دیوتاؤں کے بارہ مخالفین

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 17 مارچ 2018

زندگی بھر انسانوں اور ان کی قوتوں کے پوشیدہ سرچشموں کا مطالعہ کرنے کے بعد عظیم ماہر نفسیات الفریڈ ایڈلر نے اعلان کیا کہ انسان میں ایک تعجب خیزخوبی یہ ہے کہ اس کے پاس منفی کو مثبت میں بدل دینے کی قوت ہے ۔’’دیوتاؤں کے بارہ مخالفین‘‘ کے مصنف ولیم بولیتھو اسے یوں بیان کرتے ہیں دنیا میں اہم ترین چیز یہ نہیں ہے کہ تم اپنے منافعے کو بڑھاتے رہو، بے وقوف بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ درحقیقت اہم ترین چیز یہ ہے کہ تم اپنے خسارے سے منافع حاصل کرو، یہاں ذہانت کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ ہی عقل مند اور بے وقوف کے درمیان حد فاصل قائم کرتی ہے۔

بولیتھو نے یہ الفاظ اس وقت کہے جب ریل کے ایک حادثے میں اس کی ایک ٹانگ جاتی رہی، دنیا کے کامیاب انسانوں کی زندگیوں کا جس قدر زیادہ مطالعہ کیا جائے تو اتنا ہی یقین پختہ ہوتا چلا جائے گا کہ ان لوگوں کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے رکاوٹوں اور مشکلوں سے آغاز کیا جنہوں نے ان کی عظیم کامیابیوں اور فتح مندیوں کے لیے مہمیزکا کام دیا۔ ولیم جیمز کے الفاظ میں ہماری کمزوریاں غیر متوقع طور پر ہماری امداد کرتی ہیں۔ یہ بالکل حقیقت ہے ملٹن بہترین شاعری اس لیے لکھ سکا کیونکہ و ہ اندھا تھا۔ بیتھوون نے موسیقی کی آفا قی دھنیں ایجاد کیں کیونکہ وہ بہرا تھا۔

ہیلن کیلر کی درخشاں حیات کے پیچھے اس کی عدم بصارت اور بہر ے پن کا ہاتھ ہے اگر چیکو وسکی اپنی المناک شادی سے مایوس ہوکر خو دکشی کرنے کے لیے تقریباًآمادہ نہ ہو جاتا اور اگر اس کی اپنی زندگی دردنا ک نہ ہوتی تو وہ شاید کبھی بھی اپنی غیر فانی رقت انگیز سمفنی ایجاد نہ کر سکتا۔ اگر دوستوفسکی اور ٹالسٹائی کی زندگیاں دکھ بھری اور اذیت ناک نہ ہوتیں تو غالباً وہ کبھی بھی اپنے غیر فانی ناول تصنیف نہ کرسکتے۔

نامور ناول نگار مسز تھامپسن اپنی کہانی سناتے ہوئی کہتی ہیں ’’دوران جنگ میرے شوہر کو نیو میکسیکو میں صحرائے موجیو کے قریب ایک فوجی تربیتی کیمپ میں تعینات کیاگیا۔ میں بھی وہیں چلی گئی تاکہ اس کے پاس رہوں، مجھے اس جگہ سے نفرت تھی میں ایک چھوٹی سے جھونپڑی میں رہتی تھی، گرمی ناقابل برداشت تھی۔

میکسیکو اور حبشیوں کے سوا وہاں بات چیت کرنے کے لیے کوئی دوسری مخلوق نہیں تھی اور وہ بھی انگریزی سے نابلد اور میں ان کی زبان سے ناآشنا۔ ہر وقت لو چلتی رہتی تھی میرا کھانا ریت سے بھر جاتا تھا جس فضا میں سانس لیتی تھی وہ ریت سے اٹی ہوئی ہوتی تھی ، میں اس قدر دکھی تھی کہ مجھے اپنے اوپر ترس آنے لگا اور گھبرا کر اپنے والدین کو خط لکھ دیا کہ میں یہاں کی زندگی ایک منٹ کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتی، اس سے تو جیل کی چار دیواری ہی اچھی ہے۔

میرے والد نے اس کے جواب میں صرف دو سطریں لکھیں ان دو سطروں نے میری زندگی کی کایا پلٹ دی۔ انھوں نے لکھا ’’دو آدمیوں نے جیل کی سلاخوں سے جھانک کر باہر دیکھا ایک نے ستارے دیکھے اور دوسرے کوکیچڑ نظر آئی‘‘ میں نے ان سطروں کو بار بار پڑھا مجھے اپنے اوپر شرم آنے لگی اور میں نے تہیہ کر لیا کہ میں ستاروں کو تلاش کرونگی۔ پھر میں نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ دوستی کر لی تو انھوں نے مجھے اپنی ایسی ایسی شاندار چیزیں بطور تحفہ دیں جنہیں وہ سیاحوں کے پاس بیچنے سے انکارکر دیتے تھے۔

صحرا میں آفتاب کے طلوع اور غروب ہونے کے نظاروں کو دیکھتی سمندری سیپیوں کی تلاش کرتی جو وہاں لاکھوں سال سے پڑی تھیں جب صحرا سمندر ہوا کرتا تھا اور مجھ میں تعجب خیز تبدیلی پیدا ہو گئی۔ صحرائے موجیو نہیں بدلا تھا حبشی نہیں بدلے تھے لیکن میں ضرور بدل گئی تھی میرا ذہنی رویہ بدل گیا تھا میں نے ایک نئی دنیا دریافت کر لی تھی جس نے میرے اندر ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا کر دیا تھا اس نے میرے جذبات کو اس قدر ابھار دیا کہ میں نے اس کے متعلق ایک ناول لکھا جو ’’روشن پشتے‘‘ کے نام سے شایع ہوا میں نے اپنے بنائے ہوئے زندان کی سلاخوں سے با ہر جھانکا اور ستاروں کو پا لیا۔‘‘

مسز تھامپس نے ایک بہت پرانی حقیقت کو دریا فت کر لیا تھا جس کا پانچ سو سال قبل از مسیح یونانی پرچار کیا کرتے تھے ’’بہترین چیزیں انتہائی مشکل ہوتی ہیں ‘‘میرے ہم وطنوں یاد رکھیں کہ آپ میں بھی منفی کو مثبت میں تبدیل کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت موجود ہے آپ بھی ہر ناممکن کو ممکن کر سکتے ہیں۔

ذہن نشین رکھیے گا اس زیادہ مشکلات ممکن نہیں ہیں جو آپ برداشت کر رہے ہیں لیکن اگر آپ اپنی مشکلات کی عزت کرنے لگے ہیں تو پھر ہر بات بیکار ہے اگر نہیں تو پھر آئیں مل کر اپنی مشکلات کی بے عزتی کرتے ہیں انھیں ذلیل و رسوا کرتے ہیں اور انھیں اتنا پریشان کر دیتے ہیں کہ کبھی دوبارہ ہماری طرف رخ کرنے کا سوچیں بھی نہیں۔ اس سے پہلے بس ہمیں اپنے رویے تبدیل کرنا ہونگے کیونکہ آسانی، خوشحالی اور ترقی کے لیے کسی بھی معاشرے میں سب سے ضروری عنصر تبدیلی کا ہوتا ہے۔

تبدیلی رویے تبدیل کرنے کا نام ہے سوچ کو تبدیل کرنے سے رویے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اصل میں ہم ان عقائد و تاریخی حقائق کو جو ہمیں ورثے میں ملتے ہیں بغیر سوچے سمجھے قبول کر لیتے ہیں، اس کی ایک تو یہ وجہ ہے کہ انسان غور و فکر سے جی چراتا ہے اور دوسری یہ کہ ان کی جانچ پرکھ کا عمل خاصا اذیت ناک ہوتا ہے۔ اس لیے عمر گزرنے کے ساتھ غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے ذہن میں ان گنت جالے بن جاتے ہیں اور ہم ان جالوں سے اس قدر مانوس ہو جاتے ہیں کہ انھیں صاف ہی نہیں کرنا چاہتے۔

معاف کیجیے گا ہم 67 سال سے کچھ نہیں کر رہے بس چوراہے پر بیٹھے آنے جانے والوں کو دیکھ رہے ہیں اور جب تھک جاتے ہیں تو گھر جاکر سوجاتے ہیں اور صبح دوبارہ وہیں آکر بیٹھ جاتے ہیں نہ ہمیں اپنی صلاحیتوں کا علم ہے نہ ہمیں اپنی منزلوں کا پتہ ہے اور نہ ہی ہمیں اپنے حالات کو تبدیل کرنے میں کوئی دلچسپی ہے۔

بس ایک ہی گیت گائے جا رہے ہیں جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا ۔ تو پھر ظاہر ہے پیدا گیروں، لٹیروں، غاصبوں کی عید تو ہونی ہی ہے۔ ان کے لیے اس سے زیاد ہ اچھے حالات اور کیا ہو سکتے ہیں۔ جب انسان اپنا دشمن آپ ہو تو پھر اسے دشمنوں کی کیا ضرورت ہے۔ معاف کیجیے گا ہم اپنے دشمن آپ بنے ہوئے ہیں اگر ہم اپنے حالات تبدیل کرنا چاہتے تو پھر ہمیں اپنے آپ سے محبت کرنا ہوگی اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہمیں اپنے آپ پر ترس آجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔