حافظہ قاریہ روبینہ

ارم غنی  اتوار 18 مارچ 2018
47برس تلاوتِ قرآن پاک کی رفاقت میں گزارنے والی پہلی خاتون قاریہ جنہیں پرائیڈ آف پرفارمنس کا اعزاز حاصل ہوا۔ فوٹو: فائل

47برس تلاوتِ قرآن پاک کی رفاقت میں گزارنے والی پہلی خاتون قاریہ جنہیں پرائیڈ آف پرفارمنس کا اعزاز حاصل ہوا۔ فوٹو: فائل

فن قرأت کی دنیا میں پاکستان میں ایک 12 سال کی بچی حافظہ قاریہ روبینہ 1971ء میں پی ٹی وی کی سکرین پر تلاوت قرآن حکیم کے لیے لائی گئیں۔ اس دور میں یہ سکرین بلیک اینڈ وائٹ ہوا کرتی تھی۔ کسی کسی گھر میں ٹی وی ہوتا تھا، خوبصورت شخصیت کی حامل قاریہ روبینہ کی مسحور کن آواز میں تلاوت کو خوب سراہا گیا۔

اب قاریہ روبینہ کو تلاوت کے لیے بڑی بڑی محافل میں مدعو کیا جانے لگا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے موچی دروازے میں ہونے والے جلسۂ عام میں ان سے تلاوت کرائی گئی اور پھر بھٹو صاحب کی دختر  محترمہ بینظیر بھٹو کے دور اقتدار میں ہی قاریہ روبینہ پاکستان کی واحد اور پہلی قاریہ تھیں جنہیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں آج تک کوئی دوسری قاریہ سامنے نہیں آئی جسے حکومت پاکستان نے پرائیڈ آف پرفارمنس عطا کیا ہو۔

قاریہ روبینہ تیزی سے شہرت کی بلندیوں کو چھوتی چلی گئیں۔ فن قرأت کا کوئی مقابلہ ایسا نہ تھا جس میں قاریہ روبینہ کو ونر قرار نہ دیا جاتا ہو۔ حکومت پاکستان نے تمام تر مخالفت کے باوجود انہیں پاکستانی خواتین کی نمائندگی کے لیے ملائشیا میں ہونے والے فن قرأت کے عالمی مقابلوں میں چار بار کوالالمپور بھیجا، ملائشیا میں قاریہ روبینہ کو غیر معمولی پذیرائی ملی۔ وہاں کی نامور شخصیت سید محمد عزیز ان کی گرویدہ ہوگئی وہ انہیں اپنے خرچ پر تلاوت کے لیے ملائشیا مدعو کیا کرتے تھے اور گاہے بگاہے پاکستان بھی آتے تھے۔

قاریہ روبینہ نے دہلی گیٹ کے باہر وطن بلڈنگ میں اس وقت کے مشہور زمانہ پریس پنجاب پریس کے مالک چوہدری خوشی محمد کے گھر میں آنکھ کھولی تھی۔ قاریہ روبینہ کو حفظ قرآن کے لیے اکبری منڈی میں ایک نابینا بزرگ حافظ محمد حیات کے مدرسے میں بھیجا گیا بعدازاں فن قرأت میں انہیں قاری نور محمد صاحب کی شاگردی کا اعزاز نصیب ہوا۔ پی ٹی وی کے مذہبی پروگراموں کے پروڈیوسر محمد کلیم ملک صاحب نے ان کی آواز میں پورا قرآن پاک ریکارڈ کیا۔ یوں قاریہ روبینہ عالمی سطح پر پہلی خاتون قاریہ تھیں جن کی آواز میں قرآن پاک ریکارڈ ہوا۔ جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کی اہلیہ بیگم شفیقا ضیاء الحق بھی ان کی قرأت کے مداح تھے۔ انہیں آرمی ہاؤس اور اپنی نجی محافل میں تلاوت قرآن پاک کے لیے مدعو کیا کرتے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی میں ٹاپ کیا تو گولڈ میڈل سے نوازی گئیں اور جنرل ضیاء الحق کی ہدایت پر سرکاری کالج میں عربی کی لیکچرار تعینات کی گئیں۔

انہوں نے کئی بار جج اور عمرہ کی سعادت حاصل کی۔ انہیں امریکہ بھی مدعو کیا گیا۔ انہوں نے دوران ملازمت کنیئرڈ کالج اور اسلامیہ کالج برائے خواتین کوپر روڈ میں پڑھایا۔ انہیں 3 جون 2019ء کو سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈہونا تھا لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی۔ انہیں 2010ء میں جب ان کی عمر 50 سال تھی کینسر کا عارضہ لاحق ہوا تھا مگر وہ علاج کے بعد تندرست ہوگئیں۔ بدقسمتی سے بیماری سے افاقہ دائیمی ثابت نہ ہوا اور جون 2017ء میں اس موذی مرض نے پھر سر اُٹھایا جو بالآخر ان کی اس دار فانی سے کوچ کا سبب بنا۔ دوران علالت وہ صبر اور استقامت کا پیکر بنی رہیں کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائیں۔ ان کی زبان باتیں کرنے کی بجائے ذکر الٰہی میں مصروف رہتی تھی۔ وہ اپنے مرض کی سنگینی کو اللہ کی رضا سمجھتی تھیں اور راضی بہ رضا تھیں۔ انہیں علم تھا کہ اللہ انہیں اپنے دارالسلام کی طرف بلا رہا ہے جسے انہوں نے خندہ پیشانی سے لبیک کہا۔ یہی ان کا توکل اور قرب الٰہی کی لگن کا مظہر تھا۔

قاریہ روبینہ کے عربی کے فاضل استاد مکرم ڈاکٹر ظہور احمد اظہر  کے نزدیک ان کے سینکڑوں شاگردوں میں وہ ایک بے مثل شاگردہ تھیں۔ ان کے سارے کلاس فیلو ان کے لیے نظریں بچھاتے تھے اور یونیورسٹی اورینٹل کالج کے سارے اساتذہ کرام اس بات پر فخر کرتے تھے کہ قاریہ روبینہ فن قرأت کی ملکہ ہیں۔ ان کی آواز گونجتی تو محفل میں سناٹا چھا جاتا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ کوئی غیبی آواز ہے۔ قاریہ روبینہ نہایت سنجیدہ انتہائی درجے کی مؤدب شاگرد تھیں۔

وہ اپنے اعمال صالحہ کے باعث تمام اساتذہ اور ہم جماعتوں کی توجہ کامرکز بنی رہتی تھیں۔ قاریہ روبینہ کے ایک اور استاد مکرم حافظ محمد صدیق صیفی تھے جنہوں نے خالد محمود ہاشمی سے ان کا نکاح پڑھایا تھا اور انہوں نے ہی میانی صاحب کے قبرستان کے جنازگاہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ حافظ صدیق صیفی کا کہنا تھا کہ وہ میری شاگرد ہی نہیں میری محسنہ بھی تھیں۔ میں نے پوری زندگی میں اتنی مہمان نواز خاتون نہیں دیکھی۔ ان کے لنچ اور ڈنر کے موقع پر ہر روز ان کے مہمان اور ایک سے زیادہ کھانے موجود ہوتے تھے اور وہ کسی بھی ضرورت مند کو پیسے ٹشو پیپر میں لپیٹ کر دیتی تھیں۔

وہ قرآن کریم کی ایک ایک آیت پر غور و فکر کرتیں اور تشریح وہ تفسیر کے لیے مجھ سے رہنمائی حاصل کرتیں۔ انہیں قرآن پاک کے جلی اور خفی علوم سے بخوبی آشنائی تھی۔ ہر روز خواتین اپنے مسائل کا قرآن پاک سے حل معلوم کرنے کے لیے ان کے دارالقرآن میں تشریف لاتیں۔ ان سے استخارہ کرواتیں۔ وہ ہر ملنے والی عورت کی رازدان تھیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے سینئر  ریٹائرڈ پروڈیوسر کلیم ملک  نے بتایا کہ سب سے پہلے 1971ء میں ان کی تلاوت ریکارڈ کی گئی۔

اس کے بعد تلاوت کی ریکارڈ نگ کے لیے باقاعدگی سے پی ٹی وی پر مدعو کی جاتی رہیں۔ پی ٹی وی نے ان کی آواز میں پورا قرآن پاک ریکارڈ کیا۔ ملک صاحب کا کہنا تھا کہ قاریہ روبینہ کو ریکارڈنگ سے پہلے یہ بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی کہ انہیں فلاں سورت کی فلاں فلاں آیات کی تلاوت کرنی ہے۔ وہ بلا شبہ فن قرأت کی ملکہ تھیں اور آج تک ان کے مقابل ان کے پائے کی کوئی قاریہ سامنے نہیں آسکی۔ وہ قرأت کے ہر مقابلے کی ونر قرار پاتیں۔ انہیں مولویوں کی تمام تر مخالفت کے باوجود حکومت پاکستان نے فن قرأت کے عالمی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے تین بار ملائشیا بھیجا۔ ان کے فن قرأت کو سعودی عرب اور امریکہ میں بھی سراہا گیا۔ ان ے مداحوں، شاگردوں اور عقیدت مندوں کا جال دنیا کے ہر ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ قاریہ روبینہ روحانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز صاحب نظر، صاحب باطن اور صاحب کشف ہستی تھیں۔ وہ ہر انسان کی شخصیت کو سکین Scan کرکے اس کے محاسن اور مفرات بتا دیا کرتی تھیں۔ ان کا قرآن کا استخارہ لاجواب ہوتا تھا۔

انہیں مشکل پیچیدہ اور گنجلک مسائل کے بارے میں خواب میں رہنمائی مل جاتی تھی۔ ان کی بیٹیوں نمرہ اور عروبہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے قاریہ روبینہ جیسی محبت کرنے والی ماں نہیں دیکھی۔ ماما نے ہمیں کانونٹ اور کنیئرڈ کالج میں پڑھایا۔ نمرہ بڑی بیٹی کنیئرڈ سے ایم فل کے فائنل میں جبکہ چھوٹی بیٹی ’ جو قاریہ اور نعت خواں بھی ہیں‘ وہ اکنامکس میں بی ایس آنرز کے بعد یونیورسٹی آف لندن کے کنگز کالج میں ماسٹرز کررہی ہیں۔

دونوں بیٹیوں کا کہنا تھا کہ اماں کی بڑی خوبی ان کی مہمان نوازی تھی۔ ان کا دسترخوان بہت وسیع تھا، ان کے شوہر پروفیسر خالد محمود ہاشمی 6 اپریل کو ایم اے او کالج سے ریٹائرڈ ہوئے۔ انہوں نے 1973ء میں اخباری دنیا میں قدم رکھا تھا۔ ان کا کالج نوائے وقت کے ادارتی صفحے پر شائع ہوتا ہے ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی 60 سالہ زندگی میں اتنی بے مثال اور انسانی خوبیوں سے مالا مال شخصیت نہیں دیکھی۔ وہ بہترین رازدان اور ہر کسی کو صحیح مشورہ دیتی تھیں۔ ان کے پاس ہر وقت ہر عمر کی عورتوں کا ہجوم رہتا جو ان سے اپنے دکھ درد اور مسائل بیان کرتی تھیں اور قاریہ روبینہ ان کی دلگیری اور حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔