کراچی میں کچرا ایک ہفتے میں صاف کرنے کا حکم

ایڈیٹوریل  پير 19 مارچ 2018
سندھ حکومت اور انتظامیہ کی شہر کے مسائل حل کرنے میں ناکامی پر بالآخر چیف جسٹس آف پاکستان کو نوٹس لینا پڑا۔ فوٹو:فائل

سندھ حکومت اور انتظامیہ کی شہر کے مسائل حل کرنے میں ناکامی پر بالآخر چیف جسٹس آف پاکستان کو نوٹس لینا پڑا۔ فوٹو:فائل

چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس میاں ثاقب نثار نے ہفتے کے روز کراچی رجسٹری میں صاف پانی کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کراچی میں گندگی اور صفائی کی ناقص صورت حال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایک ہفتے میں شہر کی صفائی کا حکم دے دیا۔

انھوں نے ریمارکس دیے کہ گندگی ہٹانا اور صفائی کس کا کام ہے؟ ہم تنازع میں نہیں پڑیں گے‘ سیاست سے بالاتر ہو کر سب سوچیں جس کی جو ذمے داری ہے اسے پورا کرنا ہو گا‘ گندگی ختم ہو گی تو بیماریاں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کراچی کے حوالے سے جن مسائل کا ذکر کیا ان کے حل کے بارے میں مختلف حلقوں کی جانب سے ایک عرصے سے آواز اٹھائی جا رہی ہے لیکن یہ بازگشت کی طرح حکمران طبقے کی سماعت سے ٹکرا کر واپس آ جاتی اور کراچی روز بروز مسائل کے گرداب میں دھنستا چلا جاتا رہا اور آج حالت یہ ہے کہ کراچی کچراچی بن چکا ہے۔

سندھ حکومت اور انتظامیہ کی شہر کے مسائل حل کرنے میں ناکامی پر بالآخر چیف جسٹس آف پاکستان کو نوٹس لینا پڑا اور چیف سیکریٹری سندھ سے یہ استفسار کرنا پڑا کہ سندھ میں جو بھیانک تصویر نظر آ رہی اس کا ذمے دار کون ہے۔ جب کراچی جیسے وی آئی پی’’مریض‘‘ کا یہ عالم ہے تو پورے سندھ کا کیا حال ہو گا اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔

سندھ میں بلدیاتی اداروں کو اختیارات تفویض نہیں کیے گئے یہی وجہ ہے کہ میئر کراچی وسیم اختر کو عدالت عظمیٰ کے سامنے اپنی بے بسی اور بے اختیاری کا اظہار کرتے ہوئے مایوسانہ انداز میں کہنا پڑا کہ سارے اختیارات سندھ حکومت کے پاس ہیں، شہر کا برا حال ہے‘ نالے بند ہیں‘ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں‘ کتوں کی بھرمار ہے‘ بلدیہ عظمیٰ کے پاس اختیارات ہیں نہ فنڈز۔

عدالت کو  بتایا گیا کہ کراچی میں ایک لاکھ سے زائد لوگ چکن گونیا میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے سندھ حکومت کو کراچی کی صفائی کے لیے ایک ہفتے کا ٹارگٹ دیا ہے‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی حکومت اس ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لیے کیا لائحہ عمل طے کرتی ہے‘ وہ اس ٹارگٹ کو پورا بھی کر پاتی ہے یا نہیں اس کا پتہ تو ایک ہفتے بعد چل ہی جائے گا۔

جہاں تک کراچی شہر میں کچرے کا تعلق ہے تو چیف سیکریٹری سندھ نے عدالت کے روبرو اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ شہر میں روزانہ 5ہزار ٹن کچرا نہیں اٹھایا جا رہا اور ایسی سڑکیں بھی ہیں جن پر 6ماہ سے جھاڑو تک نہیں لگی۔ سندھ کی حالت یہ ہے کہ وہاں پینے کے صاف پانی کی قلت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے‘ سندھ کے دور دراز علاقوں میں انسان جانوروں کے ساتھ ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔

بعض علاقوں میں شہریوں کو پانی کے حصول کے لیے کئی کئی میل پیدل سفر کرنا پڑتا ہے‘ پانی کی قلت کے باعث زراعت کا شعبہ بھی بدحالی کا شکار اور کسانوں کی مالی حالت روز بروز دگرگوں ہوتی چلی جا رہی ہے۔ عالم یہ ہے کہ سیہون شریف جیسے شہر میں جب بم دھماکا ہوا تو متاثرین کے علاج کے لیے مناسب سہولیات ہی موجود نہیں تھیں۔

سندھ بھر میں صحت اور تعلیم کے شعبے میں مناسب سہولتوں کے فقدان کی شکایات اکثر و بیشتر منظرعام پر آتی رہتی ہیں مگر سندھ حکومت ان مسائل کو عملی طور پر حل کرنے کے بجائے صرف دعوؤں اور نعروں کے سہارے نمٹانے میں کوشاں ہے۔ یہ صورت حال صرف سندھ ہی میں نہیں بلکہ بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقوں میں بھی عام دکھائی دیتی ہے۔ حکومتی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ شہروں‘ قصبوں اور دیہات کے مسائل کے حل کے لیے ہر سال اربوں روپے کا بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔

شہروں کے مسائل پر نظر دوڑائی جائے تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ اربوں روپے کا یہ بجٹ کہاں صرف ہوا۔ حکومتی اداروں میں کرپشن عام ہے کوئی بھی جائز کام رشوت دیے بغیر سرانجام نہیں پاتا‘ ترقیاتی منصوبوں میں خرد برد کوئی نئی بات نہیں۔ رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے چیف جسٹس آف پاکستان کو بتایا کہ سندھ میں 274ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔

اگر کرپٹ مافیا اور اپنی ذمے داریاں ایمانداری سے سرانجام نہ دینے والے سرکاری اہلکاروں کے خلاف  بروقت کارروائی کی جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ آج شہروں اور ملک بھر کے دیگر علاقوں میں جو ابتر صورت حال دکھائی دے رہی ہے وہ بہتر نہ ہو جائے۔ یہ بات بھی زبان زدعام ہے کہ حکمران طبقہ اہم سرکاری عہدوں پر اپنے چہیتوں کو فائز کرتا ہے تاکہ وہ حکومتی امور من مرضی سے سرانجام دینے میں ان کے ممدومعاون ثابت ہوں۔

یہ چہیتے حکمرانوں کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکاری وسائل کی لوٹ مار میں کسی قسم کا دریغ نہیں کرتے اور اپنے فرائض ایمانداری سے سرانجام دینے کے بجائے حکمران طبقے کی کاسہ لیسی میں مصروف رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کرپٹ چہیتوں کے خلاف کوئی کارروائی بروئے کار نہیں لائی جاتی۔ حکمران طبقے کے لیے یہ باعث شرم بات ہے کہ جن مسائل کو انھوں نے حل کرنا ہے ان کی نشاندہی چیف جسٹس آف پاکستان کو کرنا پڑ رہی ہے۔

اگر حکمران طبقہ اپنے فرائض ایمانداری اور دیانتداری سے سرانجام دیتا تو آج چیف جسٹس آف پاکستان کو یہ کہنے کی نوبت ہی پیش نہ آتی کہ کراچی میں صفائی کا کام ایک ہفتے میں نمٹایا جائے‘ انھوں نے کراچی کے مسائل کا حل بھی بتایا کہ شہر کو مشترکہ کاوشوں سے بہتر بنایا جائے۔

یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کراچی کے وہ مسائل جو گزشتہ کئی دہائیوں سے چلے آ رہے ہیں کیا چیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس کے بعد سندھ حکومت انھیں حل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے یا نہیں‘ اگر وہ ایک ہفتے میں کراچی کی صفائی کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو پھر چیف جسٹس آف پاکستان اس بارے میں کیا نوٹس لیتے ہیں، عوام اس کے منتظر ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔