رنچھوڑ لائن کی سندھ یونیورسٹی سے جامعہ کراچی تک

مختار احمد  پير 19 مارچ 2018
1887 تک کراچی میں اعلی تعلیم کا کوئی ادارہ نہیں تھا اور یہاں صرف میٹرک تک کی تعلیم دی جاتی تھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ آرکائیوز)

1887 تک کراچی میں اعلی تعلیم کا کوئی ادارہ نہیں تھا اور یہاں صرف میٹرک تک کی تعلیم دی جاتی تھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ آرکائیوز)

زندہ قومیں اپنے ماضی، حال اور مستقبل سے غافل نہیں ہوتیں۔ قوموں کی تباہی اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے تابناک ماضی کو بھلا دیتی ہیں۔ جو لوگ تاریخ کو بھول جاتے ہیں تاریخ بھی انہیں بھول جاتی ہے اور پھر نہ تو ان کا ماضی ہوتا ہے اور نہ ہی حال یا مستقبل۔ یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے۔

ہم نے اپنے ماضی کو فراموش کرتے ہوئے انگریزوں کو سب سے مہذب، سب سے ترقی یافتہ قوموں میں شمار کرنا شروع کردیا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہم انگریزوں سے زیادہ ترقی یافتہ اور مہذب قوم ہیں جس کی زندہ مثال یہ ہے کہ جس وقت انگریز لباس اور کھانے کے طور پر پتوں اور گھاس پھوس کا استعمال کرتے تھے، رہائش کےلیے غار اور آگ جلانے کےلیے پتھر کو آپس میں ٹکرا کر آگ جلاتے تھے۔

5 ہزار سال قدیم موئن جو دڑو ایک تہذیب یافتہ شہر تھا جسے دریافت بھی ایک انگریز ماہر آثار قدیمہ سر جان مارشل نے کیا تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ خطہ ایک مہذب اور شائستہ قوم کی قدریں رکھتا ہے۔ 5 ہزار سال بعد دریا فت کئے جا نے والے اس شہر میں نہ صرف رہنے کےلیے مکانات، عبادت کےلیے عبادت گاہیں، بازار، فراہمی و نکاسی آب کے مؤثر انتظامات تھے بلکہ وہاں علمی درس گاہوں کی بھی نشانیاں دریافت ہوئی ہیں جن میں سے ایک عمارت کو باقاعدہ طور پر ’’موئن جو دڑو‘‘ کالج کا نام دیا گیا ہے۔

اس تہذیب و تمدن والے شہر کو، جو ہمارا ورثہ ہے، عالمی سطح پر یونیسکو نے بھی عالمی ورثے میں شامل کر رکھا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بابل، عراق اور ایران میں بھی قدیم تعلیمی اداروں کی واضح نشانیاں ملی ہیں۔ ان کے علاوہ ٹیکسلا سے بھی ایک قدیم یونیورسٹی کے آثار ملے ہیں جو وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی تھی جہاں 300 سے زائد لیکچر ہالز و دیگر سہولیات موجود تھیں۔ اسے دنیا کی پہلی یونیورسٹی بھی قرار دیا جاتا ہے۔

ماہرین آثار کے مطابق اس یونیورسٹی میں 68 مضامین پڑھائے جاتے تھے جن میں تجارت، طب، فلسفہ اور سرجری سمیت دیگر کئی شعبہ جات و موضوعات شامل تھے؛ اور جہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے 10 ہزار طلبہ کو 200 سے زائد اساتذہ (پروفیسرز) تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے تھے۔ اس قدیم یونیورسٹی کو آج ’’نلندہ یونیورسٹی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اگر ان دونوں مقامات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جائے کہ دنیا کی پہلی یونیورسٹیاں یا علمی درسگاہیں اسی خطے میں واقع تھیں تو یہ قطعی طور پر غلط نہ ہوگا کیونکہ ان ہی یونیورسٹیوں کو دیکھتے ہوئے آج دنیا بھر میں، جامعہ الاظہر سے لے کر یونیورسٹی آف کیمبرج تک، نہ جانے کتنی ہی جامعات قائم کی گئی ہیں۔

اب اگر سندھ کی بات کی جائے تو موئن جو دڑو اسی خطے کا حصہ تھا جہاں سب سے پہلے تعلیم کا فروغ ہوا۔ یہ تہذیب قدرتی آفات کے نتیجے میں تباہ ہوگئی مگر اس کے باوجود یہاں ہر دور میں تعلیم کے فروغ کےلیے کام ہوتا رہا اور تالپور دور تک یہاں مدارس اور اسکول قائم تھے جہاں تمام مذاہب کے طلبہ و طالبات تعلیم سے آشنا ہورہے تھے۔ جب انگریزوں نے سندھ پر 1839 میں قبضہ کیا تو چونکہ اس وقت سندھ میں تالپوروں کا نظام تعلیم رائج تھا لہذا انہوں نے سب سے پہلے اس تعلیمی نظام کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے ختم کردیا؛ اور کیونکہ اس وقت فارسی کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل تھی لہذا انہوں نے اسے بھی ختم کرتے ہوئے سندھی کو سرکاری زبان قرار دے دیا۔ پھر اپنی انگریزی کتابوں کو سندھی میں ترجمہ کرکے اسکولوں میں بطور نصاب استعمال کرنا شروع کردیا اور 1841 میں صدر میں (جو اُس وقت فوجی چھاؤنی کا علاقہ تھا) انگریز فوجیوں کی 40 ویں رجمنٹ کےلیے ایک اسکول قائم کیا لیکن اس اسکول میں صرف انگریز فوجیوں کے بچے ہی تعلیم حاصل کرسکتے تھے، مقامی بچوں کےلیے یہ اسکول شجر ممنوعہ تھا۔

اس کے بعد 1845میں کلکٹر کرا چی کیپٹن پریڈی کی کوششوں سے چرچ مشن اسکول قائم ہوا (جہاں بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی)۔ اس کے بعد گویا کراچی شہر میں اسکولوں کے قیام میں تیزی آگئی اور کراچی گرامر اسکول، این جے وی اسکول، ٹیکنیکل ہائی اسکول، بائی ویر جی سپاری والا اسکول، سینٹ جوزف کانوینٹ ہائی اسکول، سینٹ پیٹرک اسکول، ہملے اسکول منوڑہ، گجراتی اسکول، محمڈن گرلز اسکول، ہندو سندھی اسکول، دھن پاٹ شالہ، ورناکیولر اسکول، وسطانی اسکول، ماما پارسی اسکول، کراچی اکیڈمی، ٹیچر ٹریننگ اسکول، تعلیم بالغان اور کمرشل اسکول قائم ہو گئےـ اور علم کے پیاسوں کی علمی پیاس بجھائی جانے لگی۔

1887 تک شہر میں اعلی تعلیم کا کوئی ادارہ قائم نہیں تھا اور صرف میٹرک تک کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس صورتحال کے پیش نظر 1887 میں پہلا سندھ آرٹس کالج قائم کیا گیا جسے بعد میں ڈی جے کالج کا نام دے دیا گیا اور اسی کے ساتھ این ای ڈی کا لج، ایس سی شاہانی لاء کا لج، ڈاؤ میڈیکل کا لج، سندھ مسلم گورنمنٹ سائنس کا لج، ایس ایم لاء کالج بھی قائم ہوگیا جہاں طلبہ و طالبات کو اعلی تعلیم کی سہولیات حاصل ہوگئیں۔

اس وقت تک سندھ بھر میں کوئی یونیورسٹی قائم نہیں تھی اور سندھ کو صوبہ بنانے کی تیاریاں کی جارہی تھیں۔ تب ایک انگریز دانشور مسٹر جیکسن نے سندھ میں یونیورسٹی کے قیام کی تجویز پیش کی جسے ہندؤوں کی مخالفت کے سبب مسترد کردیا گیا اور پھر جب 1936 میں سندھ کو صوبہ قرار دیا گیا تو ایک دانشور میراں محمد شاہ کی سربراہی میں یونیورسٹی کے قیام کےلیے پھر سے کمیٹی قائم کی گئی مگر پھر یونیورسٹی قائم کرنے کی قرارداد کو مسترد کردیا گیا لیکن تعلیم دوست لوگوں کی یونیورسٹی کے قیام کی جدوجہد کا سلسلہ جاری رہا اور بالآخر 1946 میں سندھ یونیورسٹی کا بل منظور کرلیا گیا اور اس طرح قیام پاکستان سے قبل، 13 اپریل1947 کے روز، کراچی کے گنجان علاقے رنچھوڑ لا ئن میں پرنسس اسٹریٹ کے مقام پر سندھ یونیورسٹی قائم کردی گئی۔ یہ موجودہ چاند بی بی روڈ ہے جو سول اسپتال کے عقب میں واقع ہے۔ یہاں کراچی گرلز کالج کی بلڈنگ ہے جہاں ماضی میں کبھی گورنمنٹ اسکول واقع تھا۔ اسکول تو کوتوال بلڈنگ میں منتقل کردیا گیا اور یہاں سندھ یونیورسٹی بنادی گئی۔ اس کے اطراف قدیم عمارتیں، جو ڈاؤ میڈیکل کالج ہاسٹلز کے طور پر زیر استعمال تھیں، وہاں بمبئی، اندرونِ سندھ، پنجاب و دیگر علاقوں سے آنے والے طلبہ و طالبات کےلیے ہاسٹلز قائم کیے گئے۔

چونکہ اس وقت تک پاکستان کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا اور انگریزوں کی حکمرانی تھی، لہذا اس یو نیورسٹی کا پہلا چانسلر سر فرانسس موڈی کو بنایا گیا جبکہ سر غلام حسین ہدایت اللہ کو وائس چانسلر اور آغا تاج محمد کو رجسٹرار مقرر کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت میٹرک اور انٹر بورڈ کا کوئی وجود نہیں تھا لہذا سندھ یونیورسٹی ہی میٹرک اور انٹر کے امتحانات کا انعقاد بھی کرواتی اور ان کے نتائج جاری کرتی تھی۔

اس وقت کراچی شہر کی آبادی بھی بہت زیادہ نہیں تھی اس لیے یونیورسٹی میں طلبہ کی تعداد بھی خاصی کم ہوا کرتی تھی لیکن کیونکہ اس وقت کے اساتذہ کی تمام تر توجہ طلبہ کو تعلیم دینے پر مرکوز ہوتی تھی، لہذا پڑھائی کا معیار شاندار تھا۔ اس یونیورسٹی میں گو کہ زیادہ مضامین تو نہیں تھے لیکن اس وقت اردو، سندھی، انگریزی اور اردو لازمی مضامین میں شامل تھے۔

جہاں تک جامعہ کراچی (کراچی یونیورسٹی) کا تعلق ہے تو جب 1951 میں سندھ یونیورسٹی کو جامشورو، حیدرآباد منتقل کردیا گیا تو پہلے پہل جامعہ کراچی کو ایک ’’وفاقی یونیورسٹی‘‘ کے طور پر موجودہ اردو یونیورسٹی، عبدالحق کیمپس (سابقہ اردو آرٹس کالج) کے سامنے ایک عمارت میں قائم کیا گیا جبکہ اسے 1960 میں کنٹری کلب روڈ (حالیہ یونیورسٹی روڈ) پر اس جگہ منتقل کیا گیا جہاں ماضی میں جنگل، باغ اور کھیتوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوا کرتا تھا۔ یونیورسٹی کی جگہ ملیر کے باغات تک کی گزرگاہ تھی لہذا یہاں ڈملوٹی کنویں کے ذریعے پانی کی فراہمی کی جاتی تھی جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس کی نشانی کے طور پر یونیورسٹی کے اندر ہی متعدد چھوٹی چھوٹی برجیاں موجود ہیں جن میں سے آج بھی پانی بہنے کی آوازیں آتی ہیں جبکہ گزرگاہ کے ساتھ ساتھ کئی پتھروں کی چھوٹی چھوٹی قدیم عمارتیں بھی قائم ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کوٹھی نما کوٹھڑیاں ماضی میں ناکے ہوا کرتے تھے جن کا مقصد چنگی وصولی تھا جبکہ بعض دوسری کوٹھڑیاں بطور حفاظتی چوکی استعمال کی جاتی تھیں۔

تاریخ کے مطابق 1950میں جب یونیورسٹی ایکٹ پارلیمنٹ سے منظور ہوا تو جامعہ کراچی کےلیے نئی جگہ تلاش کی گئی اور اس وقت کے کنٹری کلب روڈ پر 1279 ایکڑ پر محیط قطعہ اراضی کو جامعہ کرا چی کےلیے الاٹ کیا گیا۔ ابتدائی ماسٹر پلان میں اس وقت یہ منصوبہ بندی کی گئی کہ اس پورے خطے کو ایجوکیشن سٹی بنایا جائے۔ اسی بناء پر یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ این ای ڈی کو (جو ماضی میں این ای ڈی کالج کے نام سے، ڈی جے کالج کے عقب میں واقع تھی) انجینئرنگ یونیورسٹی کا درجہ دے کر اسی جگہ منتقل کردیا گیا۔

کیونکہ کراچی یونیورسٹی تیار ہو چکی تھی لہذا اسے مرحلہ وار رنچھوڑ لائن سے موجودہ یونیورسٹی میں منتقل کیا گیا۔ یہاں کلیہ فنون، کلیہ تعلیم، کلیہ علوم، کلیہ علم الادویہ، کلیہ قانون، کلیہ طب اور ان کے تحت درجنوں شعبے قائم کردیئے گئے تھے، لہذا طلبہ و طالبات کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس سلسلے میں بعض مؤرخین رنچھوڑ لائن سے کراچی یونیورسٹی کی منتقلی کی داستانیں بھی سناتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ جب یونیورسٹی تیار ہو گئی تو رنچھوڑ لائن کیمپس میں پڑھنے والے طلبہ نے باقاعدہ طور پر ایک پیدل جلوس نکالا اور ما رچ کرتے ہو ئے اس وقت کے وائس چانسلر کے ساتھ (جو جلوس کے آگے آگے اپنی گاڑی میں چل رہے تھے) کراچی یونیورسٹی پہنچے۔ آج ہماری اس جامعہ کراچی کو ایک اعلی یونیورسٹی کے طور پر جانا جاتا ہے۔

اس یونیورسٹی سے لگ بھگ 145 کالجز کا الحاق ہے اور ہر سال اس جامعہ سے 50 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہوکر نکل رہے ہیں۔ اس یو نیورسٹی کی ڈگریوں کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں سندھ یونیورسٹی/ جامعہ کراچی کے قیام اور ان کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے مختلف ماہرین سے رابطہ کیا تو ان میں سے جامعہ کراچی میں اس وقت شماریات کے ایک پروفیسر محترم زاہد محمود نے تصدیق کی کہ کراچی میں سب سے پہلے سندھ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور یہ یونیورسٹی رنچھوڑ لائن کے علا قے میں پہلے سے موجود قدیم عمارتوں میں قائم کی گئی جہاں آج کراچی گرلز کالج کی عمارت موجود ہے، جبکہ اطراف کی قدیم عمارتوں کو بطور ہاسٹل استعمال کیا گیا۔

پروفیسر زاہد محمود کے بقول، ان کے بڑے بھائی سید حامد محمود اس ہاسٹل کے وارڈن تھے اور انہیں ان کی سخت گیر طبیعت کے سبب اس وقت کے طلبہ جارج پنجم کے نام سے بلاتے تھے۔ مگر کیونکہ پاکستان بنتے ہی جامعہ کراچی کا قیام عمل میں آگیا لہذا ان کے بھائی بھی جامعہ کراچی منتقل ہوگئے۔ موجودہ یونیورسٹی کے ’’اسٹاف ٹاؤن‘‘ میں ملازمین کےلیے بنائے جا نے والے مکانات میں سب سے پہلا مکان بھی انہیں الاٹ کیا گیا جہاں وہ آج بھی رہائش پذیر ہیں۔

جامعہ کراچی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ابتداء میں یہاں جنگل ہی جنگل تھا جس کے خاتمے کے باوجود زرخیز زمین ہونے کی وجہ سے یہاں سب طرف ہریالی تھی اور خونخوار درندوں کے علاوہ چھوٹے موٹے جانور بھی دکھائی دیتے تھے جبکہ خاص موسم میں یہاں بیربہوٹی کی بہتات ہوا کرتی تھی (جو جامنی کلر کا مخملی کیڑا ہوتا ہے) اور اسٹاف ٹاؤن کے بچے اس سے کھیلا کرتے تھے۔

انہوں نے اپنے دفتر میں کراچی کا پرانا ماسٹر پلان دکھاتے ہوئے، رنچھوڑ لائن کی سندھ یونیورسٹی کی جگہ دکھانے کے ساتھ ساتھ یہ وضاحت بھی کی کہ رنچھوڑ لائن کیونکہ ایک گنجان آباد علاقہ تھا، اس لیے کسی بھی طور پر وہ جگہ یونیورسٹی کےلیے مناسب نہیں تھی۔ اس بات کے پیش نظر، سندھ یونیورسٹی کی حیدرآباد منتقلی کے بعد، جامعہ کراچی کو ماضی کے کنٹری روڈ اور آج کے یونیورسٹی روڈ کے ساتھ منتقل کیا گیا۔ چونکہ ماسٹر پلان کے مطابق اس تمام رقبے کو ’’ایجوکیشن سٹی‘‘ کے نام سے استعمال کیا جانا تھا، لہذا جلد ہی این ای ڈی یونیورسٹی بھی اس کے برابر میں منتقل کردی گئی۔ اس سلسلے میں مزید پروگرام بھی ترتیب دیئے گئے تھے مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

اس حوالے سے اردو یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغِ عامّہ کے پروفیسر، ڈاکٹر سعید عثمانی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ قیام پاکستان سے چند ماہ قبل یونیورسٹی ایکٹ منظور کرلیا گیا تھا لہذا سندھ یونیورسٹی کو عارضی طور پر رنچھوڑ لائن کے علاقے میں لب سڑک، پتھروں کی قدیم عمارتوں میں قائم کیا گیا مگر جگہ کی تنگی کے سبب یہ یونیورسٹی اس وقت بالکل قابل استعمال نہیں رہی جب بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے مہاجرین کے بچوں کا اضافہ ہوا۔ لہذا اسے جلد ہی موجودہ جامعہ کراچی منتقل کردیا گیا۔ وہ دن کراچی کے طلبہ و طالبات کےلیے انتہائی خوشی کا دن تھا، لہذا وہ پیدل ہی رنچھوڑ لائن سے کراچی یونیورسٹی تک، جو اس جگہ سے 12 میل دور واقع تھی، جلوس کی شکل میں گئے۔ تب اُس وقت کے اخبارات میں باقاعدہ طور پر کالم چھاپے گئے جن کا عنوان ’’شہر سے 12 میل دور‘‘ تھا۔

یونیورسٹی کے حوالے سے شہر کراچی کی تاریخ پر کتاب لکھنے والے مصنف عثمان دموہی نے کچھ اس طرح اظہار خیال کیا کہ ماضی میں رنچھوڑ لائن میں، جہاں ہر طبقے کے لوگ آباد تھے، سندھ یونیورسٹی قائم کی گئی جس سے یہاں کے طلبہ کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا جس سے اس علاقے کے نوجوانوں نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ سلاوٹہ برادری جو رنچھوڑ لائن گزدر آباد کے قدیمی باسی ہیں اور پیشے کے اعتبار سے سل بٹّا کوٹنے کے ساتھ ساتھ پتھروں کی عمارت تعمیر کرنے کے فن میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، ان کے کئی نوجوانوں نے اسی یو نیورسٹی سے تعلیم حاصل کرکے ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔

ایک اور محقق سید نعمت اللہ بخاری کا کہنا تھا کہ ان کے والد رائل انڈین نیوی میں تھے اور وہ قدیم ترین اوجھا سینی ٹوریم کے نزدیک ہی رہائش پذیر تھے۔ لہذا انہیں موجودہ جامعہ کراچی کو ماضی میں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس وقت یونیورسٹی کے اطراف میں جنگلات اور چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی تھی؛ اور کیونکہ یہاں کھیتی باڑی ہوا کرتی تھی اس لیے انگریز سرکار نے زرعی زمینوں کی حدود تعین کرنے کےلیے یہاں چھوٹی چھوٹی برجیاں بنا رکھی تھیں، جو آج بھی یونیورسٹی کے اندر موجود ہیں۔ برجیوں سے مقامی لوگوں کو اس بات کا پتا چلتا تھا کہ ان کی زمین کہاں سے کہاں تک ہے۔

ان کے مطابق، ویسے تو کراچی یو نیورسٹی، سندھ یونیورسٹی کی رنچھوڑ لائن سے حیدرآباد منتقلی کے بعد ہی مرحلہ وار منتقل کرنا شروع کردی گئی تھی اور ابتدا میں آرٹس لابی اور ایڈمنسٹریشن بلاک کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ مگر 1956-1957 کے بعد جامعہ کراچی میں تعلیمی سرگرمیاں مکمل طور پر شروع کردی گئی تھیں۔ اسی حوالے سے آثار قدیمہ کے سابق ڈائریکٹراور ماہر آثار قدیمہ قاسم علی قاسم نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ رنچھوڑ لائن کو اس بات کا اعزاز حاصل تھا کہ سب سے زیادہ تعلیمی درسگاہوں کے ساتھ ساتھ پہلی لائبریری، جسے ’’نیٹو لائبریری‘‘ کہا جاتا تھا، اسی علاقے میں قائم ہوئی اور سندھ یونیورسٹی کے قیام کا اعزاز بھی اسی علاقے کو حاصل ہوا۔ مزید یہ کہ اس علاقے کو اس بات کا بھی اعزاز حاصل رہا کہ قیامِ پاکستان کے بعد، جب بھارت سے مسلمانوں کی بڑی تعداد نے سندھ کی جانب ہجرت کی تو انہیں سندھ یو نیورسٹی اور اس کے ہاسٹل کی پرانی عمارتوں میں نہ صرف ٹھہرایا گیا بلکہ ان کی بھرپور طریقے سے مہمان نوازی بھی اسی علاقے کے مکینوں کے حصے میں آئی۔

انہوں نے موجودہ جامعہ کراچی کے علاقے کو ایک قدیم ترین علاقہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جب یونیورسٹی کے سامنے اور کیمپس کے اطراف میں کھدائی کی گئی تو یہاں سے پتھر کے آخری دور کے اوزار اور نوادرات دریافت ہوئے جن سے اس جگہ کی قدامت کا اندازہ پتھر کے آخری دور تک لگایا گیا۔ مگر چونکہ یہاں جامعہ کراچی کی تعمیرات ہوچکی تھیں، لہذا اس پر مزید تحقیق نہیں ہوسکی۔

سندھ یونیورسٹی کی تاریخ کے حوالے سے ایک ضعیف العمر شخص سید سخاوت الوری نے (جو شعبہ صحافت سے تعلق رکھتے ہیں) اپنے تجر بات کی روشنی میں بتایا کہ رنچھوڑ لائن میں کراچی گرلز کالج کی جگہ جہاں ماضی میں سندھ یونیورسٹی قائم تھی، اس سے قبل وہاں ایک سرکاری اسکول قائم تھا جس میں وہ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ مگر پھر اس اسکول کو سول اسپتال کے عین سامنے کوتوال بلڈنگ میں منتقل کردیا گیا (جسے آج بھی ’’کوتوال بلڈنگ اسکول‘‘ کہا جاتا ہے) جہاں انہوں نے بقیہ تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں یہ کوئی پررونق علاقہ نہیں تھا بلکہ یہاں بڑے بڑے میدان قائم تھے جہاں مہاجرین کو بسایا گیا تھا، جبکہ سول اسپتال کا مردہ خانہ، جو آج اندر کی جانب موجود ہے، ماضی میں چاند بی بی روڈ پر پتھروں والی ایک گول عمارت میں واقع تھا۔ آس پاس رہنے والے لوگ خوف کے باعث اس مُردہ خانے کے سامنے سے گزرتے ہوئے بھی گھبراتے تھے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔