوں کے خلاف کوئی بھی ایکشن لینے میں ناکام رہے۔ مخالفین کی وراثتی سیاست پر تنقید کرتے کرتے وہ خود وراثتی سیاست کی دلدل میں ڈوب گئے۔ وہ ایک طرف نااہل نواز شریف کے مزید سیاسی کردار کے خلاف ہیں اور دوسری طرف جہانگیر ترین کو نااہلی کے بعد مائنس کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ نااہل نواز شریف قبول نہیں لیکن نااہل جہانگیر ترین قبول ہے۔ اسی طرح ملک بھر میں احتساب کا مطالبہ کرنے والے عمران خان کے پی کے، کے احتساب کمیشن کو فعال کرنے میں ناکام ہو گئے۔ عمران خان اپنی جماعت کو تبدیلی کے نمونے کے طور پر بھی پیش نہیں کر سکے۔

ان کی جماعت میں ووٹ بیچنے والے بھی موجود ہیں ووٹ خریدنے والے بھی موجود ہیں۔ پیسے کی سیاست کے خلاف آواز اٹھانے والے عمران خان نے خود ہی سینیٹ کے ٹکٹ پیسے والوں کو دے دئے۔ انھوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک بڑی سیاسی ڈرائی کلیننگ فیکٹری بھی قائم کی۔ جس میں ہر جماعت کے ’’چور ڈاکو‘‘ کو صاف کر کے تحریک انصاف میں شامل کیا گیا۔

ایسے میں یہ سوال بھی جائز ہے کہ جب فردوس عاشق اور نذر گوندل کو تحریک انصاف میں شامل کیا جا سکتا ہے تو پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا کو ووٹ کیوں نہیں دیا جا سکتا۔  اس سب کے باوجود عمران خان کی سب سے بڑی کامیابی یہی رہی ہے کہ انھوں نے اپنا ووٹ بینک قائم رکھا ہے۔ جس طرح سب خرابیوں کے باوجود نواز شریف نے اپنا ووٹ بینک قائم رکھا ہے۔

لگتا یہ ہے کہ اب عمران خان نے ان سب الزامات کو بھی دھونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ باور کروا رہے ہیں کہ بوقت ضرورت وہ زہر کے پیالے بھی پی سکتے ہیں، مفاہمت بھی کر سکتے۔ دشمن سے ہاتھ بھی ملا سکتے ہیں۔ ان میں لچک ہے۔ وہ زرداری کے ساتھ بھی چل سکتے ہیں۔

دوسری طرف زرداری کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ تو عمران خان کے مسائل تھے۔ زرداری کے لیے عمران خان کے ساتھ چلنا کوئی مشکل نہیں۔ وہ تیار ہیں۔ اب صرف انتخابات کا انتظار ہے۔ جو یہ دونوں جماعتیں الگ الگ لڑیں گی پھر نئے مینڈیٹ کے ساتھ شراکت اقتدار کر نے کی کوشش کریں گی۔ جہاں جہاں ممکن ہوا کر لیں گی۔ اس لیے ایک دن کا اتحاد ایک ٹیسٹ تھا جو کامیاب ہو گیا ہے۔ باقی انتخابات کے بعد۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔