نعرے اور حقائق

زبیر رحمٰن  اتوار 18 مارچ 2018
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

بعض نعرے اکثر مزدور اپنے جلسے ، جلوسوں میں لگاتے ہیں ۔ ان کا تعلق مہنگائی اور بے روزگاری سے ہے۔ نعرے کچھ اس طرح کے ہیں کہ ’’ آٹا مہنگا ، لٹ گئے ہم ، دالیں مہنگی، لٹ گئے ہم ، علاج مہنگا، لٹ گئے ہم وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ بات درست بھی ہے کہ انسان کی بنیادی ضرورتیں ، غذا ، پانی، رہائش ، علاج ، روزگار، ٹرانسپورٹ اور تعلیم وغیرہ ہے۔ یہ ساری چیزیں مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔

سوال کریں توکہا جاتا ہے کہ یہ عالمی مسئلہ ہے ۔ جی ہاں عالمی مسئلہ ہے اور اس لیے ہے کہ کھربوں ڈالرکے اسلحے کی پیداوار ہوتی ہے جب کہ بنیادی چیزوں، اجناس اورضروریات زندگی کی اشیاء سے لوگ محروم ہیں ۔ پیداوار تو ہورہی ہے بلکہ آج کل سرمایہ دارانہ نظام کا بحران درحقیقت زائد پیداوارکا بحران ہے ۔گودام ، اجناس سے اٹے پڑے ہیں مگر قیمتوں میں اضافہ کرنے کے لیے مختصر پیمانے پر بازار میں اجناس لائی جاتی ہیں۔

دوسری طرف عوام کی قوت خریدکم ہونے سے وہ کم خریدنے پر مجبور بھی ہوتے ہیں ۔ ذخیرہ اندوزوں اورملٹی نیشنل کمپنیوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ روزانہ اس دنیا میں پچھتر ہزار انسان صرف بھوک سے مر ہی کیوں نہ جائیں مگر ان کے منافعے میںکمی نہیں آنی چاہیے ۔ اس کوکہتے ہیں ’’ قدر زائد ‘‘ َجو مزدورکسان پیداوارکرے وہی بھوک سے مرے اور جوکام نہ کرے وہ ساری دولت کا مالک بن جائے۔ یہی صورتحال دنیا بھرکی ہے ۔ دنیاکے آٹھ امیر ترین انسان دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں ۔

پاکستان میں صورتحال کم ابتر نہیں ۔ عمران خان کہتے ہیں وقت آنے پر ہم چیف جسٹس کے ساتھ کھڑے ہونگے ۔ آپ ایک دوسرے کے ساتھ بے شک کھڑے رہیں مگرکھڑے کھڑے عوام کا ستیاناس نہ کریں ۔ دفاعی بجٹ میں پچاس فیصد کمی کروا کر بھوکے شہریوں کو بھوک سے نجات، بیماروں کو صحتیاب، جاہلوں کو تعلیم یافتہ اور بے گھروں کوگھر مہیا کروا سکتے ہیں۔

اسی طرح چیف جسٹس محنت کشوں کے حقوق کے حصول کے لیے ، مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف از خود نوٹس لے سکتے ہیں ، اگر وہ عوام الناس کی روزمرہ کی ضرورتوں کی اشیاء پر لگائے گئے ظالمانہ ٹیکس پر ایکشن لیں تو پاکستان میں اجناس کی قیمتیں پچاس فیصدکم ہوسکتی ہیں۔ بڑے بڑے شاپنگ مالز، موٹر ویزاور اورنج ٹرین اور قیمتی گاڑیوں کی پیداوار اور درآمدات کو رکوا کر مل کارخا نوں کا جال بچھواکر مزدوروں کی بے روزگاری ختم کی جاسکتی ہے۔

جاگیر داری ختم کرکے زمین کسانوں میں تقسیم کر بے زمین کسانوں کو دلوائی جاسکتی ہے۔ جہاں دال مونگ سو رو پے کلو ، مسور اسی رو پے چنا سو روپے، ماش ایک سو دس روپے ، چاول ایک سو سے دو سو روپے ، چینی باون رو پے کلو، دودھ ایک سو روپے فی لیٹر اور تیل ایک سوپچاس سے ایک سو اسی رو پے کلو بکتے ہوں ، آلودہ پانی، دودھ میں ملاوٹ اور بغیر ٹماٹرکے ٹماٹوکیچپ ، بغیر دودھ کے ریڈی میڈ دودھ بکتے اور ملتے ہوں ، وہاں عوام کے لیے وطن عزیز کی محبت اور سپریم کورٹ کا وقارکیا مطلب رکھتا ہے۔

اقوام متحدہ کا فیصلہ ہے کہ کسی بھی ملک میں اپنے رقبے کا پچیس فیصد جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ بنگلہ دیش میں جنگلات سولہ فیصد اور ہندوستان میں بیس فیصد ہے، برازیل اور ویتنام میں نوے فیصد جنگلات پر مشتمل ہے جب کہ پاکستان میں دوعشاریہ پانچ فیصد ہے۔ پا کستان کے جنگلات افریقی ملکوں سے بھی کم ہے، جو انتہائی خطرناک ہے۔

پاکستان میں کچھ علاقے ماحولیات کے اعتبار سے بہت ہی اچھے ہیں، ان میں سے ایک ملاکنڈ کی تحصیل درگئی ہے ۔ جو جنت نظیرکا نمونہ پیش کرتی ہے ۔ اب وہاں تقریبا دس نام نہاد اسٹیل ملز لگائی گئی ہیں، جہاں ہر مل میں پچاس سے دو سو مزدورکام کرتے ہیں،انھیں صرف جینے کے لیے مختصر دہاڑی دی جاتی ہے، مزدوروں کا استحصال کرنے اور سستے مزدور حاصل کرنے کے لیے ساہیوال، سرگودھا اور پنجاب کے دیگرعلاقوں سے مزدور لائے جاتے ہیں۔ ان ملوں میں انتہائی ناقص میٹریل استعمال ہوتے ہیں۔

زنگ آلود اسکریپ افغانستان اورکراچی سے لایا جاتا ہے اور اس سے فولاد بنایا جاتا ہے ۔ یہ علاقہ ماحولیات کے لحاظ سے جنت نظیر ہے لیکن اب ملوں کے دھوؤں سے اسے دوزخ بنا دیا گیا ہے ۔ اب تک اس تحصیل میں آٹھ افراد کینسرکے مرض میں جان سے جاچکے ہیں۔

ایک جانب عمران خان لاہور میں کینسرکا اسپتال بناتے ہیں تو دوسری طرف کے پی کے میں کینسر پھیلانے کے کارخانے قائم کرتے ہیں ۔ اس علاقے کے ایک سماجی کارکن شاہ جی بنوری کہتے ہیں کہ’’ ملوں کے دھوؤں سے یہاں کے مکین انتہائی پریشانی کا شکار ہیں۔ میڈیا اس سنگین صورتحال پر خاموش ہے اور شاید اس نے آنکھیں بھی موندلی ہیں۔

ماحولیات کا شعبہ اور مسئلہ ایسا ہے کہ اگر اسے درست کرلیا جائے تو پچاس فیصد بیماریاں ختم ہوسکتی ہے۔ معروف فلسفی ’’روسو‘‘ کا ایک قول ہے کہ ’’دنیا کو جنگل بنا دوکوئی بھوکا نہیں مرے گا اور نہ بیمار ہوگا ‘‘ یہ بات تو ویسے بھی درست ہے کہ جنگل میں پھل، سبزی، جانور اور پرندے کھانے کو ملیں گے اورآب وہوا بھی شفاف ہوگی ۔ پھر دریاؤں کے بہاؤ سے صاف پانی اور کھانے کو مچھلی ملے گی۔ آئیے ہم ایسے ایک سماج کی تشکیل کی جانب پیش قدمی کریں جہاں کوئی ارب پتی ہو اور نہ گدا گر ۔ اس کے لیے ہمیں جنگی ہتھیاروں کو فناکرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔