روہنگیا کے بعد سری لنکا

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 17 مارچ 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

اخباری اطلاعات کے مطابق سری لنکا میں ایمرجنسی کے باوجود مسجدوں، دکانوں، گھروں پر پٹرول بموں سے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بپھرے ہوئے ہجوم کے سامنے پولیس اہلکار بھی بے بس ہیں۔ اب تک 200 گھروں، دکانوں، گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ 3مسلمان شہریوں کو ہلاک کردیاگیا ہے۔

ایک گھر سے ایک مسلم نوجوان کی لاش بھی ملی ہے۔ علاقے میں تا حال انٹرنیٹ سروس اور سوشل میڈیا بند ہے۔ امریکی دفتر خارجہ، سری لنکن صدر اور وزیراعظم کی طرف سے فسادات کی مذمت کی گئی ہے۔ اب تک 85 افراد کو گرفتار کرلیاگیا ہے۔ بودھ انتہا پسند لیڈر گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ گرفتار افراد میں 10 افراد انتہائی مطلوب بتائے جاتے ہیں۔

روہنگیا کے بعد اب فسادات کا سلسلہ سری لنکا تک پھیل گیا ہے۔ اکثریتی سنہالی آبادی بلا روک ٹوک بلا خوف و خطر مسلمانوں کے گھروں پر حملے کررہی ہے جس سے پورے ملک میں خوف و ہراس کی کیفیت طاری ہے۔

روہنگیا کے بعد اب سری لنکا میں بودھ کمیونٹی کی طرف سے قتل وغارت، جلاؤ گھیراؤ ایک انتہائی تشویش انگیز بات ہے۔ بودھا دنیا کی تاریخ میں امن و آشتی کا استعارہ تھا، گوتم کو دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ امن و آشتی کی علامت کہا گیا۔ بدھا کے معتقدین کی سادگی اور امن پسندی کا عالم یہ رہا ہے کہ وہ بھیک مانگ کر اپنا گزارہ کرتے رہے ہیں ۔ایسی بے ضرر اور امن پسند قوم اچانک اس قدر جارح اور قاتل کیسے بن گئی ہے؟ یہ ایک بہت بڑا اور گہرا سوال ہے جس پر سری لنکا کے اہل علم، اہل دانش کو غورکرنا چاہیے۔

پاکستان اور سری لنکا کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار اور امن پسندانہ رہے ہیں پاکستان میں سری لنکا کی ٹیم پر حملہ ہوا تو پاکستان کی حکومت اور عوام نے اسے بہت سنجیدگی سے لیا اور مدتوں اس سانحے کا ذکر ہوتا رہا، ایسے بہتر تعلقات والے ملک میں مسلمانوں کے خلاف بدھوں کے وحشیانہ حملے دونوں ملکوں کے عوام کے لیے تکلیف دہ ہیں۔

میانمار میں ایک طویل عرصے تک روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی سنگینی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ بدھوں کے حملوں اور قتل و غارت سے خوفزدہ 6 لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور روہنگیا میں اب بھی خوف وہراس کی فضا قائم ہے۔ سری لنکا کا المیہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ایک ایسی قوم امن اور آشتی جس کے حوالے سے جانا جاتا تھا وہ اچانک اس طرح جارحیت پر کیوں اتر آئی۔

دنیا میں انسانی حقوق کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک قائم ہے اور دنیا کے ہر ملک میں انسانی حقوق کی تنظیمیں قائم ہیں۔ حیرت ہے کہ انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیوں پر بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں لیپا پوتی کی کارروائیوں کے علاوہ کوئی ٹھوس کام کرتی نہیں دکھائی دیتیں۔

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام انسانی حقوق کی ایسی بد ترین خلاف ورزی ہے جس کے خلاف نہ صرف میانمار کی حکومت کو سخت ترین اقدامات کرنے چاہئیں تھے بلکہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور دنیا میں انسانوں اور انسانی حقوق کے سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ کو بھی نہ صرف بودھوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تھی بلکہ ان خونی فسادات کی اپنے ادارے کے ذریعے غیر جانبدارانہ تحقیقات کرکے ان عوامل کا جائزہ لینا چاہیے تھا جو روہنگی مسلمانوں کے قتل کا باعث بنے ہیں۔

بد قسمتی سے اقوام متحدہ بذاتِ خود ایک ایسی خانقاہ میں بدل گئی ہے جہاں بے فکرے گداگر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ اقوام متحدہ پر عالمی امن کے تحفظ کی بھاری ذمے داری ہے لیکن یہ ادارہ بد قسمتی سے امریکا کا ذیلی ادارہ بن کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ذمے داریاں جو عالمی امن کی برقراری کے حوالے سے اس پر عائد ہوتی ہیں پس منظر میں چلی گئی ہیں اور پیش منظر میں صرف امریکی مفادات رہ گئے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین میں 70 سالوں سے انسانی جانوں کا بے تحاشا نقصان ہو رہا ہے لیکن اقوام متحدہ آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔

6 لاکھ روہنگی مسلمان بنگلہ دیش کے کیمپوں میں انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں پڑے ہوئے ہیں، بنگلہ دیش کی حکومت روہنگیوں کو بنگلہ دیش سے نکلنے پر اصرار کررہی ہے ۔ روہنگیا میں مقامی بودھ آبادی روہنگیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر چھ سات لاکھ روہنگیا مسلمان کہاں جائیں؟

دنیا کی بڑی طاقتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ پسماندہ ملکوں کے عوام کے مسائل کے حل کو پہلی ترجیح کی حیثیت دے کر انھیں حل کرنے کی کوشش کریں لیکن ان ترقی یافتہ وحشی ملکوں کا حال یہ ہے کہ شام، یمن، عراق میں ہر روز ہونے والی قتل و غارت سے دہشت زدہ عوام اپنے  وطن کو چھوڑ کر پاگلوں کی طرح ضرورت سے زیادہ بھری ہوئی کشتیوں میں سوار ہوکر امن کی زندگی کی خواہش میں یورپی ملکوں کی طرف بھاگ رہے ہیں اور سیکڑوں کی تعداد میں سمندر میں ڈوب کر مررہے ہیں جن میں مرد بھی ہیں، خواتین بھی، معصوم بچے بھی۔

کیا اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل امریکا اور مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں کے سربراہوں کی نظروں سے روز پیش آنے والے یہ انسانی المیے نہیں گزرتے؟ اگر گزرتے ہیں تو ان کے سر ندامت سے جھکتے ہیں؟

روہنگیا کے بعد سری لنکا کے یہ خونیں فسادات بڑھتے ہیں تو کیا روہنگیا مسلمانوں کی طرح سری لنکن مسلمان بھی ترک وطن پر مجبور ہوںگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ساری دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی مسئلہ دہشت گردی ہے اور ساری دنیا اس خطرے سے سہمی ہوئی ہے اور ترقی یافتہ ملک بھی اس بلا سے خوف زدہ ہیں لیکن یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ روس اور امریکا اس نازک گھڑی میں بھی مفاداتی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔ جس کا شاہکار شام بنا ہوا ہے۔

شام میں روس صدر اسد کا حامی ہے اور امریکا صدر اسد کا کٹر دشمن ہے اور دونوں گروہوں کی چپقلش کے نتیجے میں ایک دوسرے کے علاقوں پر اندھا دھند بمباری سے ہر روز سیکڑوں بے گناہ شہری ہلاک ہورہے ہیں۔

یہ بات طے ہے کہ جب تک دنیا ہے سیاست دانوں کی حکومت قائم ہے امن کے حصول کا خیال، خیال است و محال است و جنوں کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے قومی مفادات کے تحفظ کا جو نشہ سیاست دانوں کو پلادیا ہے اس کی جب تک غلط تشریح ہوتی رہیںگی دنیا جہنم بنی رہے گی ۔ دنیا ہزاروں سال سے خون خرابے کا شکار ہے خواہ اس کی نوعیت کچھ ہی کیوں نہ ہو اب انسان ماضی کا جاہل انسان نہیں ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی مفادات کو عالمی مفادات کے تابع کیا جائے اور انسانوں کی تقسیم کو صرف انسانوں کی شناخت تک محدود کردیا جائے تو خون خرابے اور نفرتوں میں کمی کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔