حکومت سندھ اپنی ذمے داری پوری کرے

عبدالرحمان منگریو  اتوار 18 مارچ 2018

پاکستان اُن 189ممالک میں شامل ہے جنہوں نے آج سے تقریباً 20 سال قبل اقوام ِ متحدہ کے پلیٹ فارم پریہ اعلان کیا کہ ہم دنیاسے جہالت کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ترقی یافتہ اور مساوی بنانے کے لیے اپنے اپنے ملک میں اقدامات کریں گے۔

ان ممالک کے عزم کو دیکھتے ہوئے اقوام ِ متحدہ نے اپنے ذیلی اداروں یونیسیف اور یونیسکو کی معرفت ایک مشترکہ حکمت عملی و عملدرآمدی منصوبہ تیار کیا اور اُسے ملینیم ڈویلپمنٹ گولز 2015یعنی صد سالہ ترقیاتی اہداف کا نام دیا گیا جو 2015تک حاصل کرنے تھے پھر ان کے حصول کی مدت کو پانچ سال بڑھا کر 2020 کردیا گیا ۔ ان اہداف کے حصول کے لیے کم وسائل کے حامل اور ترقی پذیر ممالک کو مالی معاونت فراہم کی جارہی ہے۔

دنیا کی ترقی کے لیے مجوزہ اہداف میں سب سے پہلا ہدف’’ تعلیم عام کرنا‘‘ قرار پایا ، جس کے لیے مفت و معیاری تعلیم رکن ممالک کی اولین ذمے داری قرار دی گئی ۔ اس لحاظ سے حکومت ِپاکستان ملک بھر میں عوام کو مفت و معیاری تعلیم کی فراہمی کی پابند اور ذمے دار ہے ۔

آج ہم 2020کے دروازے پر کھڑے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان دیگر اہداف کی طرح تعلیم کی فراہمی کے اس بنیادی ہدف کے حصول اور اپنی اولین ذمے داری کی سرانجامی میں نہ صرف ناکام رہا ہے بلکہ معیاری و مفت تعلیم کی فراہمی میں تو وہ باقی دنیا سے کوسوں دور کھڑا ہے جب کہ بنگلہ دیش سمیت جنوبی ایشیا اور افریقہ کے کئی ملک ان اہداف کے حصول میں ہم سے کافی آگے ہیں۔

70سالہ پاکستان کی تاریخ میں گذشتہ 40سالوں میں سرکاری سطح پر تعلیم کو سب سے زیادہ نظرانداز کیا گیا ۔ معیاری و مفت تعلیم تو درکنارتعلیم کی فراہمی کی بنیادی ذمے داری سے ہی نظریں چرائی گئیں۔ ملک کے مجموعی بجٹ میں سب سے کم بجٹ شعبہ تعلیم کے لیے رکھا جاتا رہا ہے ، پھر 18ویں ترمیم کے بعد وفاق نے تو شعبہ تعلیم صوبوں کے حوالے کرکے اُس کی ذمے داری سے جیسے جان ہی چھڑالی جیسے یہ کوئی بوجھ تھا جسے کم کردیا گیا ۔

وزارتِ تعلیم کی صوبوں کو منتقلی کے بعد:

اب سندھ بھر میں تعلیم کی ذمے داری حکومت ِ سندھ کی ہے ۔ یہاں بھی وہی روش رہی کہ سب سے کم بجٹ فروغ ِ تعلیم کے حصے میں آتا ہے ۔ اور وہ بھی سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کیا جاتاہے یعنی سیاسی طور پر بھرتی کیے ہوئے اساتذہ کی تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہوتا ہے یا پھر مقامی سطح پر( جہاں بچوں کی مطلوبہ تعداد ہی نہ ہو ایسی جگہوں پر) تعمیر ہونے والے ان اسکول کی عمارتوں پر جو جاگیرداروں اور دیگر بااثر شخصیات کے ذاتی و برادری کے نجی استعمال میں ہوتی ہیں، یا تو وہاں جانور باندھے جاتے ہیں یا پھر وہاں سیاسی و مذہبی جلسے اور شادیاں و دیگر تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔

حالانکہ 5کروڑ سے زائد آبادی کا حامل صوبہ سندھ وسائل و مواقع سے مالا مال ہونے کے باعث، آئے دن روزگار کی تلاش میں دیگر خطوں سے بھی لاکھوں افراد یہاں آکر آباد ہونے کی وجہ سے دیگر شعبوں کی طرح شعبہ تعلیم میں بھی یہاںبے پناہ دباؤ نظر آتا ہے ۔ لیکن سندھ حکومت کی جانب سے شعبہ تعلیم پر مطلوبہ توجہ اور مناسب انتظامات کی عدم موجودگی نے شعبہ تعلیم کو تباہی کے کنارے لاکھڑا کیا ہے ۔ سندھ میں 15ہزار سے زائد سرکاری اسکول بند ہیں، صوبہ کے 35فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہونے کے باوجود بھی وزارت ِ تعلیم کی خاموشی ایک المیہ ہی ہے ۔

ایسی صورتحال کے باعث صوبہ میں بڑے پیمانے پر نجی اسکول کھلے ہیں جہاں والدین بھاری فیسوں اور دیگر اضافی اخراجات پربھی اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے پر مجبور ہیں ۔نجی اسکولوں کی انتظامیہ کی جانب سے تعلیم کے معیار میں اضافے کی بجائے اپنے منافع میں اضافے کے لیے پالیسیاں بنانے کو ترجیح دی جاتی ہے ،جس کی بناء پرکلاسوں میں گنجائش سے زیادہ بچوں کی تعداد، حفظان ِ صحت کے اُصولوں کے مطابق انتظامات نہ کرنااور کھیلوں سے عدم توجہی ۔ غیر فعال لائبریریاں یا لیباریٹریز میں آلات کی کمی ۔ یونیفارم ، شوز ، کتابیں ، مونوگرام مختلف اقسام کی رکھی گئی ہیں اور اُن کی خریداری اسکول یا مخصوص دکانوں سے کرنے پر مجبور کیا جانا، سالانہ اور امتحانی فیس کے نام پر اضافی رقم وصول کرنا ، ہر سال نئی کلاسز کے آغاز میں سال بھر کی اسٹیشنری کی زیادہ مقدار میں خریداری کروانے کے باوجود وقتاً فوقتاً وہ چیزیں دوبارہ منگوانا۔

ایک تو صحت مند غیر نصابی سرگرمیاں برائے نام کی جاتی ہیں پھر اُن کمیاب غیر نصابی سرگرمیوں ، سالانہ تقریبات، اور سیر و تفریح کے دوروں پر آنیوالے اخراجات کی مد میں بھی رقوم وصول کرنا اور حد تو یہ کہ اُن پر آنیوالے اخراجات کی کُل رقم سے بھی زیادہ رقوم وصول کرنا تو معمول ہوگیا ہے۔پھر جہاں جون ، جولائی کی فیس یکمشت لینا والدین پر بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے وہیں میٹرک کے امتحانات کی صورت میں اسکول چھوڑنے کے باوجود جون ، جولائی کی فیس کی وصولی سراسر ظلم ہے۔

حد تو یہ ہے کہ والدین سے ان کمر توڑ ادائیگیوں کے باوجود اسکول کی جانب سے اساتذہ کو معقول تنخواہیں نہ دینے کی بناء پر اساتذہ کی جانب سے دوران ِ سیشن اسکول سے مستعفی ہونے کی صورت میں بھی نقصان بچوں کی پڑھائی کا ہی ہوتاہے ۔ لیکن ان تمام مظالم کے باوجود والدین کو زہر کے گھونٹ پی کر بھی مجبوراً یہ تمام کام برداشت اور اضافی ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں۔ کیونکہ نجی اسکول ایک طاقتور مافیا کا روپ دھار چکے ہیں اور اُن پر حکومت کی نہ تو کسی پالیسی کا اثر ہوتا ہے اور نہ ہی وہ حکومت کو خاطر میں لاتے ہیں۔

حالانکہ یہ اسکول سندھ اسمبلی سے پاس کردہ حکومت ِ سندھ کے قانون ’’ سندھ ریگیولیشن اینڈ کنٹرول آرڈیننس برائے نجی تعلیمی ادارے 2001اور2005‘‘ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں اور اس آرڈیننس کے قوانین کے پابند ہیں لیکن گذشتہ 15سالوں سے اسکولوں نے نہ تو ان قوانین کی پابندی کی ہے اور نہ ہی ان سے متعلق حکومت ِ سندھ نے عوام کی آگاہی کے لیے کوئی مہم چلائی ہے۔

والدین کواپنے قانونی حقوق کی عدم معلومات کی وجہ سے اسکول ایک مافیا کے طور پر اپنی من مانی فیسوں اور پالیسیوں کی بدولت مجبور والدین کو دونوں ہاتھوں سے لُوٹتے آئے ہیں ۔جب کہ پنجاب اور کے پی کے کی حکومتوں کی جانب سے اپنے صوبوں میں نہ صرف والدین کی اُمنگوں کے مطابق قوانین بنائے گئے ہیں بلکہ اُن پر مکمل طور پر عمل بھی کروایا ہے جیسے نجی اسکولوں کو فیسوں میں من مانی اضافہ کے بجائے حکومت سے پیشگی اجازت پر 3%فیصداضافہ تک محدود کیا ہے ، جون ، جولائی کی فیس یکمشت لینے پر پابندی وغیرہ ، اور ان اقدامات کی میڈیا کے ذریعے بھرپور آگاہی مہم بھی چلائی ہے ۔ لیکن حکومت ِ سندھ کی جانب سے ایک تو مفاد ِ عامہ (والدین)میں اقدامات کی کمی پائی جاتی ہے اس پر حکومت کی جانب سے مناسب آگاہی مہم نہ ہونے کی وجہ سے والدین کو ان کے حقوق کا علم ہی نہیں ہوتا جیسے ’’ سندھ ریگیولیشن اینڈ کنٹرول آرڈیننس برائے نجی تعلیمی ادارے 2001اور2005‘‘ کے تحت حاصل حقوق سے متعلق والدین کی اکثریت لاعلم ہے۔

اسی بات کا فائدہ اُٹھاکر نجی اسکولوں کی جانب سے من مانیاں کی جاتی رہی ہیں ۔ لیکن کچھ باشعور و باہمت والدین کی جانب سے اگست 2017میں اس عرصہ دراز سے جاری ظلم کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ محکمہ تعلیم سندھ کو تحریری طور پر شکایات سے لے کر احتجاجی ریلیاں تک نکالیں۔

کراچی چیمبر آف کامرس کی جانب سے بھی والدین کے حق میں حکومت ِ سندھ کی توجہ دلائی گئی لیکن جب ان کی باتوں پر کوئی خاص توجہ نہ دی گئی تو لامحالہ والدین نے عدالت عالیہ سندھ کے دروازے پر دستک دی اور یوں والدین کو بھی اپنی بات رکھنے کا کوئی پلیٹ فارم میسر ہوا ۔ اگست 2017میں والدین کی داخل کردہ پٹیشن پر سندھ ہائی کورٹ نے فوری نوٹس لیتے ہوئے بڑے نجی اسکولوں اور محکمہ تعلیم ،حکومت سندھ کو بطور فریق معاملے کے حل کے لیے پابند کیا، اسکولوں کی جانب سے 2017میں کیے گئے 15سے 20فیصد اضافے کو مسترد کیا اور انھیں مکمل فیصلہ آنے تک 5فیصد تک محدود رکھنے کا حکم امتناعی اور حکومت سندھ کو اس پر عمل کروانے اور مانیٹرنگ کی ہدایات کے باوجود تاحال فیس کے واچر ایشو نہیں ہوئے ۔ جس پر وقتی طور پر محکمہ تعلیم کے صوبائی وزیر جام مہتاب حسین ڈہر نے کچھ ہدایات جاری کیں۔

اسکولوں کو عدالتی فیصلہ آنے تک فیس پرانے نرخوں پر وصولی کے لیے کہا گیا ۔ اپنے محکمہ کے ڈائریکٹوریٹ آف پرائیوٹ انسٹی ٹیوشنزاور اُن کے ریجنل ڈائریکٹوریٹ کے لیے فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی نامزدگی کے لیے محکمہ قانون سندھ کو سفارشات پر مبنی سمری بھی ارسال کی ، اور ڈائریکٹوریٹ کو نجی اسکولوں کی مانیٹرنگ کو سخت کرنے کی بھی ہدایت کی ۔ لیکن یہ سب گیدڑ بھبکیاں ہی ثابت ہوئیں، عملی طور پر کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے ۔ اسی وجہ سے نجی اسکول مافیا ان کو خاطر میں ہی نہیں لاتے اور ان کے رویے میں کوئی فرق نہ آیا ماسوائے فیس میں کیے گئے اضافے کو عدالتی فیصلہ آنے تک مؤخر کرنے کے۔

اسی دوران والدین بالخصوص متاثرہ والدین کی جانب سے مجوزہ قوانین کے تحت والدین کوحاصل حقوق سے متعلق میڈیا و سوشل میڈیا میں بڑی محنت اورتندوہی سے آگاہی مہم چلائی اور ساتھ ہی عدالت میں مقدمے کی پیروی بھی کی اور والدین کے حقوق کے تحفظ کے انتظامات سے متعلق سفارشات بھی تیار کرکے مقدمے کی پیروی کے دوران عدالت عالیہ میں جمع کرائیں ۔

عدالت عالیہ نے والدین ، نجی اسکولوں اور حکومت ِ سندھ کاموقف سن کر بالآخر 5مارچ 2018کو فیصلہ سنایا ۔ جس میں حکومت ِ سندھ کو شعبہ تعلیم پر اتھارٹی تسلیم کرتے ہوئے انھیں اپنی ذمے داری بخوبی سرانجام دینے کی تلقین کرتے ہوئے کہا گیا کہ(۱) نجی اسکول آئین کے آرٹیکل 18بی کے تحت ریگولیٹ ہونے اور 2001و 2005کے آرڈیننس کے تحت لائسنس یافتہ ہیں تو وہ ان دونوں قوانین کے پابند بھی ہیں ۔ (۲) حکومت سندھ 90دن کے اندر نجی اسکولوں میں فیسوں کے اضافے و دیگر اُمور سے متعلق 2005کے تحت ، اس میں ترمیم کے تحت یا نئے قانون کی تیاری کے تحت ایک جائزہ اُصول تیار کریں ۔ (۳) فی اسٹرکچر مجوزہ قوانین کی شقوں کے مطابق ریگولیٹری اسکیم کے تحت ہونی چاہیے اور اُس پر اعتراض کا حق ہونا چاہیے ۔ اسکولوں کی فیس میں اضافہ آرڈیننس کی شق 7(3)کے تحت ہونے کو آئین کے بنیادی آرٹیکل 18سے تجاوز کرنا قرار دیکر 7(3)کو کالعدم قرار دیا گیا اور حکومت ِ سندھ کو نئے مسودے کی تشکیل کا کہا گیا ہے لیکن جب تک وہ مسودہ تیار ہو تب تک 7(3)کو بحال رکھا جائے ۔ (۴)فیسوں میں اضافے کی دو مرحلوں پر مبنی کارروائی (یعنی والدین سے مشورہ پر مبنی کارروائی )لاگو کرنے کو یقینی بنانے کا جائزہ بھی لیا جائے ۔ (۵) اسکول فیس میں اضافے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو لازمی طور پر باضابطہ نوٹس دیے جائیں اور والدین کو کسی بھی قسم کے اعتراض یا مشورے کا بھرپور موقعہ فراہم کیا جائے ۔ (۶) اسکول فیس میں اضافے کو منظور یا مسترد کرنے کا فیصلہ مضبوط دلائل پر کیا جائے ۔ (۷) اسکولوں کی جانب سے فیس میں اضافے کی درخواست اور اسٹیک ہولڈرز کو نوٹسز کے اجراء سے لے کر حتمی فیصلے تک کے عمل کے لیے ایک وقت مقرر کیا جائے جس کے اندر اس تمام کارروائی کو مکمل کرنے کی پابندی کو یقینی بنایا جائے ۔ اور (۸) حکومت یا والدین کو کہا گیا ہے کہ اگر کسی وجہ سے 90دن کے اندرنیا مسودہ تیار نہیں ہو پاتا تو وہ 7(3)میں توسیع کے لیے دوران ِ 90یوم عدالت میں درخواست دے سکتے ہیں بصورت ِ دیگر90دن کے بعد 7(3)شق خود بخود ختم ہوجائے گی۔

تعلیم جو پاکستان بالخصوص سندھ میں ایک منافع بخش کاروبار بن کر رہ گئی ہے۔ اُسے معاشرے کی تعمیر کا ذریعہ بنانے اور اقوام ِ متحدہ میںدنیا بھر کے ساتھ کیے گئے وعدے کی تکمیل کے لیے اب حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ اس سنہری موقع سے فائدہ اُٹھائے اورعدالت عالیہ سندھ کے فیصلے کے مندرجہ بالا نکات کے ساتھ ساتھ مکمل فیصلے کے عین مطابق نجی اسکولوں سے متعلق متبادل اور ترمیمی قانون کی تیاری کو 90یوم کے اندر مکمل کرے اور اس میں اسکولوں کی انتظامیہ ،اساتذہ ، والدین سمیت تمام فریقین بالخصوص والدین کے حقوق کا خصوصی خیال رکھا جائے اور شعبہ تعلیم کے حوالے سے صوبہ بھر میں اپنی رٹ قائم کرنے کو یقینی بنائے ۔جب کہ نئے مسودے/قانون کی تیاری کے وقت والدین کے حقوق سے متعلق والدین کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کولازمی طور پر زیر غور لایا جائے ، جیسے : اسکولوں کی عمارتوں اور اُن میں موجود ضروری سہولیات کی جانچ پڑتال ۔فیسوں میں اضافے سے متعلق والدین کو مشورے یا اعتراض کا حق دینے کو یقینی بنانا۔ ہر اسکول میں والدین کمیٹی قائم کرنے کو یقینی بنانا اور خلاف ورزی کی صورت میں لائسنس کی منسوخی ۔ صوبہ بھر کے تمام اسکولوں میں کیٹگری کے حساب سے دو یا تین اقسام کی یونیفارم لاگو کرنا اور پھر اسکولوں کو اُسی میں سے چوائس کا پابند بنانا۔ یونیفارم ، کُتب اور دیگر اشیاء کی اسکولوں یا مخصوص دکانوں سے خریداری کی پابندی کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنا۔ اور فیسوں میں سالانہ اضافے کی شرح کو کم سے کم مقرر کرنا۔ اور طلبہ کی مجموعی تعداد کے کم از کم دس فیصد اہل طلبہ کو تعلیمی وظائف دینے کی پابندی کو یقینی بنانا شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔