گوادر میں سمندر کے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لئے چینی منصوبہ شروع

ویب ڈیسک  ہفتہ 17 مارچ 2018
منصوبوں کی تکمیل سے گوادر میں پانی کا مسئلہ حل ہو جائے گا، چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی فوٹو: فائل

منصوبوں کی تکمیل سے گوادر میں پانی کا مسئلہ حل ہو جائے گا، چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی فوٹو: فائل

کوئٹہ: چین نے گوادر میں سمندر کے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لئے ڈی سیلینیشن پلانٹ منصوبے پر کام شروع کر دیا۔

چین نے بھی سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کے لئے ڈی سیلینیشن پلانٹ منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے جس سے روزانہ ڈھائی لاکھ گیلن پینے کا پانی گوادر کے شہریوں کو فراہم کیا جائیگا وفاقی وصوبائی حکومت اور چین نے گوادر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے اربوں روپے کے منصوبوں پر کام شروع کر دیا جن کے مکمل ہونے پر گوادر میں کا فی حد تک پینے کے صاف پانی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

گوادر پورٹ اتھارٹی کے چیئرمین دوستین جمالدینی کا کہنا ہے کہ گوادر میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومت متعدد منصوبوں پر کام کر رہی ہے گوادر کے باسیوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے دو ڈیمز جس میں سوڑ اور شادی کور ڈیم شامل ہے اس کا 80 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور ان ڈیمز سے پائپ لائنز کے ذریعے پانی گوادر تک لایا جائے گا، ان منصوبوں پر چار ارب سے زائد کی لاگت آئے گی اس طرح میرانی ڈیم سے پانی کی ترسیل کے لئے فزبیلٹی رپورٹ پر کام جاری ہے اس کے لئے 15کروڑ روپے بھی جاری کر دیئے گئے ہیں اس منصوبے پر 7سے 8ارب روپے لاگت ائے گی، اسی طرح چین نے بھی سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کے لئے ڈی سیلینیشن پلانٹ منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے جس سے روزانہ ڈھائی لاکھ گیلن پینے کا پانی گوادر کے شہریوں کو فراہم کیا جائے گا، فرنٹیئر ورکس ارگنائزیشن نے بھی ڈی سیلینیشن پلانٹ لگانے کا کام شروع کر دیا ہے اس پلانٹ سے بھی دو لاکھ گیلن پانی گوادر کو فراہم کیا جائے گا۔

دوستین جمالدینی نے کہا کہ ان منصوبوں کی تکمیل سے گوادر کے لئے پینے کا صاف پانی فراہمی کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو جائے گا، گوادر میں قائم کئے جانے والے انڈسٹریل زون میں بڑی تیزی سے فیکٹریاں لگ رہی ہے اور اب تک مختلف چائینز اور پاکستانی کمپنیوں نے پائپ مینو فیکچرئنگ، خوردنی تیل کی پروسیسنگ پلانٹ اور الیکٹرک موٹر سائیکل پلانٹ لگا دیئے گئے ہیں جبکہ مزید 200 کمپنیوں نے این او سی کے لئے درخواستیں دے رکھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔