جوتا چھپائی کی رسم

انیس منصوری  ہفتہ 17 مارچ 2018
muhammad.anis@expressnews.tv

[email protected]

تاریخ کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ گھوم گھوم کر ایسے تھپڑ مارتی ہے کہ اچھے اچھے رستم اپنے ہی قتل کے جرم میں پھانسی چڑھا دیے جاتے ہیں ۔ جب اپنے دامن پر چھینٹ آتی ہے تو سرخ رنگ سے نفرت ہو جاتی ہے، لیکن اگر دوسروں کے خون کی لکیریں بہہ رہی ہوں تو انھیں ہولی کا تہوارکہہ کر بھول جاتے ہیں۔

آپ کو آج تیسرا اور چوتھا ہاتھ نظر آتا ہے۔آج آپ کو پارلیمنٹ کی توقیر نظرآتی ہے، مگر تاریخ کے ان سیاہ دنوں کوکیسے بھول جائیں گے، جب آپ کالے کوٹ پہن کر، سرخی پاوڈر لگا کر عدل وانصا ف کو پکار رہے تھے۔ جو لوگ آج یہ فرما رہے ہیں کہ بینظیر اگر آج ہوتی تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ انھیں میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ بینظیرکے بارے میں کیا کہتے تھے۔

آئیے! میں آپ کو 20 سال پیچھے لے کر جاتا ہوں۔ بینظیر بھٹوکا دوسرا دور ِحکومت تھا۔ بینظیر جسے اپنا بھائی کہتی تھی وہ صدرکے عہدے پر فاروق لغاری کے نام سے بیٹھا تھا۔ جس جسٹس سجاد علی شاہ کو نواز شریف نے ہٹایا تھا وہ اُس وقت چیف جسٹس تھے۔ بینظیر کی حکومت اور عدلیہ کے درمیان سرد جنگ اب کُھل کر سامنے آ چکی تھی۔

نواز شریف کی دلی خواہش تھی کہ یہ محاذ آرائی اس حد تک پہنچ جائے کہ بینظیرکو حکومت سے الگ کر دیا جائے۔ جس طرح آج کل شریف بھائیوں کے اختلافات کی خبریں آ رہی ہے اسی طرح سے ہر کوئی جانتا تھا کہ بینظیر کی اپنے ’’بھائی‘‘ فاروق لغاری سے بن نہیں پا رہی ہے، اگر میں غلط ہوں تو کوئی مجھے صحیح کر دے کہ 24 جنوری 1996ء کو سپریم کورٹ نے ایک دھمکی آمیز فیصلہ یہ سنُایا تھا کہ 23 مارچ تک حکومت ہر صورت میں عدلیہ کو انتظامیہ سے آزاد کر دے۔

صورتحال بہت واضح ہو چکی تھی۔ حکومت اور عدلیہ کے ججز کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو چکا تھا۔ پیپلز پارٹی کو یہ اشارے مل چکے تھے کہ اب معاملہ یہاں رک نہیں سکتا۔ میں اس تفصیل میں نہیں جا رہا کہ اس فیصلے کے بعد کون کون سے ججز کا تبادلہ ہوا، لیکن راولپنڈی کی ایک عدالت میں ایڈووکیٹ حبیب الوہاب الخیری نے ایک پٹیشن دائرکی۔ سارے صحافیوں کی نگاہ اُس پر تھی۔ اخبارات میں اُس کی رپورٹنگ اُسی طرح سے ہو رہی تھی جیسے آج کل بریکنگ نیوز آتی ہے۔ عدالت نے تیزی سے سب کے دلائل سنے اور یہ کہا کہ اس کا فیصلہ 20 مارچ کو سنایا جائے گا۔ اب فیصلہ سیاسی بنیادوں پر ہونا تھا، اس کے لیے 20 تاریخ اس لیے رکھی تھی کہ عدلیہ حکومت کو 23 مارچ تک کی مہلت دے چکی تھی۔

دوسری طرف ججز کی بغاوت کو روکنے کے لیے ایڈہا ک ججز لائے جا رہے تھے اور پھر 23 مارچ کی مہلت کا انتظارکیے بغیر 20 مارچ 1996ء کو تاریخی فیصلہ آ گیا جس میں عدلیہ نے خود ہی فیصلہ دے کر اپنے آپ کو انتظامیہ سے الگ کرنے کی کوشش کی۔ اگلے دن اُس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ غصے پر مبنی ہے۔ اُس وقت نواز شریف کو جسٹس سجاد علی شاہ بہت اچھے لگ رہے تھے اور نواز شریف نے تاریخی جملہ کہا کہ بینظیرکے رویے سے بغاوت کی بُو آ رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب اسی جسٹس سجاد علی شاہ نے نواز شریف کے خلاف فیصلے دیے تو یہ بغاوت کی بُو پتہ نہیں کہاں چلی گئی تھی۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں مسلم لیگ کے وکیلوں نے عدلیہ کی آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔ بعد میں مسلم لیگ کے دور حکومت میں ان ہی لوگوں نے اسی سجاد علی شاہ کے خلاف نعرے لگائے۔ راجہ ظفرالحق اس وقت سینیٹ کی چیئرمین شپ کے امیدوار تھے، آج خبروں میں ہیں۔ یہ ہی راجہ ظفر الحق اُس وقت بھی خبروں میں تھے۔ وہ نواز شریف کا ایک خصوصی خط لے کر وفدکی شکل میں بینظیرکے ’’بھائی‘‘ اور صدر پاکستان فاروق لغاری کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ خط میں نواز شریف نے لکھا تھا کہ اگر عدلیہ نہ بچی تو پارلیمنٹ بھی نہیں بچے گی۔ اس سے آئینی اور قانونی بحران پیدا ہو جائے گا، جب کہ اسی سجاد علی شاہ کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اگر عدلیہ نے اس طرح کام کیا تو پارلیمنٹ نہیں بچے گی ۔

27 مارچ 1996ء کو آج سے پورے 21 سال پہلے مسلم لیگ نوازشریف گروپ نے قومی اسمبلی میں اُس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو اورکئی وزراء کے خلاف ریفرنس داخل کرایا۔ میں اس ریفرنس کے سنہری الفاظ آپ کو بتانا چاہتا ہوں تاکہ آپ کو یاد رہے کہ 21 سال پرانی تاریخ خود کوکیسے دہرا رہی ہے۔ اس میں کہا گیا کہ کیونکہ وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور وزراء سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں اور اعلیٰ عدالتوں کے جج کی شہرت کو ’’داغدار‘‘ کر رہے ہیں اس لیے ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل ’’63‘‘ کے تحت کارروائی کی جائے اور انھیں ’’نااہل‘‘ قرار دیا جائے۔ میرے خیال سے مسلم لیگ والوں کو تہمینہ دولتانہ کا وہ ریفرنس نکال کر ضرور دیکھنا چاہیے جو انھوں نے بینظیر بھٹو کے لیے دیا تھا۔

نواز شریف آج کل جوکہتے ہیں اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ عدلیہ یا پھر اداروں کے ذریعے حکومت میں آنے کا راستہ نکالا جا رہا ہے۔ بینظیر بھٹو بھی یہ سمجھتی تھیں، اسی لیے انھوں نے اس ریفرنس کے اگلے دن قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا نواز شریف چور دروازوں سے آنا چاہتے ہیں لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ دروازے بند ہو گئے ہیں اور پھر نواز شریف نے اس تقریرکا جواب دیتے ہوئے جوکچھ کہا وہ بھی اس وقت قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ہم عدلیہ کو بلڈوزکرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم عدلیہ کے فیصلوں پر عمل کروا کر دیکھیں گے۔ مکافات عمل ہے اور آج یہ ہی بات عمران خان بار بار نواز شریف کوکہتے ہیں کہ ہم عدلیہ کے پیچھے کھڑے ہیں۔

یہ ماضی کے مزار بھی عجیب ہوتے ہیں، اس میں جگہ جگہ آئینے لگے ہوتے ہیں۔ جو آپ کرتے ہیں وہ آپ کے سامنے لے آتے ہیں۔ یہ ہی چیف جسٹس سجاد علی شاہ ، بینظیر دور حکومت میں نواز شریف کے چہیتے تھے، لیکن اقتدار میں آتے ہی یہ ہی چیف جسٹس برے لگنے لگ جاتے ہیں۔ یہ ہی عدلیہ کی آزادی کے پیپلز پارٹی کے خلاف نواز شریف کالا کوٹ پہن کر افتخار چوہدری کے پاس جاتے تھے اور آج یہ ہی عدالت انھیں بری لگتی ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے سینیٹ الیکشن کا مذاق بنا دیا اور انھوں نے بینظیر کے اصولوں کی خلاف وزری کی ہے۔ وہ ہی لوگ بینظیرکی زندگی میں بینظیر کو سب سے بڑا جھوٹ قرار دیتے ہیں۔ سیاست کے کھیل میں جب اپنی باری ہوتی ہے تو رونا دھونا شروع ہو جاتا ہے۔

آج پیپلزپارٹی عدالت کے ساتھ ہے اور جب یہ ہی عدالت افتخار چوہدری کی ہوتی ہے تو اُس کے خلاف محاذ کھڑا ہو جاتا ہے،اگر دیکھا جائے توکوئی بھی جماعت ہو حکومت میں اداروں کے متعلق سب کا رویہ ایک جیسا ہوتا ہے اور جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو سب کا کردار ایک جیسا ہوتا ہے ۔

اس کا تعلق پیپلز پارٹی، مسلم لیگ یا تحریک انصاف سے نہیں ہے۔ بلکہ کرسی کے آگے اور پیچھے ہونے سے ہے۔ جہاں تک یہ معاملہ ہے کہ کون کتنا نظریاتی ہے تو یہ بات صرف اور صرف موقعے کی ہے۔ سب اپنے اپنے کارڈ کھیلتے ہیں۔ جس کا دن اچھا ہوتا ہے وہ بازی لے جاتا ہے۔ سیاسی کارڈ کسی کا مستقبل نہیں ہوتا۔ چہرے بدل سکتے ہیں لیکن کھیل کے اصول وہ ہی ہیں ۔ 2013ء میں پیپلز پارٹی، متحدہ اور اے این پی طالبان کے حملوں سے جلسے نہیں کر پاتی تھی۔

لوگ مذاق میں کہا کرتے تھے کہ لگتا یوں ہے کہ چیف الیکشن کمشنر طالبان ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر جوتے چلنے کا سلسلہ جاری رہا تو ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی ۔مرکزی کردار جوتے کا ہوگا۔ الیکشن سے پہلے نواز شریف کو ’’جوتا ‘‘ چھپائی کی رسم کرنا پڑے گی، ورنہ پنجاب میں مہم چلانا آسان نہیں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔