تذکرہ خواجہ خورشید انور کا

 ہفتہ 17 مارچ 2018
خواجہ خورشید انور موسیقار کے علاوہ ایک تمثیل نگار، شاعر اور ہدایت کار بھی تھے۔ فوٹو : فائل

خواجہ خورشید انور موسیقار کے علاوہ ایک تمثیل نگار، شاعر اور ہدایت کار بھی تھے۔ فوٹو : فائل

خواجہ صاحب کی موت پر احمد راہی نے کہا تھا، ’’ عزت کی روٹی تو سب کھاتے ہیں، لیکن عزت سے بھوکا رہنا صرف خورشید صاحب کو آتا تھا۔‘‘

یہ تذکرہ ہے عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کا جو 21 مارچ 1912ء کو میانوالی میں پیدا ہوئے۔ اس منفرد موسیقار کے تخلیقی سفر کا آغاز تو 1939ء میں آل انڈیا ریڈیو سے ہوا، لیکن فلمی دنیا میں ان کا نام 1941ء میں سامنے آیا اور پہلی بار فلم کڑمائی بمبئی میں خواجہ صاحب کی موسیقی پر گلوکارہ راجکماری نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ اس گیت کے بول تھے ’ماہی وے راتاں‘ جو فلم نگری میں خواجہ صاحب کا تعارف ثابت ہوا اور پھر فلم نگری میں ہر طرف ان کی دھنوں کا چرچا ہونے لگا۔

خواجہ خورشید انور موسیقار کے علاوہ ایک تمثیل نگار، شاعر اور ہدایت کار بھی تھے۔ ان کے والد خواجہ فیروز الدین ایک مشہور وکیل تھے۔ خواجہ فیروز خود علم و ادب کے شائق اور موسیقی کے دالددہ تھے۔ ان کے پاس کلاسیکی موسیقی کا ایک خزانہ موجود تھا۔ گھر میں موسیقی کے ریکارڈ بجتے تو خواجہ خورشید انور کو بھی اپنی طرف متوجہ کر لیتے۔

ان کے گھر موسیقی کی بڑی محفلیں منعقد ہوتی تھیں جن میں استاد توکل حسین، استاد عبدالوحید خاں، استاد عاشق علی خاں، استاد غلام علی خاں، فیروز نظامی، رفیق غزنوی جیسی شخصیات شرکت کرتی تھیں۔ یوں خورشید انور کو بھی ادب اور موسیقی سے رغبت ہو گئی، اور انھوں نے توکل حسین کی شاگردی اختیار کر لی۔ خواجہ صاحب خاصے کم گو اور تنہائی پسند تھے، مگر بزمِ دوستاں میں اپنی فکر اور اپنے علم کا خوب اظہار کرتے اور لوگ ان سے سیکھتے تھے۔ ان کے رفقاء میں فیض احمد فیض بھی شامل تھے۔

مہدی حسن کی آواز میں ’مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے‘، نور جہاں کی آواز میں ’دل کا دیا جلایا‘، ’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘ اور کئی دوسری خوب صورت دھنوں کے خالق خواجہ خورشید انور نے گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

یہ 1935ء کی بات ہے اور اگلے ہی برس انھوں نے آئی سی ایس کا امتحان بھی پاس کرلیا، مگر انگریز سرکار نے خواجہ صاحب کو سول سروس کے قابل نہ سمجھا۔ وجہ یہ تھی کہ کالج کے زمانے میں وہ بھارت سبھا کا رکن ہونے کی پاداش میں جیل جاچکے تھے اور انگریز راج کے مخالف تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو ایک بم کیس میں بھی دھر لیا گیا تھا، لیکن کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا گیا اور اپنے والد کے اثر و رسوخ کی وجہ سے جلد ہی آزادی مل گئی۔

خواجہ خورشید انور کا شمار گورنمنٹ کالج لاہور کے ہونہار طالب علموں میں ہوتا تھا۔ اساتذہ انھیں پسند کرتے اور ان کی قابلیت کو سراہتے۔ اس زمانے کا ایک واقعہ یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں تقریب تقسیم انعامات منعقد ہوئی اور خواجہ خورشید انور کا نام پکارا گیا تو وہ وہاں موجود نہ تھے۔ جس طالب علم کو گولڈ میڈل دیا جانا تھا اس کی عدم موجودگی تمام لوگوں کے لیے حیران کن تھی۔ پنجاب یونیورسٹی کے اس وقت کے برطانوی چانسلر نے اس پر کہا کہ خورشید انور شاید میڈل وصول کرنا بھول گئے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک سچے فلسفی ہیں۔

خورشید انور نے مجموعی طور پر 27 فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ ان میں سے آٹھ فلمیں ہندوستان میں جب کہ  19 پاکستان میں بنیں۔ ان کا شمار ایسے سنگیت کاروں میں ہوتا ہے جو انفرادیت کے قائل اور اختراع پسند بھی تھے۔ ریڈیو سے وابستگی کے زمانے میں ہندوستان کے مشہور فلم ساز اور ہدایت کار اے آر کاردار نے خورشید انور سے کہا کہ وہ ممبئی کی فلمی دنیا کا حصّہ بن جائیں۔ خواجہ صاحب نے ان کی بات مان لی اور یوں فلم کڑمائی سے نئے سفر کا آغاز کیا۔

بطور موسیقار ان کی پہلی مکمل ہندی فلم ’’اشارہ‘‘ تھی جس کے گیت بہت پسند کیے گئے اور 1944ء میں انھوں نے فلم پرکھ کا میوزک دیا اور اگلے سال فلم یتیم کے لیے موسیقی دی جس کا بہت چرچا ہوا۔ اس کے بعد ’’پگڈنڈی ‘‘ اور ’’پروانہ‘‘ جیسی فلموں کے لیے میوزک دیا۔ 1949ء میں فلم’’ سنگار‘‘ کے موسیقار کی حیثیت سے خواجہ صاحب نے ایک ایوارڈ اپنے نام کیا۔ اگلے چند برسوں کے دوران فلم’’نشانہ ‘‘ اور’’ نیلم پری ‘‘ سامنے آئیں جن کی موسیقی نے خواجہ صاحب کو ہندوستان بھر میں مقبول بنا دیا۔

1952ء میں خواجہ صاحب پاکستان چلے آئے۔ یہاں 1955ء میں انھوں نے فلم ’’انتظار ‘‘ کے لیے موسیقی دی۔ خواجہ صاحب کی آخری فلم مرزا جٹ تھی، جو 1982ء میں ریلیز ہوئی۔ خواجہ خورشید انور کو 1982ء میں ممبئی فلمی صنعت نے ’’لافانی گیت ایوارڈ‘‘ دیا۔ 1980ء میں حکومت پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔  انھوں نے کئی فلموں کی کہانی اور اسکرین پلے بھی لکھے جن میں ہمراز، چنگاری، جھومر وغیرہ شامل ہیں۔  30 اکتوبر 1984ء کو خواجہ خورشید انور کی زندگی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔