لاہور قلندرز کا مسئلہ کیا ہے؟

سلیم خالق  ہفتہ 17 مارچ 2018
لاہور قلندرز کے مالکان نے عاقب جاوید پر حد سے زیادہ اعتماد کیا، سارے فیصلے انہی پر چھوڑنے کا فائدے کے بجائے نقصان ہوا۔ فوٹو : فائل

لاہور قلندرز کے مالکان نے عاقب جاوید پر حد سے زیادہ اعتماد کیا، سارے فیصلے انہی پر چھوڑنے کا فائدے کے بجائے نقصان ہوا۔ فوٹو : فائل

2016 ایڈیشن،6 ٹیمیں چھٹا نمبر،2017 میں بھی یہی صورتحال، اب 2018 کے پی ایس ایل میں بھی ٹیم پھر سب سے آخری نمبر پر رہی،ابتدائی6 میچز میں شکستوں کا سامنا کرنا پڑا، پھر3جیتے، آخری مقابلے میں ایک بار پھر ناکامی ہاتھ آئی،اب مجھے یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ میں لاہور قلندرز کی بات کر رہا ہوں، بلاشبہ مقبولیت میں یہ ٹیم کافی آگے ہے۔

کراچی والے بھی دعائیں کرتے ہیں کہ اسے فتوحات ملیں، کسی کو بھی اونر رانا فواد کا اداس چہرہ ٹی وی پر دیکھنا پسند نہیں ہے مگر پھر بھی لاہور قلندرز نے ہمیشہ اپنے مداحوں کو مایوس ہی کیا، قطر لبریکینٹس کے رانا فواد نے فرنچائز24 ملین ڈالرز کے عوض خریدی، یوں لاہور ایونٹ کی دوسری مہنگی ترین ٹیم ثابت ہوئی،پیڈی اپٹن نے ہیڈ کوچ کی ذمہ داری سنبھالی، اعجاز احمد بھی ساتھ تھے،2016 کے پہلے ایونٹ سے قبل میڈیا پر اتنی ہائپ بنا دی گئی کہ لاہور قلندرز کھیلنے سے پہلے ہی چیمپئن بن گئے۔

مگر کرکٹ ٹی وی پر نہیں گراؤنڈ میں کھیلی جاتی ہے، اظہر علی ٹی 20 کے پلیئر نہیں ہیں مگر انھیں کپتان بنا دیا گیا، نتیجہ ٹیم کی 8 میں سے 6 میچز میں ناکامی کی صورت میں برآمد ہوا، عمر اکمل نے ایونٹ میں 335 رنز بنائے اور کوئٹہ کیخلاف تو صرف 40 بالز پر93 رنز اسکور کر کے پہلی فتح دلائی، کرس گیل اور ڈیوائن براوو پر حد سے زیادہ انحصار کیا گیا مگر نام بڑے اور درشن چھوٹے کے مصداق دونوں سپر فلاپ ہوئے۔

غیرملکیوں میں صرف کیمرون ڈیلپورٹ کی پرفارمنس ہی قابل ذکر رہی،بولنگ میں بھی اجنتھا مینڈس سمیت کسی غیرملکی کی کارکردگی نمایاں نہ تھی، پاکستانی بولرز میں سے کوئی بڑا نام لاہور قلندرز میں شامل ہی نہ تھا۔ دوسرے ایڈیشن میں امید تھی کہ کارکردگی میں کوئی بہتری آئے گی، سابق پیسر عاقب جاوید کو ہیڈ آف کرکٹ آپریشنز بنایا گیا،مگر اتنا ہی فرق آیا کہ پہلے ایڈیشن کے 8میں سے 2میچز جیتے تھے۔

اس بار 3فتوحات مل گئیں، غلطی درست کرتے ہوئے اظہر علی کو کپتانی سے ہٹا دیا گیا اور برینڈن میک کولم نے ذمہ داری سنبھالی مگروہ بھی ٹیم کو فتوحات کی راہ پر گامزن نہ کر سکے، 8 میچز میں انھوں نے صرف 93 رنزہی بنائے،کرس گیل کو فرنچائز نے برقرار نہ رکھا، مایوس کن بیٹنگ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پوری ٹیم نے صرف 4 ہی نصف سنچریاں بنائیں، عمر اکمل کا بیٹ بیشتر میچز میں خاموش رہا، غیر ملکیوں میں جیسن روئے کا کھیل ہی بہتر رہا۔

کیوی آل راؤنڈر گرانٹ ایلوئٹ بدترین ناکامی کا شکار ہوئے،ٹاپ بولر سنیل نارائن نے 8 میچز میں 10 وکٹیں لیں،اب 2018آگیا، اس بار بھی امید تھی کہ ٹیم چیمپئن نہ بنے کم از کم سب سے آخری نمبر پر تو نہیں رہے گی مگر کوئی فرق نہ آیا،اس مرتبہ پیڈی اپٹن کی جگہ عاقب جاوید کو ہی ہیڈ کوچ بنا دیا گیا،اعجاز احمد کوچنگ سیٹ اپ سے باہر ہو گئے۔

مدثر نذر بھی ٹیم سے منسلک نہ رہے، انضمام الحق مشیر بنے،میک کولم کپتان برقرار جبکہ فخر زمان کو نائب بنایا گیا، کبیر خان کو نائب کوچ اور عتیق الزماں کو فیلڈنگ کوچ کی ذمہ داری ملی مگر پھر ٹیم مسلسل6  میچز ہار کر پلے آف کی دوڑ سے باہر ہو گئی، بعد میں گوکہ تین میچز جیتے مگر ان کا کوئی فائدہ نہ تھا،اس بار پلیئرز کی انفرادی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے،ٹیم کا کوئی کمبی نیشن نہ تھا، عاقب جاوید کو خود اپنے منتخب کردہ پلیئرز پر اعتماد نہ تھا، متواتر تبدیلیاں کی گئیں،10میچز میں 21 پلیئرز میدان میں اتارے گئے، ابتدائی6 میچز میں 5 مختلف اوپننگ پیئرز دکھائی دیے۔

اس سے آپ ٹیم کی سمت کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں،لاہور قلندرز کے مالکان نے عاقب جاوید پر حد سے زیادہ اعتماد کیا، سارے کرکٹنگ فیصلے انہی پر چھوڑے مگر اس کا فائدے کے بجائے نقصان ہوا اور وہ من مانیاں کرنے لگے، اگر آپ عاقب کے کوچنگ کیریئر کا جائزہ لیں تو ایک بات واضح نظر آتی ہے کہ وہ نائب کوچ کیلیے زیادہ بہتر ہیں چیف کوچ بننا ان کی صلاحیت سے بڑھ کر کام ہے،اسی لیے وہ کھلاڑیوں سے درست انداز میں کام نہ لے سکے، ٹیم سلیکشن کے وقت ون مین شو کا یہ نقصان ہوا کہ متوازن اسکواڈ تشکیل نہ دیا جا سکا۔

آپ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی مثال دیکھ لیں،28 سال کا ایک باصلاحیت نوجوان نبیل ہاشمی دنیا بھر کے کرکٹرز کا جائزہ لے کربہترین کی فہرست مالکان کو دیتا ہے پھر ندیم عمر کوچ معین خان اور جوہر شناس منیجر اعظم خان کے ساتھ مل کر پلیئرز کا انتخاب کر لیتے ہیں، ٹی ٹوئنٹی میں بڑے ناموں کے ساتھ بعض اوقات غیرمعروف کھلاڑی بھی مفید ثابت ہوتے ہیں، عاقب اسکواڈ کا انتخاب درست نہ کر پائے، کوچ کے نائب کبیر خان لیول فور فیل مگر پی آر میں ماہر ہیں اسی لیے ہر جگہ ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔

عتیق الزماں کوالیفائیڈ کوچ ہیں مگر کھل کر کام کرنے کا موقع نہ ملا، لاہور کی ٹیم تو ان دونوں کو میچز کے دوران گراؤنڈ تک نہیں لے کر جاتی تھی، جس کی آفیشل وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ ریزرو کرکٹرز کے ساتھ کام کرتے تھے، مگر اطلاعات یہ بھی ہیں کہ کبیر کی ایک بار میک کولم سے بحث ہو گئی تھی،اگلے سال پی ایس ایل میں اچھے کھیل کیلیے سب سے پہلے لاہور کو کسی نئے کوچ کو لانا ہوگا، ڈرافٹنگ سے قبل اچھا خاصا ہوم ورک بھی ضروری ہے، اسی طرح ٹی وی پر زیادہ تشہیر سے گریز کیا جائے تو بہتر رہے گا،جیسے کشمیری کرکٹر سلمان ارشاد کو منتخب کرنے کے بعد خوب ہلا گلا کیا گیا جس سے وہ بیچارہ بغیر کھیلے دباؤ میں آگیا۔

دونوں ہاتھ سے بولنگ کرنے والے بولر، گھر بیٹھے کھلاڑی کی واپسی اور کشمیری کرکٹر کی شمولیت جیسے کام ضرور کریں مگر زیادہ ہائپ بنانے سے گریز بہتر ہوگا، میدان میں پرفارم کریں گے تو ویسے ہی نام بن جائے گا، تین سال خوب ہلا گلا کر لیا، اب اگلے برس لو پروفائل میں رہ کر پی ایس ایل میں حصہ لے کر بھی دیکھ لیں یقیناً بہتری آئے گی،اسی طرح عمر اکمل کو تو شاید اب خود ہی الوداع کہہ دیا جائے گا، ان کے بارے میں اس بار کئی منفی باتیں بھی پھیلیں ، سوشل میڈیا پر یہ تک کہا گیا کہ وہ کسی غلط سرگرمی میں ملوث ہیں اس لیے ڈراپ کر دیا گیااور انھیں گراؤنڈ تک نہیں لایا جا رہا، مگر لاہور نے اس کی تردید کر دی، جب ٹیم ہارے تو ایسی باتیں تو ہوتی ہی ہیں۔

میک کولم بھی بطور کپتان ناکام رہے،سیمی کی خوبی ہے ہر قسم کے ماحول میں ڈھل جاتے ہیں میک کولم ایسا نہ کر پائے، وہ خود دوران ایونٹ قیادت چھوڑنے کی پیشکش کر چکے تھے، ابھی ایک سال باقی ہے لاہور کو بھرپور پلاننگ سے نئے کوچ اور کپتان کا انتخاب کرنا چاہیے، ٹیم کے پاس عاطف رانا جیسا ذہین سی او او موجود ہے، انھیں جراتمندانہ اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ بہتری آ سکے، کیونکہ اب تین برس ہو چکے ٹیم کے پرستار یہ گاتے گاتے تھک گئے ہیں کہ ’’تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے‘‘۔

(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔