اس جمہوریت سے اس جمہوریت تک

جاوید قاضی  ہفتہ 17 مارچ 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

سیاست کے اس اکھا ڑے میں کیا کیا نہیں ہوتا۔ سیاست زمینی حقائق پر ہوتی ہے، باقی سب خیالی باتیں ہیں۔ سیاست اقتدارکو پانے کے لیے ہوتی ہے۔ سیاست کا مطمع نظر اقتدارکو حاصل کرنا ہی ہے، جوکچھ اوپر بیان کیا ہے وہ سیاست کا فقط ایک زوایہ ہے۔ سیاست میں فلسفی بھی ہوتے ہیں۔ انھیں اقتدارکی ہوس اور لالچ نہیں ہوتا وہ حالات کو پرکھتے بھی ہیں اور حل بھی بتاتے ہیں۔ سیاست میں قلمکار بھی ہوتے ہیں،کچھ نقاد اورکچھ درباری بھی۔

سیاست میں پرنٹ میڈیا الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور اینکرز بھی ہوتے ہیں۔کچھ فیک نیوزکا کاروبار بھی کرتے ہیںاورکچھ حقائق بھی بیان کرتے ہیں۔ یہ جو بھی ہے آج معاشرہ ان کے لیے میدان جنگ ہے جہاں کئی سورج طلوع وغروب ہوتے ہیں۔کبھی انقلا ب برپا ہوتے ہیں توکبھی بیلٹ باکسز میں اتنی بڑی تبدیلی آ جاتی ہے جوکہ شاید انقلا ب بھی نہ لاسکے، مگر بات یہ ہے کہ معاشرہ منزل بہ منزل اپنی ماہیت تبدیل کرتا ہوا ارتقائی منازل طے کرتا ہے، آگے بڑھتا رہتا ہے۔

کتنے نشیب و فراز آئے ہوں گے، پا کستان بنا، کشمیر پر قبضہ ہو ا، پاکستان کے وجود میں آتے ہی پہلی جنگ 1948ء میں ہندوستان کے ساتھ ہوئی۔گوروں نے جو قوانین بنائے کہ متحدہ ہندوستان کی ریاستوں جہاں راجہ اور مہاراجاؤں کا راج ہے، ان ریا ستوں کے جانے کا فیصلہ وہاں کے عوام نہیں، بلکہ راجا اور مہاراجہ کریں گے۔ ہندوستان اور پاکستان کی ریاستوں کو جو آزادی ملی وہ تھی تو جمہوریت کے فیصلوں پر مگر Adult Franchise نہ تھا یقینی بالغ فرنچائز نہ تھی۔

یہ حق پاکستانی شہری کو 1970ء کے انتخابات میں ملا اور پھر دیکھا جائے تو بالغ فرنچائزکس طرح سے استعمال ہوا کبھی انڈیاکو مودی دیا توکبھی جرمنی کو ہٹلر اور امریکا کو ٹرمپ۔ جمہوریت جب اپنی ارتقائی منزل کی طرف رواں ہوتی ہے تو اس میں بھی بڑے نشیب وفراز آتے ہیں۔کبھی ایک قدم آگے تو دو قدم پیچھے پرکبھی مکمل ہو نہیں پاتی، کبھی Diluted جمہوریت تو کبھی Non-Diluted تو کبھی Quasi جمہوریت۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے پاپولر لیڈر کو لائسنس مل گیا ہو، تاریخ مسخ کرنے کا لائسنس۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کرنے کا لائسنس۔ وہ اتنا پاپولر ہو جاتا ہے کہ پارٹی کو بلیک میل کرنا شروع ہو جاتا ہے اور پارٹی اس کے خاندان کی میراث بن جاتی ہے جیسے کوئی پرائیوٹ لمیٹڈکمپنی ہو۔

باپ جائے تو بیٹے کو وراثت مل جاتی ہے پھر پوتوں اورنواسوںکو ۔آج پاکستان میں مسلسل تین بیلٹ باکس ہونے کی تاریخ بننے جا رہی ہے مگر آمریت ہو یا جمہوریت لوگوں کے لیے نہ اسکول، نہ اسپتال اور نہ عدالتیں ہیں۔ باقی گرین بس اور میٹرو ٹرین جیسے پروجیکٹس ملتان میں اربوں روپے کی مالیت سے بنے ان پروجیکٹس کی بسیں خالی ہیں، پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ موٹروے بن گئے، راستوں کو بنایا گیا مگر نہ اسکول نہ اسپتال بنے، نہ صاف پانی کے لیے واٹرٹریٹمنٹ پلانٹس بچوں کی اموات کے حوالے سے ہم دنیا میں سب سے آگے ہیں۔

عورتوں کی پسماندگی میں بھی اول نمبر پر ہیں۔ بچوں کی اسکول میں انرولمنٹ کے حوا لے سے بھی ہم دنیا کے چند بدترین ممالک میں سے ایک ہیں۔ ہم ذہنی معذور بچوں کے حوالے سے بھی دنیا کے بدترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں، جسمانی طور پرکمزور اورذہنی مفلوج اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ یہ غذائی قلت کے شکار ہوتے ہیں۔

میں یہ اعتراف کرتا ہوںکہ سندھی بحیثیت ایک قومMalnutrition قوم ہے۔ پہلے انگریزوں نے غلام بنایا پھر وڈیروں نے اور پھر آمریتوں نے اور پھر تیسر ے بیلٹ باکس کے ذریعے سندھ میں ایک غلامی اور سہی۔ ہمارے سندھ کا مڈل کلاس جو بنا وہ بھی سرکاری نوکریوں سے بنا ۔کارخانے لگے نہ سروس سیکٹر میں کچھ ہو ا۔ یہ نوکریاں بھی وڈیروں کے ہاتھوں سے بانٹی گئیں شاید ذلت و رسوائی کی کئی منزلیں طے کرنے کے بعد ۔کمیشن درکمیشن ہے ہر چیز میں ملاوٹ، دودھ میں، دوائیوں میں، پانی میں، اجناس میں مطلب سب چور ہیں۔ بجٹ کے چور، ٹیکسزکے چور، ترقیاتی کامو ں کے چور، سرکاری زمینوںکے قابض اور جو بیانیہ پر ووٹ دیتے ہیں وہ بھی ڈسے ہوئے ہیں کیونکہ بیانیہ میں بھی ملاوٹ ہے کیونکہ بیانیے کی تاریخ میں ملاوٹ ہے۔

جس تاریخ میں غاصب ہیرو ہے اور نفرت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اصل ہیرو غدار ۔ایک طویل فہرست ہے اندوہناکی کی۔ معاملہ ٹھیک ہو تو شروعات کہاں سے کریں آغاز کہاں سے کریں اور انجا م کہاں۔ ہر ایک نے اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ اس شہر نابینا میں، جن کے پاس آنکھیںہیں، ان کو چیخنا چلانا پڑے گا کہ ان بہروں کے کانوں تک بھی کچھ بات پہنچے۔

ورنہ خطرہ یہ ہے کہ یہ جمہوریت بھی یرغمال ہوجائے گی۔ جس طرح کل وکلاء کی تحریک یرغمال ہوئی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے انقلاب بھی منزل تک نہ پہنچ سکے۔ سویت یونین میں کیا ہوا، پورا سوشلسٹ بلاک ٹوٹ گیا کہ خرابی کال مارکس کے فلسفے میں نہ تھی مگر سماج اتنے کمزور تھے کہ وہ سوشلسٹ انقلاب کو سمو نہ سکے۔

جمہوریت کیا ہے؟ مارکیٹ اکانومی کا دوسرا پہلو یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب Capitalism ہے اور اس کی وسعتیں۔ سرمایہ داری کیا ہے؟ لالچ اس کا بنیادی محور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری جمہوریت آج اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے اور امریکا ٹرمپ کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ کئی ایسی خانہ جنگی ہے شام سے لے کر عراق تک یا دونوں عظیم جنگیں Capitalism کی تشریح کا ہی نتیجہ ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سرمایہ داری کے سب سے بڑے نقاد کال مارکس ہیں جیسے فرعون کے گھر میں موسیٰ کی پرورش۔

جس طرح اسپارٹیکس نے غلاموںکی جنگ لڑی تھی اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کی تمام ایجادات اسی سرمایہ داری کی دین ہیں اور اس کی سب سے بڑی برائی ہے کہ بالائی اور نچلے طبقے کے فرق کو مضبوط کرتا ہے۔Haves اور Have not میں تقسیم کر دیا ہے دنیا کو اس تمام فرق کو مٹانے کے لیے خود سرمایہ داری کو ختم کرنا پڑے گا۔

یہ تو شروعات ہے اِس جنگ کی، ہمیں اس جمہوریت کو انسانی اقتدارکے ساتھ جوڑنا پڑے گا۔ بنیادی حقوق کی پاسداری کرنی پڑے گی۔ سرمایہ داری کی وسعت کو محدود کرنا پڑے گا` اس یقین کے سا تھ کہ ہماری پارلیمنٹ میں صرف اشرافیہ ہی نہیں بلکہ عام آدمی بھی جا سکتا ہے اور اس کے لیے ہمیں رنگ ونسل کے امتیازی فرق کو مٹا کر ایک ہونا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔