راج دُلاری کس کو چیلنج کررہی ہے کہ ’’روک سکو تو روک لو‘‘!!

رحمت علی رازی  اتوار 18 مارچ 2018
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

درحقیقت یہ محمد نواز شریف کی تیسری شکست ہے۔ عبرتناک نہ سہی لیکن شکست تو ہے۔ دوبار عدالتِ عظمیٰ سے اور اب ایک بار تازہ تازہ سینیٹ کے فلور سے۔ موصوف کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم ہار کر بھی جیت گئے ہیں اور وہ جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔‘‘

جناب نواز شریف شاعرانہ پیرائے میں جتنا بھی اظہارِ خیال فرمالیں، اپنی شکست کا  داغ نہیں مٹا سکتے۔ سینیٹ میں ہونے والی اپنی ہار کو وہ مزید شاعرانہ اسلوب میں ’’شکستِ فاتحانہ‘‘ کا عنوان بھی دے سکتے ہیں لیکن شکست کو فتح میں نہیں بدل سکتے۔اگر وہ اور اُن کی پارٹی زیادہ دُور نہ رہ جانے والے عام انتخابات میں بھی ایسے ہی کسی ناگوار اور تلخ تجربے سے دوچار ہوجائیں تو کسی کو کوئی اچنبھا نہیں ہو گا کہ اُن کا اختیار کردہ راستہ تصادموں اور تباہیوں کی طرف جاتا ہے۔

ایوانِ بالا کی چیئرمینی کے لیے اُنہوں نے کمال ’’فیاضی‘‘ اور ’’مہا کلاکاری‘‘ سے پیپلز پارٹی کے رضا ربانی کو پہلے اپنا امیدوار بنایا لیکن اُن کے حریفوں نے یہ پانسہ اُنہی پر پلٹ دیا۔ پھوٹ ڈالنے اور تقسیم کرنے کی نواز شریف پالیسی کامیاب نہ ہو سکی ۔نواز شریف کو دیوار پر لکھی اپنی شکست قبل از وقت ہی پڑھ لینی چاہیے تھی لیکن ضرورت سے زیادہ بڑھا ہُوا کانفیڈنس انھیں لے ڈُوبا۔ جب تک وہ راجہ ظفر الحق کو سینیٹ کی سربراہی کے لیے سامنے لائے، تب تک پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔

اعلیٰ درجے اور اعلیٰ ترین ایوان کے لیے کھیلے جانے والے اِس کھیل کا غائر نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ راز بھی کھلتا ہے کہ نواز شریف کے اپنے ساتھیوں نے بغاوت کرکے انھیں سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں ہرا ڈالا ہے۔ یوں وہ کسی بھی طرح کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ انھیں اگر الزام دینا ہے تو اپنے آپ کو دینا چاہیے۔ اپنے فیصلوں کو دینا چاہیے۔ اپنی پالیسیوں اور ہٹ دھرمی کو الزام دینا چاہیے۔

انھیں اگر اِس امر کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے تازہ کھیل میں اصولوں کا ساتھ دیا ہے تو معاف کیجئے، آپ سے اس سلسلے میں کوئی اتفاق نہیں کرے گا۔ اُنہوں نے سینیٹ میں بعض نئے عناصر کو اپنی سرپرستی میں لے کر خود اعلان کیا ہے کہ اُن کا کوئی اصول ہے نہ وہ اصولوں کی پاسداری ہی کرتے ہیں۔ میاں صاحب کی یہ غیر اصولی ہی اُن کے کئی ساتھیوں کو بغاوت کرنے پر ابھار گئی اور اُنہوں نے راجہ ظفر الحق کی بجائے بلوچستان میں نوکنڈی کے سپوت محمد صادق سنجرانی کو ووٹ دیدیا۔

اللہ کی طرف سے راجہ ظفر الحق کی ناکامی اس لیے بھی ہوئی کہ راجہ ظفر الحق کو حساس ترین مسئلے ختم نبوت پر رپورٹ دینے کو کہاگیا تھالیکن افسوسناک اور شرمناک بات یہ ہے کہ رپورٹ اس نے ابھی تک دبائے رکھی ہوئی ہے اورجو رپورٹ بھی کھوہ کھاتے میں ڈالنی ہوتواس بزرگ ناگوار کے حوالے کر دیتے ہیں۔ نواز شریف کے خلاف خفیہ بغاوت کرنے والے ایسے عناصر کی تعدادابھی تک تو سات یا گیارہ بتائی جاتی ہے چندماہ میں غیر معمولی ہو جائے گی۔

نواز شریف نے اپنوں کے ساتھ دلداریاں کی ہوتیں تو فطری طور پر انھیں بھی اپنوں کی طرف سے وفاداریاں ملتیں۔ اب شکست پر وہ دلگیر اور دلبرداشتہ ہیں۔ خود بھی اعتراف کررہے ہیں کہ’’ میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔‘‘مگر انھیں میدان چھوڑنا چاہیے نہ دل۔ وہ ’’نااہل سپریم لیڈر‘‘ بن چکے ہیں، اس لیے انھیں جرأتیں بھی سپریم ہی دکھانی چاہئیں۔ اُن کی شکست دراصل ملک کے لیے Blessing in Disguiseکہلا رہی ہے۔

بلوچستان کو پہلی بار سینیٹ کی سربراہی ملی ہے۔ سینیٹ کو بنے 45 سال گزر گئے ہیں۔ اِس دوران نصف درجن سے زائد چیئرمین بنے لیکن کبھی اس کا چیئرمین بلوچستان سے منتخب نہیں ہو سکا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتوں کے تحت یہ بلند منصب بلوچستان کے محمد صادق سنجرانی کے نام لکھ دیا ہے تو نواز شریف اور اُن کے اتحادیوں کو صبر، تحمل اور برداشت سے کام لینا چاہیے تھا۔

صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ بننے پر حسد کرنے کی بجائے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک شاندار اور سنہری موقع فراہم کیا ہے کہ ہم سب مل کر، اجتماعی حیثیت میں اپنے سب سے پسماندہ صوبے کی احساسِ محرومیوں کو ختم کر سکیں، بلوچستان کے زخموں کا اندمال بن سکیں۔ اگر ایسا خیال دلوں میں جنم لے سکے تو شائد نون لیگیوں اور اُن کے جملہ ساتھیوں اور اتحادیوں کے دلوں کی رنجش اور تلخی کم ہو سکے۔

ویسے تو سب سیاستدان زبانی کلامی اعلان کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں بلوچستان کے احساساتِ محرومی کے خاتمے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان کے کئی ظاہری اور باطنی دشمن اِنہی احساساتِ محرومی کو ایکسپلائیٹ کرتے ہُوئے بلوچستان میں نقب لگانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور اللہ کے فضل سے ہمیشہ ناکامی ہی کامنہ دیکھتے ہیں۔

اب ایک موقع آیا ہے تو نواز شریف، نون لیگ اور دیگر وہ قانون ساز جنہوں نے جناب محمد صادق سنجرانی کو ووٹ نہیں دیا ہے، اپنی اپنی رنجشیں بھلا کر بلوچستان اور سنجرانی صاحب کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ ایک طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد بلوچستان کو اُس کا مطلوبہ حق ملا ہے۔ یعنی دیر آئد، درست آئد۔صادق سنجرانی  کی صورت میں فی الحقیقت محبِ وطن قوتوں کو فتح ملی ہے۔ یہ فیڈریشن کی فتح ہے۔ یہ مرکزِ مائل طاقتوں کی کامیابی ہے۔

صادق سنجرانی کی کامیابی کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں نقب لگانے کا خواب دیکھنے والی غیر ملکی طاقتوں کو شکست ملی ہے جو ہمیشہ پاکستان کے خلاف ضرب لگانے کی تاک میں رہتی ہیں۔ ان قوتوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کرنے میں اگر پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے بھی باہم مل کر کوئی کردار ادا کیا ہے تو یہ دراصل قابلِ تعریف فیصلہ ہے۔

ہمارے لیے تو ہر وہ سیاسی جماعت، لیڈر، سیاسی ورکر، گروہ قابلِ احترام ہے جس کا اُٹھایا گیا ایک بھی قدم ملک اور قوم کے اتحاد اور طاقت کا باعث بنتا ہے کہ یہ وطن پاکستان ہے تو ہماری عزت بھی ہے، یہ ہمارا سائبان بھی ہے اور ہمارا مان بھی۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ محمد نواز شریف کے ساتھیوں نے نَو منتخب چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر غیر معمولی تلخ نوائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اِن میں میاں صاحب کی راج دُلاری مریم نواز شریف بھی شامل ہیں، مریم اورنگزیب بھی، طلال چوہدری بھی ہیں اور جناب شہباز شریف وغیرہ بھی۔ محمود اچکزئی بھی اِس فہرست میں شامل ہیں اور حاصل بزنجو بھی۔ دونوں کا تعلق بلوچستان سے ہے۔

اس حوالے سے انھیں تو زیادہ جوش اورولولے سے صادق سنجرانی صاحب کی حمائیت کرنی چاہیے تھی لیکن اُن کے ادا کردہ الفاظ سے لاتعداد پاکستانیوں کی دل شکنی ہُوئی ہے۔ حاصل بزنجو اور محمود اچکزئی نے جو بیانات دئیے ہیں، یہ بیہودہ بھی ہیں اور قابلِ مذمت بھی۔ یہ خود غرضی کے بھی آئینہ دار ہیں۔

حاصل بزنجو ’’نیشنل پارٹی پاکستان‘‘ کے سربراہ ہیں اور نواز شریف کے قریبی اتحادی۔ بارہ مارچ کو سینیٹ کا چیئرمین منتخب ہُوا تو حاصل بزنجو نے سینیٹ میں کھڑے کھڑے جَل کر کہا:’’آج پارلیمنٹ ہار گئی ہے۔ مبارکباد کس چیز کی دُوں؟اِس ایوان میں بیٹھتے ہُوئے مجھے شرم آرہی ہے۔آج اس ہاؤس کا منہ کالا ہو گیا ہے۔ آج بھٹو بھی ہار گیا اور بینظیر بھی۔ اُن کی جیت تو تب ہوتی اگر رضا ربانی جیت جاتا۔‘‘

پاکستان کے ایوانِ بالا کے منہ پر کالک ملنے کی بات کہہ کر موصوف نے دراصل اپنے منہ پر سیاہی مَل دی ہے۔ جس تھالی میں یہ صاحب کھا رہے ہیں، اُسی میں چھید کررہے ہیں۔ یہ لایعنی اور دل آزار بیان دے کر حاصل بزنجو کو کچھ حاصل نہیں ہُوا ہے۔ بلکہ انھوں نے اپنی اوقات بتا دی ہے۔ انھیں سینیٹ میں بیٹھنے سے شرم آ رہی ہے تو اس کی جان کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔

کچھ اِسی طرح کی گُل افشانی نواز شریف کے دوسرے معتمد ساتھی محمود خان اچکزئی نے بھی کی ہے۔ اچکزئی ’’پشتونخواہ ملّی عوامی پارٹی‘‘ کے سربراہ ہیں۔ نواز شریف نے بلوچستان کا تقریباً تمام اقتدار اِن صاحب کو سونپ رکھا ہے۔ ان کے بھائی صاحب بلوچستان کے گورنر بھی ہیں۔ نواز شریف کا آجکل کھانا پینا محمود اچکزئی کے ساتھ ہے۔ ہم نوالہ و ہم پیالہ ہیں۔ میاں صاحب اچکزئی کو اپنا ’’ہم فکر و ہم خیال‘‘ بھی کہہ چکے ہیں۔

دسمبر2017ء کے آغاز میں کوئٹہ میں محمود اچکزئی نے اپنے والد میر عبدالصمد خان اچکزئی (جو کبھی بلوچی گاندھی بھی کہلاتے تھے کہ اُنہوں نے پاکستان بننے کی ڈَٹ کر مخالفت کی تھی) کی  44 ویں برسی کا اہتمام کیا تو نواز شریف نے خصوصی طور پر اس میں شرکت کی۔ اس موقع پر نواز شریف نے کہا تھا: ’’میرا محمود خان اچکزئی سے نظریاتی رشتہ ہے۔ یہ نظریہ مجھے ہمیشہ عزیز رہا ہے۔ میری سیاست اب اِسی نظرئیے پر چلے گی۔‘‘

بھارت اور افغانستان اچکزئی کے دل کے نزدیک ہیں۔ تو کیا اِسی نظرئیے کے تحت نواز شریف بھارت کے صدقے واری جاتے ہیں؟ سینیٹ کے نئے چیئرمین کے انتخاب کے موقع پر اِنہی محمود اچکزئی نے پاکستان اور پاکستان کے اہم ترین و حساس اداروں کے بارے میں جو دل آزار گفتگو کی ہے، اس کے پیشِ نظر وہ ہماری نظر میں نہ محمود رہے ہیں اور نہ ہی مسعود۔یاد رکھا جائے کہ اداروں کے خلاف بد زبانوں کی محاذ آرائی انشاء اللہ کامیاب و کامران نہیں ہوگی۔

محمود اچکزئی کو بخوبی معلوم تھا کہ اُن کے بیان کے بعد اُن پر سخت تنقید ہوگی؛ چنانچہ حفظِ ماتقدم کے طورپر اُنہوں نے پہلے یہ کہہ ڈالا کہ’’مجھے مارانا چاہیں تو مَیں مرنے کو تیار ہُوں لیکن مجھ پر حملہ پاکستان پر حملہ ہوگا۔‘‘ نہیں معلوم کہ موصوف نے خود کو کب سے پاکستان کے مساوی اور مترادف سمجھنا شروع کر دیا ہے؟

ہمیں زیادہ رنج اور افسوس اِس بات کا ہے کہ حاصل بزنجو اور محمود اچکزئی نے یہ دلشکن مکالمہ نون لیگی قیادت کی موجودگی میں ادا کیا لیکن کسی کو یہ توفیق نہ ہو سکی کہ دبے لفظوں میں انہیں منع کرتا یا کم از کم بین السطور ان کی مذمت ہی کر دیتا ۔ہم سمجھتے ہیں کہ اب نواز شریف یا نون لیگی قیادت سے ایسی توقع رکھنا ہی فضول اور عبث ہے۔جس نون لیگی قیادت کی موجودگی میں نواز شریف کو قائد اعظم محمد علی جناح رحمت اللہ علیہ کا ’’صحیح وارث‘‘ قرار دیا جائے اور کسی طرف سے کوئی صدائے احتجاج بھی بلند نہ ہو، اُس نون لیگ سے بندہ بھلا کیا توقع وابستہ کر سکتا ہے؟

افسوس سیکڑوں کے نون لیگی مجمعے میں سے بھی کوئی ایسا غیرتمند ایک بھی سامع نہیں تھا جو نواز شریف کو قائد اعظم کا وارث کہے جانے پر بطورِ احتجاج پنڈال سے جانے کا اعلان کر دیتا۔ قومیں جب بے حس اور بے شرم ہو جائیں تو اپنے اکابرین کی بے حرمتی پر شاید ایسی ہی خاموشی کا اظہار ہُوا کرتا ہے۔

مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ شہباز شریف نے یہ بات خود اُس وقت کہی جب 13مارچ کو انھیں چار سال کے لیے نون لیگ کا نیا صدر منتخب کیا گیا۔ انھیں اگر بانیِ پاکستان کی عزت وحرمت کا پاس ہوتا تو وہ یقینا ایسی بات زبان پر نہ لاتے ۔ ہمارے قائد اعظم خدانخواستہ ایسے تو نہیں تھے کہ کبھی انھیں جرم میں کسی عدالت نے اقتدار سے باہر نکالا یا کسی دوسرے جرم میں انھیں کسی سیاسی جماعت کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا تھا۔

کوئی خواب میں بھی سوچ نہیں سکتا کہ قائد اعظم پر مالی بدعنوانی کا الزام بھی عائد کیا جاسکتا ہے یا یہ کہ وہ اپنی دولت اپنے اولاد کے نام منتقل کرکے بیرونِ ملک لے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف کو قائد اعظم کا ’’سچا وارث‘‘ اور ’’جانشین‘‘ قرار دے کر بانیِ پاکستان کی توہین کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ قائد اعظم کے قدموں کی خاک بھی نہیں ہیں۔

ہمارے قائد اعظم نے تو اپنی حلال کی ساری کمائی ملک وقوم پر نچھاور کر دی تھی جب کہ شریف برادران؟ ہم مزید کیا تبصرہ کریں۔لیکن حکمران طبقے سے کیا شکوہ کیا جائے کہ ان کی راج دُلاری نے تو چند روز پہلے خود کو ایک عظیم اور بلند ہستی کے برابر رکھنے کی ناپاک جسارت بھی کی ہے اور اپنے والد کو معاذ اللہ معاذاللہ حضور ﷺ کے ہم پلہ قرار دیا۔ کیا اِن کے حواس ٹھکانے نہیں ہیں؟

حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے علمائے کرام نے ان کی شدید الفا ظ میںمذمت بھی نہیں کی۔ یہ راج دُلاری آج کل مسلسل ایک گردان ہی الاپے جا رہی ہے کہ ’’روک سکو تو روک لو‘‘ ابھی تک پتہ نہیں چل سکا کہ یہ کس کو چیلنج کر رہی ہے؟ جس لڑکی کو سیاسی زندگی میں اس کے والدین  نہیں روک رہے اسے اور کوئی کون روک سکتا ہے؟

انھیں اللہ ہی روک سکتا ہے۔ وہ وقت ان شاء اللہ بہت جلد آنے والا ہے اور ان کی یہ مراد بھی پوری ہو جائے گی۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ اگر برادرِخورد نے جوشِ جذبات میں بڑے بھائی صاحب کو قائد اعظم کا درست وارث قرار دے ڈالا ہے تو برادرِ اکبر بھی برادرِ اصغر کی توصیف و تعریف کرنے میں پیچھے نہیں رہے۔ اُنہوں نے جواباً ارشاد فرمایا کہ’’شہباز شریف نے پچھلے دس برسوں کے دوران پنجاب میں جتنے کام کروائے ہیں اتنے ترقیاتی کام تو پچھلے 70برسوں میں بھی نہیں کروائے جاسکے۔‘‘

اِسے کہتے ہیں :من تر حاجی بگوئم تُو مرا حاجی بگو۔ساری قوم نے شریف برادران کی اِس روش اور ادا کو سخت ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا ہے۔ میاں نوازشریف کے ساتھ جامعہ نعیمیہ میں جو سلوک ہُوا ہے، کہیں اِس کی ایک وجہ یہ بھی تو نہیں؟جس کسی نے نون لیگ کے ’’سپریم لیڈر‘‘ پر مسجد کی تقریب میں جوتا پھینکا ہے، ہم اِس عمل اور فعل کی تائید نہیں کر سکتے۔

لیکن بجا طور پر سوال اُٹھایا گیا ہے کہ اِس سے قبل جب نون لیگی کارکنان اور وکلا اپنے سیاسی حریفوں پر جوتے پھینکتے رہے ہیں تو نواز شریف اور نون لیگی قیادت نے کبھی اس کی مذمت میں ایک بھی لفظ منہ سے کیوں نہیں نکالا تھا؟

جب سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ غلام ارباب رحیم کو جوتا مارا گیا تھا تو پنجاب کی نون لیگی قیادت نے منہ میں گھنگنیاں کیوں ڈالے رکھی تھیں؟جب ممتاز قانون دان احمد رضا قصوری پر ایک نون لیگی وکیل نے سیاہی پھینکی تھی تو مناسب یہ تھا کہ نواز شریف اس بد تمیزی کی مذمت کرتے، اپنے کارکن کو ڈانٹتے ڈپٹتے لیکن اُنہوں نے دانستہ ایسا نہ کیا۔ تو کیا اب ہاتھوں سے دی گئی کانٹھیں دانتوں سے کھولی جارہی ہیں؟اپنے گناہ آگے آرہے ہیں؟ باز اب بھی یہ نہیں آرہے۔

فیصل آباد میں جس شخص نے عمران خان کی گاڑی کا دروازہ کھول کر جوتا پھینکنے کی کوشش کی، مبینہ طور پر وہ رانا ثناء اللہ کے ایک قریبی عزیز کا  بھیجا گیامسٹنڈا نکلا جس نے آن دی ریکارڈ تسلیم کیا ہے کہ اُسے رانا ثناء اللہ کے عزیز نے سکھا پڑھا کر بھیجا تھا۔ رانا ثنا ء اللہ نے خود بھی تسلیم کیا ہے کہ ہاں ، وہ شخص فیصل آباد میں معروف نون لیگ کارکن ہے، میرے جلسوں میں موجود رہتا ہے ’’لیکن یہ غلط ہے کہ وہ ہمارے کسی عزیز کا بھیجا گیا تھا۔‘‘

مطلب یہ ہے کہ آگ کہیں لگی تھی، تبھی دھواں بھی نکلا ہے۔ رانا صاحب نے آدھا سچ مان لیا ہے۔ چلو یہاں تک تو آئے، یہاں تک تو پہنچے!!یاد رکھا جائے کہ انتقام اور بدلہ لینے کے لیے جوتا پھینکنے کی یہ نئی رسم ہماری سیاست کو تباہ کر دے گی۔ بدلے اور انتقام کی آگ میں جلتے نون لیگی قائدین پہلے ہی اپنا بہت کچھ بھسم کر چکے ہیں۔ اِس روش اور چلن سے باز نہ آئے تو مزید بہت کچھ جَل کر راکھ ہو جائے گا۔ نہال ہاشمی کو دوبارہ عدالت کی طرف سے بلایا جا چکا ہے۔ شاید پھر سزا بھی ہو جائے۔

شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا دَم بھرنے اور معزز و محترم عدالتوں کو للکارے مارنے والے دانیال عزیز پر بھی فردِ جرم عائد ہو چکی ہے اور بھنگڑے ڈالنے والے طلال پر بھی۔ اِس کا اَنت اور نتیجہ کیا برآمد ہو سکتا ہے، اِسے جاننے کے لیے کسی عقلِ افلاطون کی ضرورت نہیں ہے۔ دیوار پر لکھا صاف نظر آرہا ہے۔ اِس کے باوجود ’’لوگ‘‘ احتیاط برتنے اور صراطِ مستقیم پر چلنے سے انکاری ہوں تو اُن کی تباہی اظہر من الشمس ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔