مذاق بند

عبدالقادر حسن  اتوار 18 مارچ 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

بادشاہوں کا یہ طریقہ کار ہوتا تھا کہ ان کو عوامی دربار میں کسی فریادی یا مصاحب کی کوئی بات پسند آ جاتی تو وہ اسے اس کی مرضی کے مطابق انعام عطا کر دیتے۔ ہماری تاریخ بھی ایسی کئی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب کسی بادشاہ نے خوش ہو کر اپنے کسی درباری کو مالا مال کر دیا۔

پاکستان میں بھی ایسے کئی جاگیردار موجود ہیں جو انگریز بادشاہ کی خوشنودی حاصل کر کے مالا مال ہو گئے اور انھیں جاگیریں عطا ہوئیں اور آج تک وہ ان کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ بادشاہوں کے شاہانہ انداز کا موازنہ اگر آج کے حکمرانوں سے کیا جائے تو یہ بھی کسی بادشاہ سے کم نہیں بلکہ ان کے نورتن بھی پاکستان کی جاگیریں عطا کرنے میں کشادہ دل ہیں لیکن ان کی یہ نوازشات صرف اپنے جیسے طبقے یعنی طبقہ امراء کے لیے مخصوص ہیں عوام ان سے محروم ہیں۔

بادشاہوں کے ان نورتنوں کی یاد مجھے مشیر خزانہ مفتاح اسمعیٰل نے یا دلائی ہے جنہوں نے انتہائی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے اہم ترین ادارے کو مفت میں دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی پاکستان کی قومی ایئر لائن کو خرید لے تو اس کو جھونگے میں پاکستان اسٹیل مل بھی دے دی جائے گی یعنی ایک کے ساتھ ایک مفت۔ یہ نادر خیال ان سے پہلے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی آیا اور انھوں نے فرمایا تھا کہ وہ پی آئی اے کو ایک روپے میں بیچنے کے لیے تیار ہیں اور اب ان کے مشیر نے نئی منطق پیش کی ہے کہ پی آئی اے کے ساتھ پاکستان اسٹیل مفت میں حاصل کریں کیونکہ یہ دونوں ادارے ملک پر بوجھ بن چکے ہیں اس لیے کوڑیوں کے بھاؤ ان کی فروخت جائز قرار دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔

مشیر موصوف مزید فرماتے ہیں کہ ہر ماہ پاکستان اسٹیل کے کارکنوں کی تنخواہیں قوم پر بوجھ بن چکی ہیں اس لیے اس سے جلد از جلد جان چھڑا لینی چاہیئے۔ پاکستان اسٹیل مل اس ملک کا اہم ترین ادارہ ہے جو کہ ملکی اسٹیل کی تما م ضروریات کو پورا کرتا رہا ہے‘ روس کے تعاون سے لگائی گئی یہ مل اس خطے کی سب سے بڑی اسٹیل مل ہے جو اعلیٰ کوالٹی کی پیداواری صلاحیت کی حامل ہے۔

پاکستانیوں کا حافظہ خاصہ کمزور ہے اس لیے یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ اس اہم ترین ادارے کو مشرف کے دور حکومت اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے بھی فروخت کرنے کی کوشش کی جس میں ایک جرنیل آڑے آگئے اور جنرل قیوم جو کہ اس مل کو چلا رہے تھے انھوں نے اعلیٰ عدالت کو خط لکھ کر اس کی فروخت کو رکوا لیا۔

مشرف کے دور میں پاکستان اسٹیل مل سے پیداواربھی جاری تھی اس کے بینک اکاؤنٹ میں بھی اربوں روپے موجود تھے جب کہ اربوں روپے کاخام مال بھی موجود تھا لیکن ان کی حکومت کے بعد جیسے ہی پارٹی نے حکومت سنبھالی تو بینک اکاؤنٹ بھی خالی ہوگئے‘ خام مال بھی ختم ہو گیا اور پاکستان اسٹیل مل خسارے کا شکار ہو کر حکومتی امداد پر چلنے لگی اور کئی ارب روپوں کی مالی امداد بھی ہضم کر لی گئی اور بالآخر اس کے پیداواری یونٹ بند ہو گئے اور ملازمین اب تنخواہوں کے لیے حکومت کی جانب دیکھتے رہتے ہیں اور ہر دو تین ماہ کے بعد ان کو تنخواہوں کی ادائیگی ہو پاتی ہے۔

اس صورتحال سے حکومت بھی تنگ ہے کیونکہ اس کو اپنے بجٹ سے تنخواہوں کی ادائیگی کرنی پڑ رہی ہے مگر کسی نے کبھی یہ سوچا کہ یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی۔ موجودہ حکمرانوں کا حکومت میں آنے سے پہلے یہ دعویٰ تھا کہ ان کے پاس ہر شعبے کے ماہرین کی ایک معقول تعداد موجود ہے جو کہ حکومت کے پہلے سو دنوں میں اداروں کو بہتری کی جانب گامزن کر دے گی اور نتائج آنے لگیں گے لیکن اب حکومت اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے اور قومی ادارے مزید بدحالی کا شکار ہو چکے ہیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ان اداروں کو مفت میں دینے کے اعلان کیے جانے لگے ہیں۔

اس ملک میںموجودہ حکمران خاندان سے بہتر کوئی ایسا منصوبہ باز نہیں جو اسٹیل مل کو چلا سکے ان کا  اسٹیل کے کاروبار کا کئی دہائیوں پر محیط وسیع تجربہ اسٹیل مل کے معاملات کو ٹھیک کرنے کے لیے کافی تھا لیکن اب یہ لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وقت گزر چکا ہے اور گزرا وقت دوبارہ نہیں آتا اسٹیل مل کے معامالات ٹھیک کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی شائد حکمران خاندان یہ چاہتا تھا کہ پاکستان کا یہ قیمتی اثاثہ اونے پونے داموں من پسند افراد کو فروخت کر دیا جائے اور اس سلسلے میں بھارتی کاروباری شخصیات کے نام بھی گونجتے رہے۔

شاید یہی وہ وجہ ہے کہ پاکستان اسٹیل مل کو بحال کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور اس کو اس کے حال ہر چھوڑ دیا گیا۔ حکومت کے لیے ملکی اداروں اس کے بچوں کی ماند ہوتے ہیں جن کی نشو نماء اور ان میں بہتری اس کی ذمے داری ہوتی ہے لیکن ہماری حکومت نے اپنے ان بچوں کو لاوارث چھوڑ دیا جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ مجھے اس بات کا سخت افسوس ہے کہ ملکی ترقی کے لیے تو حکومتیں نئے نئے منصوبہ بناتی ہیں اور پرانے منصوبوں کی استعداد کار میں اضافہ کرتی ہیں تا کہ ملکی معیشت کا پہیہ بہتر طریقے سے چلتا رہے مگر ہماری حکومت نے نئے منصوبے بنائے۔

کئی سو ارب لگا کر ملک کے مختلف شہروں میں میٹروں بسوں اور اب لاہور کے ایک روٹ پر ٹرین چلنے والی ہے لیکن ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے پہلے سے موجود منصوبوں کی بحالی کے بارے میں بالکل بھی توجہ نہیں دی گئی بلکہ ان کو مزید بد حال کرنے کی کوششیں کامیاب رہیں اور اب یہ برائے فروخت ہیں اور ان کی فروخت کا مطلب پاکستان برائے فروخت ہے اور وہ بھی ایک خریدو دوسرا مفت حاصل کرو۔

مشیر خزانہ کا یہ بھی فرمانا ہے کہ انھوں نے مذاق میں یہ بات کی تھی لیکن شائد ان کے مافی الضمیر میں یہ بات کہیں موجود تھی۔ میں عرض کروں گا کہ اس قوم سے بہت مذاق ہوچکے ہیں حکمران اب اس معصوم قوم سے مذاق کرنا بند کر دیں کیونکہ قوم اب ملکی اداروں کے بارے میں مزید مذاق اور توہین برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔