محبت کیسی ہو؟

خطیب احمد  پير 19 مارچ 2018
محبت جیسے مقدس رشتے کو پامال نہ کریں، اس کے تقدس کو قائم رکھیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

محبت جیسے مقدس رشتے کو پامال نہ کریں، اس کے تقدس کو قائم رکھیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

محبت کیسی ہونی چاہیے؟ عوامی رائے یہ ہوتی ہے کہ مضبوط اور گہری ہونی چاہیے۔ اب مشین کے دھاگے کی طرح نازک بھی نہ ہو کہ ذرا سا بوجھ بھی برداشت نہ کر پائے اور ٹوٹ جائے۔ محبت تو پانی کی طرح ہونی چاہیے، جو اپنی جگہ خود بنائے۔ جیسے پانی اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ بوند بوند کر کے ٹپکتا تو ہے مگر زمین میں سراخ کر دیتا ہے۔ پہاڑوں کا سینہ چاک کرکے اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے۔ جو ہر حالت میں اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ راستے میں جوں جوں آگے بڑھتا ہے، لوگ اس سے سیراب ہوتے ہیں۔

مگر آج کل کی محبت تو کافی مہنگی اور نازک ہے۔ کیونکہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح اور ہر سال بجٹ میں کاسمیٹکس پر قیمت دوگنی کردی جاتی ہے۔ جس کو مدِنظر رکھتے ہوئے محبوبہ کی فرمائش میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ ویسے آج کل کی محبت بہت نازک ہے۔ اس لیےکہ سویرے سویرے ٹیلی وژن پر روح افزاء، جامِ شیریں جیسی لڑکیاں نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں تو بندہ سارا دن لوکل پنساری کا سیل بند شربت فولاد بنا پھرتا ہے۔

میرا خدا گواہ ھے، جب بھی سچے پیار والی کمینگی نازل ہوئی ہے تو پیٹ اور جیب دونوں بھرے ہوئے تھے۔‏ عمومی مشاہدہ ہے کہ محبوبہ کو دہی بڑوں کی اسپیشل پلیٹ کھلانے کی بھی اوقات نہ رکھنے والے کنگلوں کے پیٹ میں ہی محبت کے زیادہ مروڑ اٹھتے ہیں۔ کچھ ایسے افراد بھی ہیں جن کی جیب میں محبوبہ کو انڈے والا برگر، پیپسی اور گول گپے کھلانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔ ویسے تو پیار محبت میں پڑنا ہی انتہا درجے کا پاگل پن ھے۔ لیکن پیار میں اندھا ہونے سے اچھا بندہ محبت میں ”کانا“ ھو جائے۔ ‏اگر آپ کو محبت کا کیڑا ضرورت سے زیادہ تنگ کر رہا ہے، تو بھی اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ یہ یکطرفہ ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔

لوگوں کو پتہ نہیں کیسےسچی محبت مل جاتی ہے۔ مجھ سے تو دہی لانے کے بعد باقی پیسے تک لے لیے جاتے ہیں۔ ‏کہتے ہیں کے عشق کا پتا ہی تب چلتا ہے جب محبوبہ سے شادی نہ ہو۔ عشق اور پولیو، ہوتے صرف ایک بار ہیں، لیکن ِان کا اثر تمام عمر نہیں جاتا۔ انسان کو اس کا غم پوری زندگی چین لینے نہیں دیتا۔

گزشتہ سال میں نے اپنی ایک تحریر میں مردوں کے ٹھرکی پن کے حوالے سے چند اہم باتیں لکھیں جس میں اپنے مشاہدے کے ذریعے مردوں کی مختلف قسم کی ٹھرک کو واضح کیا تھا۔ کیونکہ مردوں کی ہر قسم عورت کے بارے میں ایک ہی انداز سے سوچتی ہے۔ اس تحریر میں مردوں کی عورت کی طرف فطری جھکاؤ اور جنسِ مخالف کی طرف فطری کشش کو ٹھرک سے تعبیر کیا گیا تھا۔

محبت تو دو ارواح کے ملاپ کا نام ہے۔ محبت کبھی بھی ختم نہیں ہوتی، بس خاموش ہو جاتی ہے۔ اور جتنی خاموش ہوتی ہے اتنی ہی زور آور ہوتی جاتی ہے۔ اندر ہی اندر شد و مد سے بولتی رہتی ہے۔ بس میں اتنا کہوں گا کہ آج کل کی محبت اپنی شہوانی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ذریعہ بن چکی ہے۔

لہذا محبت جیسے مقدس رشتے کو پامال نہ کریں، اس کے تقدس کو قائم رکھیں۔ میرا مقصد یہاں مردوں کی جانب سے کی جانے والی گھٹیا حرکتوں کا تمسخر اڑانا نہیں تھا، بلکہ مردوں کی ٹھرک کی اقسام اور کی جانے والی محبت کو آئینہ دکھانا تھا۔ سارے مردوں کو ایک صف میں کھڑا کر کے ان پر یہ میری ایک احتجاجی تحریر ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خطیب احمد

خطیب احمد

بلاگر طالب علم ہیں، صحافت اور اردو ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں، سماجی مسائل پر باقاعدگی سے لکھتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ فنِ خطابت سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔