شامی بحران مزید پیچیدہ ہو گیا

ایڈیٹوریل  اتوار 18 مارچ 2018
دکھ کی بات یہ ہے کہ اس بحران کا نشانہ عام شامی شہری بن رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

دکھ کی بات یہ ہے کہ اس بحران کا نشانہ عام شامی شہری بن رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

شام کا بحران گزشتہ سات سال سے جاری ہے جس میں لاکھوں افراد ہلاک اور لاکھوں ہی بے گھر ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک اس انسانی المیے کا کوئی انت نظر نہیں آ رہا، اوپر سے عالمی طاقتیں جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف مسلسل بمباری اور گولہ باری کر رہی ہیں اور نہتے شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ کچھ بین الاقوامی ایجنسیاں ہزاروں لاکھوں افراد کو جنگ زدہ علاقوں سے محفوظ مقامات تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

تازہ اخباری خبروں کے مطابق شامی علاقے مشرقی غوطہ میں روسی جنگی طیاروں نے گزشتہ روز بھی مبینہ باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری جاری رکھی جس میں مزید 80 شہری جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ بمباری میں سکبا اور کفربتنا قصبوں کو نشانہ بنایا گیا۔ مشرقی غوبہ میں بمباری سے ہلاکتیں 1300 سے زائد ہو گئی ہیں۔

ذراuع ابلاغ کے مطابق شامی علاقے غوطہ سے محصور شہریوں کا انخلا جاری ہے۔ 50 ہزار شہری محفوظ مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ شامی حکومت نے مشرقی غوطہ کے 70 فیصد علاقے پر کنٹرول حاصل کر لینے کا دعویٰ کیا ہے۔

دوسری طرف ترک فضائیہ نے بھی شامی علاقے عفرین میں کرد ملیشیا پر بمباری کی جس میں 18 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ عفرین سے بھاگنے والے 30 ہزار افراد میں سے لا تعداد افراد ترک فوج کا نشانہ بنے۔ شام میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ شامی فوج کی غوطہ میں باغیوں کے خلاف کی جانے والی حالیہ کارروائی کے دوران 50 ہزار افراد علاقے سے نکل چکے ہیں۔

غوطہ کا شمار ان چند علاقوں میں ہوتا ہے جہاں باغیوں کی اکثریت ہے اور اس علاقے کو سنہ 2013ء سے شامی افواج نے محصور کیا ہوا ہے۔ مشرقی غوطہ میں موجود باغیوں کا تعلق کسی ایک گروہ سے نہیں بلکہ یہ کئی چھوٹے گروہ ہیں جن میں جہادی بھی شامل ہیں۔ یہ گروہ آپس میں بھی لڑ رہے ہیں اور اس کا فائدہ شامی حکومت کو ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق سات سال میں تقریباً پانچ لاکھ شامی ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ افراد اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ شام کے بحران میں زیادہ ہاتھ امریکا اور اسرائیل کا نظر آتا ہے مگر علاقے کے دیگر عرب ممالک بھی اس آگ کو بجھانے میں کوئی کردار ادا کرتے۔ اس کے ساتھ ہی ترکی کی طرف سے کرد باغیوں کے خلاف کارروائی کے نام پر اس خانہ جنگی میں کود پڑنے سے کردوں پر قابو پانا ممکن ہو یا نہ ہو شام میں ہونے والی قتل و غارت میں الٹا اضافہ ہو گیا ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کرد قوم پانچ پڑوسی ملکوں میں منقسم ہے جن میں عراق، ایران، اردن، شام اور ترکی شامل ہیں اور یہ قوم طویل عرصے سے اپنی آزادی کی جدوجہد کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ تاریخ اسلام کے ایک نامور سپوت غازی صلاح الدین ایوبی خود نسلاً کرد تھے جنھوں نے عیسائیوں کو صلیبی جنگوں میں شکست دی تھی۔ لہٰذا کردوں کا حق ہے کہ انھیں آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا جائے اور ان پر بمباری بند کرائی جائے۔بہرحال شام کا بحران پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ اس بحران کا نشانہ عام شامی شہری بن رہے ہیں‘اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ شام کے ہمسایہ مسلم ممالک بھی اس بحران کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنے کے بجائے اپنے اپنے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں اور شام میں ان گروپوں کی حمایت کی جا رہی ہے جو باہم دست و گریباں بھی ہیں اور حکومت کے خلاف بھی لڑ رہے ہیں۔ شام میں کہنے کو بشار حکومت موجود ہے لیکن عملاً شام کا اقتدار اعلیٰ سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ روس کی فوجیں شام میں موجود ہیں جب کہ ترکی بھی برملا شام کے مختلف علاقوں پر بمباری کر رہا ہے۔

ادھر ایران بھی کھل کر بشار حکومت کی حمایت کر رہا ہے ‘امریکا اور نیٹو تنظیم کے ممالک بھی شام کے بحران کو حل کرنے کے بجائے بڑھاوا دے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسرائیل نے بھی شام کے علاقوں پر بمباری کی تھی ۔یوں دیکھا جائے تو شام بھی مشرق وسطیٰ کا نیا لبنان بن چکا ہے۔ اس صورت حال سے نکلنے کا تقاضا یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک اپنے اپنے تعصبات اور مفادات کو اس طریقے سے ایڈجسٹ کریں کہ شام میں خانہ جنگی کا سلسلہ اور غیر ملکی مداخلت بند ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔