کامن ویلتھ گیمز؛ کھلاڑی امیدوں پر پورا اتر سکیں گے؟

میاں اصغر سلیمی  اتوار 18 مارچ 2018
کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کو1954سے کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کو1954سے کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ایک وقت تھا کہ انٹرنیشنل سطح پر پاکستان کی اصل پہچان کھلاڑی بالخصوص ہاکی پلیئرز بنے، 14 اگست 1947ء کو پاکستان بنا تو ہمارے قومی پلیئرز نے آغاز ہی میں کھیلوں کے میدانوں میں اپنی برتری قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور محدود وسائل کے باوجود ایسے ایسے کارنامے سر انجام دیئے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔

ہاکی کے بارے میں تو دنیا یہ تک کہتی نظر آئی کہ اگر ہاکی سیکھنی ہے تو پاکستان جاؤ، قومی کھیل میں گرین شرٹس نے کم و بیش50برس تک راج کیا۔ ایک دور وہ بھی آیا جب 1994ء میں پاکستان کو بیک وقت 4 کھیلوں ہاکی، کرکٹ، سکواش اور سنوکر میں ورلڈ چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔

اسی طرح کھیلوں کے سب سے بڑے مقابلوں اولمپکس کا ذکر کیا جائے تو پاکستان کو 1948 کے لندن گیمزسے2016 کے ریو اولمپکس تک سوائے ایک ایڈیشن کے باقاعدگی سے شرکت کا اعزاز حاصل ہے، واحد عدم شرکت افغانستان میں روسی موجودگی کے خلاف بطور احتجاج تھی جب متعدد دیگر ممالک کے ہمراہ 1980 کے ماسکو اولمپکس کا بائیکاٹ کیا تھا، اولمپکس میں پاکستان نے اب تک 11 کھیلوں میں حصہ لیا اور 3 کھیلوں ہاکی، باکسنگ اور ریسلنگ میں10تمغے جیتے ، ان میں 3 گولڈ، اتنے ہی سلور اور4 برانزمیڈلز شامل ہیں۔

ہاکی میں پاکستان نے3 سلور اور2 برانز میڈلزبھی حاصل کیے،دیگر2 برانز میڈلز ریسلنگ اور باکسنگ میں جیتے، ریسلر محمد بشیر نے 1960کے روم اولمپکس میں 73 کلوگرام کیٹیگری میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔

1988 کے سیول اولمپکس میں باکسر حسین شاہ مڈل ویٹ کیٹیگری میں کانسی کا تمغہ پانے میں کامیاب ہوئے۔ شبانہ اختر اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون ایتھلیٹ ہیں۔ انھوں نے اٹلانٹا اولمپکس میں لانگ جمپ میں حصہ لیا تھا۔ان کے بعد شازیہ ہدایت، سمیرا ظہور اور صدف صدیقی کو ایتھلیٹکس مقابلوں میں شرکت کا موقع ملا۔

پاکستان کو کھیلوں کے دوسری بڑے میلے کامن ویلتھ گیمز کا چیلنج درپیش ہے،آئندہ ماہ آسٹریلیا کے شیڈول میگا ایونٹ میںپاکستان کا 87رکنی دستہ دس مختلف گیمز میں ملک کی نمائندگی کرے گا،گو قومی پلیئرز ایونٹ میں عمدہ کارکردگی کے لئے پر امید ہیں تاہم اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو محدود وسائل اورکم تیاریوں کی وجہ سے پاکستانی دستے سے زیادہ میڈلز کی امید نہیں ہے۔

کامن ویلتھ گیمز میں گرین شرٹس کی کارکردگی کی بات کی جائے تو پاکستان کو1954سے کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے، ابتدائی ایڈیشن میں پاکستان نے ایک گولڈ، 3 سلور اور 2 برونز میڈلز سمیت مجموعی طور پر 6میڈلز اپنے نام کئے۔اب تک پاکستان کو مجموعی طور صرف 69 میڈلز جیتنے کا اعزاز حاصل ہو سکا ہے، ان میں 24 گولڈ، 24 سلور اور 21 برونز میڈلز سامنے ہیں۔

ان گولڈ میڈلز میں سے بھی 20گولڈ میڈلز ریسلنگ کے مرہون منت رہے، اتھلیٹکس میں 2 جبکہ ویٹ لفٹنگ اور باکسنگ میں ایک، ایک میڈل اپنے نام کیا۔پاکستان نے سب سے زیادہ 10 میڈلز 1958کے کارڈف گیمز میں حاصل کئے جبکہ 2014کے گلاسگو گیمز میں پاکستانی دستہ3سلور اور ایک برونز میڈلز سمیت مجموعی طور پر صرف 4میڈلز ہی جیت سکا۔

یقینی طور پر یہ ریکارڈ 20کروڑ سے زائد باصلاحیت افراد پر مشتمل پاکستان کے لئے قابل رشک نہیں جبکہ غربت کے مارے بعض ممالک ہم سے بہت آگے ہیں، کینیا کو ہی دیکھ لیں جسے 81گولڈ سمیت 220 میڈلز حاصل کرنے کا اعزازحاصل ہے، نائجیریا کے میڈلز کی مجموعی تعداد 212 ہے جبکہ بھارت 155گولڈ میڈلز سمیت438 میڈلز کے ساتھ ہم سے بہت آگے ہے۔

آسٹریلیا 2218 میڈلز کے ساتھ سرفہرست ہے، ان میں 852 گولڈ،716سلور اور650 برونز میڈلز شامل ہیں۔انگلینڈ2008میڈلز کے ساتھ تیسرے، کینیڈا 1473 میڈلز کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔

اس بری کارکردگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمار حکومتوں نے بھی پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن، پی سی بی، پی ایچ ایف، پی ایف ایف سمیت دوسری کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کے اعلیٰ عہدوں پر میرٹ کا خیال نہیں رکھا۔ کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں فتح وکامرانی کی نئی تاریخ رقم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر کھیلوں میں تفریق کرنے کے بجائے سب کھیلوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کی پالیسی اپنائی جائے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔