پی ایس ایل تھری اختتامی مراحل میں داخل

عباس رضا  اتوار 18 مارچ 2018
دبئی اور شارجہ میں رونقیں بڑھانے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت۔ فوٹو: فائل

دبئی اور شارجہ میں رونقیں بڑھانے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت۔ فوٹو: فائل

پی ایس ایل تھری کا رنگا رنگ تقریب کے ساتھ آغاز ہونے کے بعد لوسکورنگ میچز اور کئی اہم کھلاڑیوں کی انجریز کی وجہ سے شائقین کی زبان پر گلے شکوے تھے کہ اس بار سنسنی خیزی کم ہونے کی وجہ سے ایونٹ سے زیادہ لطف اندوز ہونے کا موقع نہیں ملا۔

دبئی، شارجہ اور دبئی کے بعد ایک بار پھر کرکٹ کا یہ میلہ منتقل ہونے تک چند دلچسپ میچز اور ٹیموں کی کارکردگی میں اتار چڑھاؤ نے شائقین کے جوش وخروش میں اضافہ کیا۔

شارجہ میں آخری مرحلہ شروع ہونے سے قبل پوائنٹس ٹیبل کی صورتحال نے 3ٹیموں ملتان سلطانز، کراچی کنگز اور دفاعی چیمپئن پشاور زلمی کو اگر مگر کی کیفیت سے دوچار کرنے کے ساتھ پرستاروں کو بھی کشمکش میں مبتلا کر دیا تھا۔

اس موقع پر 24میچز کھیلے جاچکے تھے جن میں لاہور قلندرز نے 8 میچز کھیل کر مسلسل 6 شکستوں کے بعد 2 میں فتح حاصل کی تھی، اس ناقص کارکردگی کی وجہ سے فرنچائز ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کا صدمہ برداشت کرنے والی پہلی ٹیم بھی بنی، آئندہ میچز میں مسلسل دوفتوحات بھی لاہور قلندرز کو پلے آف مرحلے تک رسائی نہیں دلاسکتی تھیں۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور اسلام آباد یونائیٹڈ 10، 10 پوائنٹس کے ساتھ بالترتیب پہلی اور دوسری پوزیشن کے ساتھ پلے آف میں جگہ پکی کرلی تھی، دونوں ٹیموں کو بالترتیب ایونٹ میں 2 اور 3 میچز مزید کھیلنا تھے،ملتان سلطانز،کراچی کنگزاور دفاعی چیمپئن پشاور زلمی کے درمیان ہے، لاہور قلندرز کے بعد ان میں سے بھی کسی ایک ٹیم کو ایونٹ سے باہر ہونا تھا۔

شارجہ میں لیگ میچز کے آخری مرحلے کے پہلے روز 9میچز میں اتنے ہی پوائنٹس کی حامل ملتان سلطانز نے اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف میچ میں ناکامی کی وجہ سے پیش قدمی جاری رکھنے کا سنہرا موقع گنوادیا، اپنے 10میچز پورے ہونے کے بعد ملتان کوصرف 6پوائنٹس جوڑ پانے والی پشاور زلمی کی باقی 2میچز میں سے کسی ایک میں شکست کا انتظار تھا لیکن ڈیرن سیمی الیون نے مزید ایک فتح کی متلاشی کراچی کنگز کو زیر کرتے ہوئے ایونٹ میں بقا کی پہلی جنگ جیت لی۔

انجرڈ عماد وسیم کی جگہ قیادت کرنے والے ایون مورگن کا پی ایس ایل تھری میں پہلا تجربہ ناکام رہا، کامران اکمل کی 75 رنز کی اننگز نے ٹیم کو آسانی سے فتح دلائی، پشاور زلمی کو اگلے میچ میں لاہور قلندرز کے خلاف بھی لازمی فتح درکار تھی، اس میچ میں کامران اکمل نے پی ایس ایل میں اپنی دوسری اور تیسرے ایڈیشن میں کسی بھی بیٹسمین کی جانب سے پہلی سنچری جڑتے ہوئے جاری ایونٹ میں سب سے بڑا 173رنز کا ہدف ممکن بنادیا۔

دونوں میچز میں کامیابی کے ساتھ پشاور زلمی نے اپنے پوائنٹس کی تعداد 10کرتے ہوئے خود تو پلے آف مرحلے میں جگہ بنائی لیکن 9،9 پوائنٹس کی حامل کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کو ہوا میں معلق کردیا، کراچی کنگز کی آخری میچ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف کامیابی اس کو 11پوائنٹس کے ساتھ نہ صرف پلے آف مرحلے میں پہنچا سکتی تھی بلکہ پوائنٹس ٹیبل پر دوسری پوزیشن بھی ہاتھ آسکتی تھی۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کی طرف سے لیوک رونکی اور سمیت پٹیل سمیت اہم کھلاڑیوں کو آرام دیئے جانے نے کراچی کنگز کا کام آسان کردیا،ورنہ ہارنے کی صورت میں ملتان سلطانز کے ساتھ نیٹ رن ریٹ کے موازنے کی نوبت آجاتی،راؤنڈ روبن لیگ کے 30 ویں اور آخری میچ میں عثمان شنواری کی صرف 17رنز کے عوض 4وکٹوں کی بدولت اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف جیت نے کراچی کنگز کو اِن اور ملتان سلطانز کو آؤٹ کردیا، یوں ایونٹ کے آغاز میں ہی بہترین کارکردگی سے فیورٹس میں شمار ہونے والے ملتانیوں کی کہانی یواے ای میں ہی ختم ہوگئی۔

پہلا کوالیفائر میچ اتوار کو دبئی میں شیڈول کیا گیا ہے جس میں پوائنٹس ٹیبل پر سرفہرست اسلام آباد کو کراچی کنگز کا سامنا کرنا ہے، فاتح ٹیم براہ راست کراچی میں 25 مارچ کو شیڈول فائنل تک رسائی حاصل کرلے گی، قذافی سٹیڈیم لاہور میں 20مارچ کو ہونے والے الیمنیٹر ون میں تیسری پوزیشن کی حامل پشاورزلمی اور چوتھے نمبر پر موجود کوئٹہ گلیڈی ایٹرز میں سے ہارنے والی ٹیم باہر ہوجائے گی، فاتح سائیڈ کو دبئی کوالیفائر میچ میں مات کھانے والی ٹیم کا مقابلہ کرنا ہوگا، الیمنیٹر ٹو میں جیتنے والی ٹیم فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کرے گی۔

لاہور میں قٖذافی سٹیڈیم اورکراچی میں نیشنل سٹیڈیم پی ایس ایل میچز کا استقبال کرنے کیلئے تیار ہیں،وینیوز کی تزئین وآرائش کا کام مکمل کرلیا گیا، سکیورٹی ادارے بھی اپنے پلانز کو حتمی شکل دے چکے،لاہور کے ساتھ کراچی میں بھی بیشتر ٹکٹ فروخت ہو چکے، دونوں شہروں میں کرکٹ کا میلہ سجے گا تو اس کے رنگ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں بکھریں گے، تاہم اس بار یواے ای میں سٹیڈیمز کے بیشتر خالی سٹینڈز اس کھیل سے لگاؤ رکھنے والے ہر شخص کیلئے مایوسی کا باعث تھے۔

ایک انٹرویو میں چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے تسلیم کیا کہ سٹیڈیمز خالی رہنے کی بات کسی حد تک صحیح ہے لیکن انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ گزشتہ دو ایونٹس کے مقابلے میں اس بار شائقین کی تعداد شارجہ میں بہتر رہی جبکہ دبئی میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہم تھوڑے بہت مفت ٹکٹ دے دیتے تھے لیکن اب یواے ای میں نئے ٹیکس سسٹم کا نفاذ ہونے کی وجہ سے 10فیصد سے زیادہ نہیں دے سکتے۔

نجم سیٹھی کے بقول ایجنٹس کی حوصلہ افزائی کا بھی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا،حل یہی ہے کہ جتنا جلدی ہوپی ایس ایل کو پاکستان لے جایا جائے،حقیقت یہ ہے کہ اس بار پی ایس ایل کی تشہیری مہم نہ ہونے کے برابر تھی، ایونٹ شروع ہونے سے صرف چند روز قبل دو بڑے مقامی اخبارات میں اشتہارات دیئے گئے، گذشتہ سال پی سی بی نے ڈرافٹنگ دبئی میں رکھی، تشہیری مہم میں مقامی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی شامل رکھا تھا، اس بار ڈرافٹنگ سے لے کر کٹس کی رونمائی تک ہر تقریب پاکستان میں ہوئی۔

راقم الحروف کو دبئی اور شارجہ میں میچز کور کرنے کا موقع ملا، اپنے قیام کے دوران دیکھا کہ وہاں کی سٹرکوں اور پلوں کے اطراف میں بھارتی اداکاروں سلمان خان اور کترینہ کیف، پاکستانی گلوکاروں کے پروگراموں کی دیوقامت بورڈ اور فلیکس کہیں نہ کہیں ضرور نظر آجاتے تھے لیکن شارجہ میں چند ایک تین یا چار فٹ کے اشتہارات کے سوا کہیں محسوس نہیں ہوا کہ یواے ای میں کرکٹ کا اتنا بڑا میلہ جاری ہے،ان وجوہات کی بناپر ایسا ماحول پیدا نہیں کیا جاسکا جو اس بڑے ایونٹ کیلئے ضروری تھا، میچز کی بڑی تعداد یواے ای میں ہونے کی وجہ سے اصل توجہ مقامی شائقین پر دی جانا چاہیے تھی تاکہ وہ میدانوں کا رخ کرتے۔

شارجہ میں ٹی 10لیگ کے کامیاب انعقاد کیلئے سرگرم رہنے والے ایک منتظم سے ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ایک نیا فارمیٹ متعارف کروائے جانے کی اہمیت اپنی جگہ لیکن شائقین کو میدان میں لانے کیلئے خصوصی پلاننگ کی گئی تھی جو کارآمد ثابت ہوئی،انہوں نے بتایا کہ ٹی 10 لیگ میں فرنچائز مالکان نے کاروباری طبقے میں اعتماد میں لیتے ہوئے ان کی دلچسپی کا سامان کیا،ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے ستاروں کو شارجہ میں جمع کرتے ہوئے مختلف کمپنیز سے وابستہ افراد کی فیملیز کو ایک فیسٹیول جیسا ماحول دیا گیا،کھانے اور نامور شخصیات کے ساتھ تصاویر بنوانے کے مواقع اور میوسیقی تڑکے نے کرکٹ کو مزید رنگین بنا دیا، ہر فرنچائزز نے اپنے ساتھ وابستہ سپانسرز کو 15سو کے قریب ٹکٹ دیئے۔

یاد رہے کہ پی ایس ایل ون میں میچز کے دوران موسیقی کی وجہ سے شائقین کو اضافی تفریح مل جاتی تھی لیکن بعد ازاں یہ سلسلہ صرف افتتاحی تقریب تک محدود کردیا گیا،اگر ایونٹ کے آغاز میں مختلف کمپنیز کی معاونت سے میدانوں تک لایا جاتا تو ایک رجحان پیدا ہوتا لیکن پلاننگ میں مسائل کی وجہ سے بے رونقی نظر آئی۔

سابق کپتان رمیز راجہ کا بجا طور پر کہنا ہے کہ پی ایس ایل کا انوکھا پن اب سپاٹ ہوتا نظر آرہا ہے اور اگر آئندہ بھی اس کو دبئی اور شارجہ میں منعقد کرنا ہے تو بہت زیادہ محنت کرنا ہوگی کیونکہ مقامی شائقین اب بہت زیادہ کرکٹ دیکھ کر تھکاوٹ کا شکار ہو گئے ہیں، لیگ پاکستان ہی میں پھلے پھولے گی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔