میرے گھر آئی…

شیریں حیدر  اتوار 18 مارچ 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

چتون چڑھائے… زبان کو اس وقت تک روک کر رکھے ہوئے کہ جب تک وہ ’’ ٹارگٹ ‘‘ سامنے نہ آ جائے، وہ غصے میں لال گلابی، ہاتھوں میں تسبیح کو تیزی سے گھمائے جا رہی تھی، ہمہ وقت تسبیح ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اسی لیے وہ انتہائی عبادت گزار خاتون مشہور ہیں، محلے، برادری اور خاندان کے لوگ ان کی رائے اور مشورے کو انتہائی صائب سمجھتے اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ جہاں کہیں خانگی زندگیوں میں مسائل درپیش ہوتے ہیں، لوگ آپا جی کے پاس دوڑے چلے آتے ہیں اور وہ انھیں سمجھاتی اور صحیح مشورہ دیتی ہیں۔

آپا جی ایک روز پہلے ہی اپنے اکلوتے بیٹے کو بیاہ کر لائی ہیں اور اس وقت وہ اپنے ناشتے سے فارغ ہو کرخاندان کی انھی خواتین میں گھری بیٹھی ہیں جو ان سے اپنی بہوؤں اور بیٹیوں کے لیے مشورے مانگتی ہیں، اس وقت انھوں نے آپا کو خوب بھڑکا رکھا ہے، ان کی بہو ابھی تک اپنے کمرے سے برآمد جو نہ ہوئی تھی۔ بیٹا جو شادی سے پہلے ، معمول میں بھی چھٹی کے روز ، دن چڑھے تک سوتا رہتا تھا، اس روز اس کے یوں سوئے رہنے پر خاندان کی عورتوں نے تیلی لگا رکھی تھی کہ بہو کیسی عورت ہے جو نہ صرف خود سو رہی ہے بلکہ اس نے ان کے بیٹے کو بھی ان سے راتوں رات چھین لیا ہے۔

بیٹے کے چھن جانے کا خوف، ممتا کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے،اسی کمزوری کی وجہ سے مائیں بیٹوں کی ہر غلط سلط بات کو بھی برداشت کرتی چلی جاتی ہیں کہ کہیں بیٹا سرزنش یا ڈانٹ سے ناراض نہ ہو جائے، چھن نہ جائے۔ وہی عورتیں جو سویرے سویرے ان کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھی ہیں، وہ اکثر ان سے یہی پوچھنے آتی ہیں کہ بیٹوں کو بہوؤں سے کس طرح ’’ بچا‘‘ کر رکھا جائے، ان پر اپنی اجارہ داری کس طرح قائم کی جائے… وہ ساسوں کو سمجھاتیں کہ وہ ان کی وہ بیٹیاں ہیں جو کسی اور کے گھر میں پیدا ہوتی ہیں، ان کے مقدر اللہ تعالی ان کے بیٹے کے ساتھ لکھتا ہے اور اس کے ماں باپ پال پوس کر اپنی سب سے قیمتی چیز ان کے حوالے کر دیتے ہیں تو ان ماں باپ کی اور ان کی بیٹی کی قدر کریں ۔ جب وہ ان کے گھر میں آئے تو ایک نئے پودے کی طرح اس کی پرداخت کریں، اس کا خیال رکھیں ، اسے رویوں کی سختی اور مزاج کی گرمی سے بچائیں ۔ اسے اپنا سمجھیں، اپنائیت سے بلائیں اور پیار سے رکھیں تو وہ ان کے گھر میں رچ بس جائے گی، ان کے گھر کے طور طریقے اپنا لے گی۔

دوسری طرف بہوئیں ان کے پاس آتی ہیں تو ان کا مسئلہ ہوتا ہے کہ شوہروں کو ماں کے تسلط سے کس طرح نکالا جائے، وہ اس قدر ماں کے دباؤ میں ہے کہ بیوی کو وقت نہیں دیتا، اس کی تکلیف میں بھی اسے تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ آپا جان ان بیویوں کو بھی شوہروں کو قابو کرنے کے ٹوٹکے بتاتی ہیں اور انھیں سمجھاتی ہیں کہ مرد عمر بھر تر و تازہ عورت کو پسند کرتا ہے اور اگر بیوی ایک بچہ پیدا کر کے مرجھا جائے، اپنے خیال رکھنا چھوڑ دے، بچے میں گم ہو کر شوہر کو نظر انداز کرنا شروع کر دے تو شوہر گھر سے اور بیوی سے سو بہانوں سے دور ہونے لگتا ہے ۔ بیوی کو بہت قربانی دینا ہوتی ہے، اپنی نیند کی اور آرام کی، اپنی پسند اور ناپسند کی اور شوہر کو خوش رکھنے کے لیے اپنا آپ تج دینا پڑتا ہے۔ ماں کو ماں اور بیوی کو بیوی کے مقام پر رکھتا ہے اگر بیوی محبوبہ بن کر رہے اور ماں بننے کی کوشش نہ کرے۔

شوہروں کو بھی موقع ملنے پر سمجھاتیں کہ اللہ تعالی ان مردوں کو پسند فرماتا ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عورتوں میں مائیں بھی ہیں، بہنیں بھی، بیٹیاں اور بیویاں بھی۔ اس کے علاوہ اور بھی محترم رشتے ہیں عورتوں کے، تو ان سب رشتے کو ان سے وابستہ احترام دیں،عزت سے بات کریں، ان کی بات سنیں، ان کے مسائل کو سمجھیں اور انھیں حل کرنے کی کوشش کریں۔ ماؤں کا احترام کریں مگر ان کے کہے میں آ کر بیویوں کو ناراض نہ کریں۔ بیوی کو اس کا جائز مقام دلانے میں شوہر کا کردار سب سے اہم ہے۔

اس وقت آپا جی، اندر ہی اندر بل کھا رہی ہیں، ان کی چراغ لے کر تلاشی ہوئی بہو، جس کی تعریف میں وہ شادی کے دن تک آسمان اور زمین کے قلابے مارتی تھیں، اس کی ماں اور حتیٰ کہ نانی کی فراست اور فہم کے قصیدے پڑھتی تھیں اور یہ فقرہ ہزاروں بار کہہ چکی تھیں کہ میری بہو جیسی بیٹی شاید ہی کسی کو نصیب ہو گی۔ آج وہی بیٹی ان کی چھت تلے تھی، مرادوں کا دن تھا مگر اس وقت ان کے دانتوں میں ریت کے ذرات کی طرح کچھ چل رہا تھا، دانت پیس پیس کر انھوں نے اپنے سر میں بھی درد کر لیا تھا۔ ان کے گرد بیٹھی ہوئی ان کی خیر خواہ، انھیں احساس دلا رہی تھیں کہ ان کا انتخاب بھی غلط تھا اور وہ بھی اتنی ہی بد قسمت نکلی تھیں جتنی بد قسمت وہ باقی سب اپنی بہوؤں کے معاملے میں تھیں، کیونکہ ان کی بہو نے آتے ہی ان کا بیٹا چھین لیا تھا۔

حد ہو گئی تھی، اس سے زیادہ برداشت نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وہ سب عورتیں جو اس وقت انھیں گھیرے بیٹھی تھیں، انھیں اپنے گھر میں کوئی کام نہیں تھا۔ ہم عورتیں خود ہی عورتوں کی دشمن ہوتی ہیں۔ پھر ہم عورتیں ایک دوسری کو خوش ہونے بھی نہیں دیتیں۔

’’ ہاہ… منہ دکھائی میں اتنی چھوٹی سی چیز!! میرے شوہر نے تو مجھے دو کڑوںکا سیٹ دیا تھا!!‘‘

’’ بیٹے کی پیدائش پر صرف ایک انگوٹھی، لگتا ہے کہ اسے خوشی نہیں ہوئی! ‘‘

’’ ماں کے لیے اتنا مہنگا تحفہ اور تمھیں سستے میں ٹرخا دیا؟‘‘

’’ تم اپنے شوہر سے کہو کہ وہ گھر تمہارے نام پر کر دے، بھئی عورت کو کوئی نہ کوئی سیکیورٹی چاہیے ہوتی ہے!‘‘

’’ اگر تم شوہر سے ناراض ہو تو اس کے گھر والوں کے لیے کھانا بھی پکانے کی ضرورت نہیں ہے، اسے بھی تو احساس ہو کہ تم اس گھر کی مالکن ہو، کوئی ملازمہ نہیں!‘‘

’’ نندوں کو زیادہ سر چڑھانے کی ضرورت نہیں ہے… وہ تمہارے لیے کیا کرتی ہیں جو تم ان کے لیے کچھ کرو! ‘‘

’’ چھوٹے گھر کی بہو کو اس کے مقام پر رکھیں، اس کے میکے والوں نے کیسی گھٹیا پہناؤنیاں دی ہیں!!‘‘

’’وہ واجدہ ہے نا، بڑ ی گھنی ہے، بنتی تو ہماری سہیلی ہے مگر اندر ہی اندر کیسی اکیلے تیاری کرتی ہے کہ سب سے بہتر پوزیشن لے جاتی ہے، ایسی دوستی کا کیا فائدہ! ‘‘

اسی نوعیت کے کئی اور فقرے، جو ہم ہمہ وقت بولتے اور سنتے ہیں۔ ہمیں اپنی خوشی ، خوشی محسوس نہیں ہوتی جب ہم کسی دوسرے کو خود سے بہتر دیکھتے ہیں، دوسرے کا درد ہمیں خوشی اور دوسرے کی خوشی ہمیں دکھ دینے لگتی ہے۔ کھاتے ہوئے بھی ہم اپنی پلیٹ دیکھ کر اپنے نصیب پر خوش اور شکر گزار ہونے کی بجائے دوسرے کی پلیٹ دیکھ کر اس دکھ میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ بھی ہمیں کیوں نہیں ملے۔ جو خوش نظر آ رہا ہوتا ہے اس کی خوشی کو اپنے اندر کے بغض کی پٹی پڑھا کر اپنے جیسا منفی سوچ والا بنا دیتے ہیں۔

کالم کے شروع میں بیان کردہ حالات کم و بیش ہر خاندان میں پیش آنے والے حالات ہیں، ہر خاندان میںکوئی آپا جیسی عورت ہوتی ہے جو اچھے عزائم کے ساتھ زندگی گزارتی ہے، دوسروں کو بھی نصیحت و ہدایت کرتی ہے، سب رشتوں کو اچھے طور نبھاتی ہے مگر پھر ایسا ہوتا ہے کہ وہ شیطان کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس جاتی ہے، سب سے اچھا موقع وہ ہوتا ہے جب وہ اپنے بیٹے کی شادی کر کے بہو گھر پر لاتی ہے، اس کا دل نرم ہوتا ہے، اس پیاری سی بچی کو وہ اچھی نیت سے اپنے گھرپر خوش رکھنا چاہتی ہے، مگر ہوتا یہ ہے کہ اس نرم دل کی زمین پر شیطان بد گمانی کا بیج بو دیتا ہے… اس کے لیے ہمارے ارد گرد ہی ایسے کردار موجود ہیں جو شیطان کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں ۔

آپ سب سے التماس ہے دعا کریںکہ اللہ تعالی ہم عورتوں کو حسد اور شر پھیلانے سے محفوظ رکھے اور دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا سکھائے۔ آج میرے گھر میں، میری اس بیٹی کی پہلی صبح ہے جو کسی اور کے گھر میں پیدا ہوئی تھی اور اللہ نے اس کا نصیب میرے بیٹے کے ساتھ لکھا ۔ ہمیں اچھے سسرال بننے کی توفیق عطا فرمائے ، ہر گھر کے کیے اور ہمارے گھر کے لیے بھی محبت، امن، اعتدال اور سکون کی دعا فرمائیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔