’’بالواسطہ ‘‘ دھوکا

اکرام سہگل  ہفتہ 17 مارچ 2018

حکمران اتحاد کا موقف ہے کہ سینیٹ الیکشن ان کے ہاتھ سے ’’چھین‘‘ لیا گیا اور حزب اختلاف کے پینل کو توقع کے برخلاف زیادہ ووٹ ملے۔ کوئی شے اسی وقت کسی کے ہاتھ سے ’’چھینی‘‘ جاسکتی ہے جب وہ اس کے ہاتھ میں بھی تو ہو۔ کیا انتخابات کے انعقاد سے پہلے واقعی سینیٹ نواز شریف کے ’’پاس‘‘ تھی؟ ان کے نزدیک جمہوریت کی انوکھی تعبیر ہے کہ انتخابی نتائج عدالتی فیصلوں کے صحیح یا غلط ہونے کا پیمانہ ہیں، اسی لیے حزب اختلاف کی کام یابی سے ان پر جو پریشانی کی حالت طاری ہے وہ اس میں حق بجانب ہیں۔

ان کی اسی منطق کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی نااہلی کا عدالتی فیصلہ درست تھا! مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو بطور ’’آزاد امیدوار‘‘ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے کر  سینیٹ انتخابات میں سر اٹھانے والے تنازعات کو مزید ہوا دی گئی۔ اگران امیدواروں کے کاغذات نامزدگی چیلنج کر دیے جائیں تو ، کیا عجب کہ سینیٹ کے انتخابات کی قانونی حیثیت پر سوال کھڑے ہوسکتے ہیں؟

ایک مدت ہوئی، ایوان بالا کے بالواسطہ انتخاب پر ووٹوں کی کھلم کھلا خریدوفروخت کی وجہ سے شدید تنقید ہورہی ہے۔ پاکستان میں حقیقی روح کے مطابق جمہوریت کی نشو و نما میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ صورت حال کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ کوئی اس مضحکہ خیز صورت حال کی وضاحت کرسکتا ہے کہ ہماری سینیٹ برطانیہ کے غیر منتخب ہاؤس آف لارڈز کے بجائے امریکا میں براہ راست منتخب ہونے والی سینیٹ کی طرح کیوں نہیں ہوسکتی؟

برطانوی نظام کے ماڈل پر ہماری قومی اسمبلی کے لیے براہ راست انتخاب ہوتاہے جب کہ سینیٹ کے لیے یہ طریقہ نہیں اپنایا جاتا۔ ہمارے ہاں رائج جمہوریت نوآبادیاتی دور کی یاد گار ہے، یہ جاگیرداری کے سامنے سرنگوں اور دراصل جمہوریت کے نام پر مذاق ہے اور من مانی تعبیرات ہی سے اسے جمہوریت ثابت کیا جاسکتا ہے۔

میگنا کارٹا نے گیارہ صدیوں پہلے ہی یہ بات ثابت کردی تھی کہ جاگیرداروں کی سرشت میں یہ بات شامل ہے کہ یہ وہی وعدہ کرتے ہیں جسے بلاخوف و خطر اور جوابدہی کے بغیر بہ آسانی توڑا جاسکے۔ انھوں نے بے خوف ہوکر صدیوں سے چلی آتی اپنی موروثی جاگیرداری کو ’’جمہوریت‘‘کا بہروپ دیا، برطانوی فخر سے اسے ’’آئینی بادشاہت‘‘ کہتے ہیں۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران میں برطانیہ میں ہونے والے جرمن مخالف احتجاج کو دیکھتے ہوئے شاہی خاندان نے، اپنے ’’آئینی بادشاہت‘‘کے فریب کو جاری رکھنے کے لیے، 1917میں اپنا پرانا نام “Saxe-Coburg and Gotha” تبدیل کرکے ’’ہاؤس آف ونڈسور‘‘ رکھ دیا، جو سننے میں زیادہ برطانوی محسوس ہوتا تھا۔ حکومت ’’عوام کی، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے‘‘ کے بنیادی اصول کو مسخ کرنے کی وجہ سے ہماری ’’جمہوریت‘‘ اپنے باطن میں ’’آئینی بادشاہت‘‘ کے مقابلے میں زیادہ ناقص ہے۔

کوئی سوچ بھی کیسے سکتا ہے کہ ہمارے ’’جمہوری‘‘ جاگیردار لیڈر کبھی ’’مقامی حکومتوں‘‘ کو چلنے دیں گے۔ اگست 2015کے ’’ٹیلی گراف‘‘ میں لیو مک انسٹری نے بالواسطہ انتخاب پر جو شدید تنقید کی تھی وہ پاکستان میں جاری صورت حال کی جھلک تھی۔ انھوں نے لکھا تھا:’’دارالامرا کا تسلسل برطانوی سیاست پر بزدلی اور جمود کی فرد جرم کے مترادف ہے۔ جدید جمہوریت میں اس قدر بڑے اور فرسودہ ایوان کی کوئی گنجایش نہیں۔۔۔اس کے وجود کو جواز فراہم کرنے کے لیے پیش کی جانے والی ہر دلیل غلط ہے۔

اس کا دفاع کرنے والے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ایوان دانش مند سیاسی مدبرین، اعلیٰ پائے کے ماہرین  اور ممتاز سرکاری ملازمین سے بھرا پڑا ہے۔ اس بات میں اب سچائی باقی نہیں رہی۔ اس کے ارکان میں طاقت ور کونسلرز، سیاسی جماعتوں کے عہدے داران، ناکام ارکان پارلیمان اور پارٹیوں کو چندہ دینے والوں کی اکثریت ہے۔‘‘ ہمارے ہاں ’’بالواسطہ‘‘ منتخب ہونے والی سینیٹ مک انسٹری کی ان سطور پر پوری اترتی ہے۔ اس بالواسطہ انتخاب میں فریب کاری اور چال بازی کا بھرپور مظاہرہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں جاگیردارانہ نظام کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ اسے جمہوری تصورات کی توہین ہی کہا جاسکتا ہے۔

بالواسطہ منتخب ہونے والے یہ افراد بعد میں بالواسطہ منتخب ہونے والے صدر کے لیے حلقہ انتخاب بنتے ہیں اور نظام مزید کرپشن کا شکار ہوتا ہے۔ رومی جمہوریہ میں زیادہ تر حکام ، سینیٹ کے ارکان کے بشمول، گنے چُنے دولت مند اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے خاندانوں سے آتے تھے۔ طاقتور رومیوں کی اقلیت شاطرانہ حربوں سے پورے نظام پر مضبوط گرفت قائم رکھے ہوئے تھی۔ ہمارے ہاں منتخب ہونے والے سینیٹر اپنی مقبولیت، اہلیت، یا دیانت کے بل بوتے پر ایوان میں نہیں پہنچتے اور نہ ہی وہ دنیا بھر میں مروج طریقہ انتخاب میں کام یابی حاصل کرسکتے ہیں۔ کیا یہ بیس صدیوں پرانی رومی سینیٹ سے کسی بھی طور مختلف ہیں؟

ہم سینیٹ نشستوں پر ایسے لوگوں کا انتخاب تو کیا روکتے جو اسے اپنا ’’پیدائشی حق‘‘ سمجھتے ہیں، اس سے بڑھ کر بالواسطہ انتخاب نے ایک اور بدترین صورت اختیار کرلی ہے۔ سینیٹ انتخابات 2018 کو سبھی ’’جمہوری‘‘ پارٹیوں نے تنقید کا نشانہ بنایا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کیوں اس کے طریقۂ انتخاب کی اصلاح ناگزیر ہوچکی ہے۔

تمام صوبوں کو یکساں نمایندگی دینا ہی کافی نہیں۔ اچھے طرز حکمرانی کے ہدف حاصل کرنے لیے سینیٹرز کو پاکستان کے وفاقی نظام کا گہرا فہم حاصل ہونا چاہیے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ یہ نظام کیوں مؤثر انداز میں فعال نہیں۔ انھیں ایوان کی کارروائی چلانے کے لیے بنائے گئے قواعد و ضوابط ہی کا علم ہونا ضروری نہیں بلکہ دیگر قابلیتوں کے ساتھ عوامی خدمت ، پیشہ ورانہ شعبوں میں کام کا تجربہ بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے منصب کی مدت پوری کرنے کے ساتھ کوئی مثبت تبدیلی لانے کے لیے بھی کام کرنے کے قابل ہوں۔

موجودہ طریقہ کار میں سینیٹ کے لیے ’’چنیدہ‘‘ افراد بالواسطہ ’’منتخب‘‘ ہوجاتے ہیں۔ اس عمل میں ہارس ٹریڈنگ کے بدترین الزامات نے جمہوریت ہی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ مدتوں سے یہ مطالبہ سامنے آتا رہا ہے کہ سینیٹ میں بھی کھلے عام رائے دہی اور براہ راست انتخاب کاطریقہ اپنایا جائے۔ تبھی اس ایوان کا اعتبار قائم ہوگا اور اس پر صرف ہونے والے کثیر قومی سرمائے سے صرف نظر کیا جاسکے گا۔

اگرچہ سینیٹ کی بنیاد تمام صوبوں کو یکساں نمایندگی فراہم کرنے کے تصور پر رکھی گئی تھی لیکن یہ اپنے اصل مقصد کے برخلاف سیاسی جماعتوں کی نمایندگی کا ایوان بن چکا ہے۔ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے ہونے والے حالیہ انتخاب میں یہ بات مزید واضح ہوگئی کہ سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کے لیے لین دین اور بھید بھاؤ میں مصروف رہیں، ان میں سے کچھ کے نام آخری وقت تک راز میں رکھے گئے۔

2018کے سینیٹ انتخابات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کی قیادت جمہوریت کا کتنا فہم رکھتی ہے اور اس پر عمل درآمد کے لیے کتنی آمادہ ہے۔ یہ سینیٹ انتخابات ہمارے سیاسی منظر نامے پر ، آیندہ عام انتخابات کے دوران بھی، اثرانداز ہوں گے۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ وفاداریوں کی خرید و فروخت اس انداز میں آیندہ عام انتخابات(جب بھی منعقد ہوں) میں سامنے  نہیں آئے گی۔ نواز شریف پہلے ہی سپریم کورٹ سے نااہلی کے خلاف ووٹ کو حقیقی فیصلہ قرار دے چکے ہیں اور ان کی ساری تگ و دو بھی اسی لیے ہوگی۔

روایتی ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی راہ اپنانے کے بجائے افواج عام طور مسئلہ ’’حل‘‘ کرنے کا انتخاب کرتی ہیں، موجودہ حالات عدلیہ کو پورا جواز فراہم کرتے ہیں کہ وہ صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنے کے بجائے عدالتی ’’نظریہ ضرورت‘‘ کو استعمال میں لائے۔

جسٹس اولیور وینڈل ہولمز نے یہ تصور دیا تھا کہ واضح درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے قانون کے الفاظ کے بجائے اس کی روح کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔  کیا ایسے وقت میں صرف آئین کی اندھی پاسداری کی جاسکتی ہے جب جمہوریت سماج میں جرائم عام کرنے والوں کے لیے خوش نما نقاب بن کر رہ گئی ہو؟ اخلاقی طور پر قوم اور عوام کی جانب سے عائد ہونے والی ذمے داریوں اور فریضوں سے دامن نہیں چھڑایا جاسکتا، اس کے لیے آئین کی عبارتوں کی تشریحات میں پناہ لے کر فرار اختیار کرنا بددیانتی اور بزدلی کے مترادف ہوگا۔

(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔