ملالہ، عافیہ کو امریکی مظالم سے نجات دلائے

عثمان دموہی  اتوار 18 مارچ 2018
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

کیا یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں کہ ستر سال تک امریکا کے زیر اثر رہنے اور اس کے اشاروں پر اس کے مفادات کے لیے کام کرنے کے بعد بھی ہم اس کے عتاب کا شکار ہوکر اس کے غلاموں کی صف تک سے باہرکردیے گئے ہیں اور اب ہم اس کی بے وفائی اور اپنی سادہ لوحی پر ماتم کناں اس ملک کی قربت حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگ گئے ہیں جس کے خلاف امریکا ہمیں اپنے مقاصد کے لیے خوب خوب استعمال کرچکا ہے۔

وزیر خارجہ خواجہ آصف چند دن قبل روسی حکام سے کامیاب مذاکرات کرکے واپس وطن لوٹے ہیں ۔ ان کی وہاں روسی وزیرخارجہ مسٹر سرگئی سے بھی ملاقات ہوئی اور دونوں رہنماؤں نے دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی ایک نئی اور مضبوط شروعات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

روس سے ہمارے اختلاف کی سب سے بڑی وجہ افغانستان کا معاملہ رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے افغانستان کو ہمیشہ امریکی نظر سے دیکھا ہے اور اس کے مفادات کے لیے وہاں محاذ آرائی تک سے گریز نہیں کیا۔ وزیر خارجہ نے افسوس ظاہرکرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے امریکا کی خاطر روس سے دشمنی مول لے کر بہت بڑی غلطی کی تھی تاہم آئندہ ہم امریکا کی کسی ’’پراکسی وار‘‘ کا حصہ نہیں بنیں گے۔

بد قسمتی سے ہم نے ابتدا میں ہی روس کے خلاف اپنا بڈبیر کا ہوائی اڈہ امریکا کے حوالے کر دیا تھا۔ امریکی پائلٹ ہماری سرحدوں کو پارکرکے روس کی جاسوسی کرتے رہے بعد میں جب یہ راز فاش ہوا تو روس کی دھمکی نے ہمیں ہلاکر رکھ دیا ۔ امریکا تو اپنا کام کرکے چلتا بنا اور روس ہمارا دشمن نمبر ایک بن گیا ۔ اس کے بعد بھی ہم امریکا سے جڑے رہے اور وہ ہم سے بار بار بے وفائی کرتا رہا مگر ہم نے اس کی خدمت گزاری سے کبھی ہاتھ نہیں کھینچا۔

1965 کی جنگ میں امریکا ہمارے احسانوں کو فراموش کرکے ہمارے دشمن کی پشت پناہی کررہا تھا اور ہمیں جارح قرار دینے کے ساتھ ساتھ دشمن کی برتری کو قبول کرنے کے لیے مجبورکر رہا تھا، اگر اس وقت ہی ہم سمجھ جاتے کہ ہم جس پر اندھا اعتماد کررہے ہیں وہ ہمارا دوست نہیں تو شاید ہم کسی اور راستے پر چل کر اپنے ملک کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوجاتے مگر ہم تو اس کے اشتراکی ممالک کے خلاف سیٹو اور سنٹو معاہدات میں بھی اس کے شریک کار رہے۔

امریکی غلامی کی وجہ سے ہم غیر جانبدار ممالک کی صف میں بھی جگہ نہ پاسکے اور اس طرح ترقی پذیر ممالک کی مجلس میں شک و شبہ کی نظر سے دیکھے گئے۔ پھر اسی آقا کی چالوں سے 1971 کی جنگ میں ہمیں ایک بڑا جھٹکا لگا۔

ہم آخر وقت تک اس کی مدد کی راہ دیکھتے رہے مگر وہ نہ آیا اس لیے کہ وہ تو خود ہمارے ملک کو توڑنے کی سازش میں شریک تھا مگر ہم پھر بھی اسے نہ سمجھ سکے۔ پھر روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے ہمیں استعمال کیا گیا اور ہم نے روس جیسی سپر پاور سے بھی ٹکر ہی نہیں لی بلکہ اپنی بقا کو داؤ پر لگاکر اسے افغانستان سے باہر نکال دیا مگر ہماری یہ قربانی بھی ضایع گئی۔ اس لیے کہ اس فتح کے بعد وہ ہمیں تنہا چھوڑ کر چلا گیا اور مجاہدین کے مقابل کرگیا۔

طالبان کی دینی تحریک اسے پسند نہ آئی اور اس نے پھر ہمیں ان سے بھی نمٹنے کے لیے تعاون کرنے کی دعوت دی ساتھ ہی دھمکی بھی دی کہ اگر ساتھ نہ دیا تو نشان عبرت بنا دیے جاؤگے۔ اس وقت ملک میں کوئی جمہوری حکومت نہیں تھی کہ اس دھمکی کے خلاف پارلیمنٹ میں قرارداد پاس کرائی جاسکتی چنانچہ فوراً ہی اس کی ہر بات مان لی گئی کہ کہیں اقتدار سے ہی بے دخل نہ کردیا جائے۔ چنانچہ طالبان کی مصیبت میں جو اس وقت سے پھنسے ہیں تو آج تک اسے بھگت رہے ہیں ، اسی مصیبت سے کئی مصیبتیں جڑی ہوئی ہیں۔

ایک تو طالبان کی دہشت گردی نے ملک کو جانی اور معاشی طور پر تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے، کئی محب وطن شہری جو امریکی نظر میں اس کے دشمن قرار پائے انھیں اس کے حوالے کرنا پڑا اور ان میں سے اکثرگوانتا ناموبے کے عقوبت خانے کی نذر ہوگئے۔ اسی وقت ایک محب وطن پاکستانی لڑکی کو بھی امریکا کے حوالے کردیاگیا اس پر الزام تھا کہ اس نے ایک امریکی فوجی سے اس کی رائفل چھین کر اسے جان سے مارنے کی کوشش کی تھی۔

وہ ایک نحیف سی لڑکی جو رائفل کا بوجھ بھی نہیں اٹھاسکتی تھی اسے محض اسلام پسندی کی سزا دینے کے لیے طالبان کا ہمدرد ظاہر کردیا گیا۔ وہ اب ایک امریکی جیل میں پندرہ سال کی قید تنہائی کی سزا بھگت رہی ہے اس دختر پاکستان پر وہاں جو شرمناک ظلم و ستم ڈھائے جارہے ہیں اس سے تو انسانیت بھی شرماگئی ہے۔

ایک عورت کو جس طرح بھی ستایا جاسکتا ہے بس وہ تمام حربے اس پر آزمائے جارہے ہیں۔ اسے اغوا کرکے پہلے افغانستان کی بٹگرام جیل میں اذیت دی گئی۔ اس سے اس کے معصوم بچے چھین لیے گئے۔ خفیہ عقوبت خانے میں انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ پانچ سال تک لاپتا رکھا گیا اسے گولیاں تک ماری گئیں۔

پاکستانی شہری ہونے کے باوجود اسے غیر قانونی طور پر افغانستان منتقل کیا گیا پھر وہاں سے امریکا لے جایا گیا۔ جھوٹا اور من گھڑت مقدمہ قائم کیا گیا، جیل میں برہنہ کیا گیا جب اس غیرت مند نے ان بے غیرتوں سے کپڑے طلب کیے تو کپڑوں کی واپسی کے لیے قرآن کریم کو اس کے قدموں میں پھینک کر چلنے کو کہا گیا۔

عدالت میں قانونی دفاع سے بھی محروم کر دیا گیا وہ کسی وکیل کی معاونت سے بھی محروم کردی گئی صرف سرکاری وکیل فراہم کیا گیا جو سرکارکی زبان بولتا رہا چونکہ جھوٹا الزام لگایا گیا تھا وہ تمام حربوں کے باوجود ثابت نہ ہوسکا مگر متعصب عدالت نے پھر بھی چھیاسی سال کی قید تنہائی کی سزا سنا دی۔ اس وقت کی پاکستانی حکومت بھی اس کی کیا مددکرتی اس نے تو خود ہی اسے چند ڈالروں کے عوض امریکی درندوں کے ہاتھوں فروخت کردیا تھا۔

عافیہ کی زندگی بھی عجیب پیچ وخم کا شکار رہی۔ اسے حکومت پاکستان کی جانب سے 23 مارچ 1998 کو یوم پاکستان کے موقعے پر ’’پرائڈ آف پاکستان‘‘ کا اعزاز عطا کیا گیا اور مشرف کے آمرانہ دور میں 30 مارچ کو اسے اس کے کمسن بچوں سمیت امریکیوں کے حوالے کردیاگیا، اس چھینا جھپٹی میں اس کا ایک شیر خوار بچہ ہلاک ہوگیا۔ باقی دو کو افغانستان میں قید رکھا گیا مگر ماں سے الگ اور پھر عافیہ کو امریکا منتقل کردیاگیا مگر بچوں کا کچھ پتا نہ چل سکا۔ ایسا ظلم و ستم توکسی آمرانہ دور میں نہیں ہوا تھا جو ڈالروں کی لالچ میں امن کے نام پر کیا گیا۔

اب اس وقت عافیہ کی ظلم و ستم سے بھری داستان پوری دنیا تک پہنچ چکی ہے جس سے خود امریکی عوام اور خصوصاً خواتین دم بخود رہ گئی ہیں۔ خوش قسمتی سے اب عالمی تنظیم انٹرنیشنل ریڈ کراس (IRC) نے اس کی رہائی کے لیے آواز ہی بلند نہیں کی ہے بلکہ سال رواں کے یوم خواتین کو ’’فری پولیٹیکل پر زنرز‘‘ Free Political Prisoners کے عنوان سے عالم اسلام کی دو مظلوم بیٹیوں دختر پاکستان عافیہ صدیقی اور دختر فلسطین احدتمیمی سے منسوب کیا ہے۔

افسوس کہ خود پاکستان میں ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا کاش کہ ہماری خواتین تنظیمیں بھی اس دن دونوں مجاہد خواتین کی رہائی کے لیے احتجاج ریکارڈ کراکے اپنی غیرت دینی و ملی کا ثبوت فراہم کرتیں۔ عافیہ پاکستانی خواتین کے لیے حق و سچ کی خاطر ظلم و جبر سے ٹکرانے کی ایک انوکھی مثال بن چکی ہے۔

کاش کہ پاکستان کی ایک اور بہادر بیٹی ملالہ اپنی اس پاکستانی بہن کی مظلومیت پر ترس کھاکر اپنی بین الاقوامی حیثیت کو بروئے کار لاتے ہوئے عالمی سطح پر اس کی رہائی کے لیے مہم چلائیں تو پوری قوم ان کی احسان مند ہوگی۔ کیا کہا جائے کہ ہماری حکومت تو اس معاملے میں ذرا بھی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔