انشا کی دیوانگی

 ہفتہ 17 مارچ 2018
اپنے عشق کو پورے طور پر محفوظ کر لینے کے بعد اس نے عشق کے ساز پر بیراگ کا نغمہ چھیڑ دیا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

اپنے عشق کو پورے طور پر محفوظ کر لینے کے بعد اس نے عشق کے ساز پر بیراگ کا نغمہ چھیڑ دیا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

انشا نے بڑی سوچ بچار سے عشق لگایا تھا۔ ایسی محبوبہ کا چناؤ کیا جو پہلے ہی کسی اور کی ہوچکی تھی۔شادی شدہ تھی، بچوں والی تھی۔ جس کے دل میں انشا کے لیے جذبۂ ہم دردی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ جس کے ملنے کے تمام راستے مسدود ہو چکے تھے۔

اپنے عشق کو پورے طور پر محفوظ کر لینے کے بعد اس نے عشق کے ساز پر بیراگ کا نغمہ چھیڑ دیا۔ مواقع تو ملے، مگر انشا نے کبھی محبوبہ سے بات نہ کی کہ ہمت نہ پڑی۔ اکڑ اپنے دوستوں سے کہا کرتا،’’یار اسے کہہ کہ مجھ سے بات کرے۔‘‘ اس کے انداز میں بڑی منت اور عاجزی ہوتی۔ پھر عاشق کا جلال جاگتا۔ کہتا،’’ دیکھ اس سے اپنی بات نہ چھیڑنا۔ باتوں باتوں میں بُرا نہ منا لے۔ ‘‘

محبوبہ تیز طرار تھی۔ دنیا دار تھی۔ پہلے تو تمسخر اڑاتی رہی۔ پھر انشا کی دیوانگی کو کام میں لانے کا منصوبہ باندھا۔ اس دل چسپ مشغلے میں میاں بھی شریک ہوگیا۔ انشا کو فرمائشیں موصول ہونے لگیں۔ اس پر انشا پھولے نہ سماتا۔ دوستوں نے اسے بار بار سمجھایا کہ انشا وہ تجھے بنا رہی ہے۔ انشا جواب میں کہتا کتنی خوشی کی بات ہے کہ بنا تو رہی ہے۔ یہ بھی تو ایک تعلق ہے۔ تم مجھے اس تعلق سے محروم کیوں کر رہے ہو۔

ایک روز جب وہ فرمائش پوری کرنے کے لیے شاپنگ کرنے گیا تو اتفاق سے میں بھی ساتھ تھا۔ میں نے انشا کی منتیں کیں کہ انشا جی اتنی قیمتی چیز مت خریدو۔ تمہاری ساری تنخواہ لگ جائے گی۔ انشا بولا۔’’ مفتی جی، تمہیں پتہ نہیں کہ اس نے مجھے کیا کیا دیا ہے۔ اس نے مجھے شاعر بنا دیا، شہرت دی، زندگی دی۔ انشا کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے۔

( ممتاز مفتی کی کتاب ’’اور اوکھے لوگ سے‘‘)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔