مسلمانوں کے لیے بُدھ مت خطرہ کیوں بنا؟

فرحین شیخ  پير 19 مارچ 2018

تقریباً چوبیس سو سال قبل وجود میں آنے والا مذہب بدھ مت اپنے آغاز سے ہی ایک پُر امن مذہب کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس کی تعلیمات کی رو سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ کسی بھی جاندارکو نقصان پہنچانا بد ترین گناہ تصورکیا جاتا تھا ۔وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی کے عین فطری عوامل بدھ مت کے پیروکاروں پر بھی اثرانداز ہوئے۔

بدھ مت کی تعلیمات کے برعکس وہ نہ صرف گوشت خوری کی طرف راغب ہوئے بلکہ رفتہ رفتہ انسانی خون بہانے کے شوق میں بھی مبتلا ہوگئے۔ دنیا کے کئی خطوں میں بدھ مت کے ماننے والوں کی پُر تشدد کارروائیوں کے بے شمار خونیں مناظر،اس دہائی میں، سماج کی آنکھوں میں گھونپے جاچکے ہیں۔ امن کا پرچارکرنے والے بدھ بھکشو اس خونی کھیل میں سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔

بدھسٹ انتہا پسند اسلام کو اپنی بقا کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دینے لگے ہیں ۔اس خطرے سے نجات حاصل کرنے کے لیے پہلے برما کی زمین کو مسلمانوں پر تنگ کیا گیا، روہنگیا مسلمانوں کا لہو اب بھی وہاں سے رِس رہا ہے۔ لاشوں کی گنتی ابھی ختم نہیں ہوئی، جلتے مکانات سے دھواں اب تک اٹھتا ہے ۔ مسلمان ان المیوں سے گزر رہے ہیں جن کو شمارکرنا درد ناک دلوں کے بس کی بات نہیں۔

روہنگیا مسلمانوں کے درد سے کون واقف نہیں ! لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہی آگ سری لنکا میں متواترکئی سال سے بھڑکانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن سازشی عناصر اب تک پوری طرح کامیابی حاصل نہیں کرسکے ۔ سری لنکا کی اکیس ملین آبادی کا مسلمان محض دس فی صد ہیں ۔ اتنی قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود بدھ مت کے پیروکاروں کا انہیں اپنی بقا کے لیے بڑا خطرہ محسوس کرنا، بظاہر انتہائی حیران کن امر ہے۔

گزشتہ کئی سالوں کی طرح اس سال بھی سری لنکا کے مسلمانوں کو بدھوں کی طرف سے پر تشدد کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا ۔ بدھ مت کے ایک ماننے والے کے قتل کا الزام مسلمان نوجوانوں پر لگایا گیا اوراس کا بدلہ لینے کے لیے سری لنکا کے شہر کینڈی میں چار روز تک فسادات کی آگ بھڑکائی گئی۔ مسلمانوں کے دو سو مکانات، گیارہ مساجد اور بے شمارکاروباری مراکز کو تباہ کردیا گیا۔

عوام کو تشدد پر اکسانے میں برما کی طرز پر یہاں بھی بدھ راہب پیش پیش تھے۔ عرصہ دراز سے بدھ راہبوں کے عسکری اور جارحانہ کردارکو دیکھتے ہوئے انہیں اب دنیا بھر میں’’جنگجو بھکشوؤں‘‘ کے لقب سے پکارا جانے لگا ہے۔ سری لنکا میں بدھسٹ پاور فورس کے نام سے انہوں نے عسکری گروہ بھی بنایا ہوا ہے، جس کا کام موقع پاتے ہی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کیخلاف پُر تشدد کاروائیاں کرنا ہے۔

اقلیتوں کے ساتھ ساتھ اس گروپ کی کارروائیوں سے بدھ مت کے وہ پیروکار بھی محفوظ نہیں جو اب بھی قیام امن کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔ 2009 میں تامل باغیوں کے خلاف سری لنکا میں خانہ جنگی ختم تو ہوگئی مگر بدھسٹ پاور فورس کی طرف سے ملک کا امن اب بھی تاراج کیا جا رہا ہے۔ سری لنکا میں بدھ مت کے ماننے والے روہنگیا مہاجرین کے آنے سے بہت اشتعال میں ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پوری دنیا میں اسلامی شدت پسندوں کے خلاف جو آپریشن کیا جا رہا ہے، اس سے بچنے کے لیے مسلمان یہاں کا رخ کر رہے ہیں ، جو ریاست کے امن کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ لہٰذا بدھسٹ انتہاپسند مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد کو اپنے لیے جائز سمجھ رہے ہیں۔ صرف سری لنکا ہی نہیں بلکہ تھائی لینڈ میں بھی کم وبیش یہی صورت حال ہے۔

اکثر بدھ بھکشو مسلمانوں پر اور ان کی مساجد پر حملے کرنے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ رویہ کسی بھی لمحے ایک قیامت برپا کرسکتا ہے۔ چنگاری کسی بھی وقت شعلہ بن سکتی ہے۔ وقت کے خود کو دہرانے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟

سری لنکا میں نئی صدی مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد سے اٹی پڑی ہے۔ 2013 سے 2015 کے درمیان 538 پُرتشدد واقعات میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اکثر واقعات میں عیسائی بھی تعصب کا شکار ہوئے۔ گزشتہ سال اپریل اور مئی کے مہینے تو خاص طور پر یہاں مسلمانوں کے لیے بھاری ثابت ہوئے، لیکن یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ برما کے برعکس سری لنکا میں ریاست فریق نہیں بنی اور اس نے ہمیشہ فوری طور پر اس آگ پر قابو پایا ہے۔

اس بار بھی سیکڑوں ذمے داروں کوگرفتارکیا گیا اور متاثرہ علاقوں میں کرفیوکا نفاذ ہوا۔2011 میں پھوٹنے والے مسلم مخالف فسادات پر قابو پانے کی طرز پر اس بار بھی ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ سری لنکا کی حکومت نے ان شورشوں کو ملک کی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیتے ہوئے سختی سے حالات سے نمٹنے کا حکم دیا اور سب سے بڑا قدم یہ اٹھایا کہ سماجی میڈیا پر مکمل پابندی عائد کردی گئی۔

کسی بھی متنازع صورت حال میں سماجی میڈیا کے منفی اثرات کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ جدید دنیا میں ٹیکنالوجی کو مذموم مقاصد کے حصول کے لیے بھی کھل کر استعمال کیا جارہا ہے۔ سری لنکا میں بھی سماجی میڈیا خصوصاً فیس بک کے ذریعے اسلام مخالف پروپیگنڈا سرعت کے ساتھ پھیلایا جانے لگا ۔ نفرت آمیز مواد اور ویڈیوز نے دیکھتے ہی دیکھتے آگ لگا دی۔

مسلمانوں کو ان فسادات کا ذمے دار قرار دے کر ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے پیغامات عام ہونے لگے۔ سب سے زیادہ جو پیغام عام ہوا وہ ایک بدھ بھکشو کے ذاتی فیس بک پیج سے پھیلایا گیا، جس میں اس نے کہا،’’ صبرکی بھی انتہا ہوتی ہے، یہ جو چھری تمہارے گھروں میں رکھی ہے یہ صرف پھل کاٹنے کے لیے نہیں، اپنی چھری اٹھاؤ اور نکلو باہر۔‘‘

سری لنکا میں تامل عسکریت کا زور تو ٹوٹ گیا لیکن اب بدھسٹ انتہا پسندوں کا براہ راست نشانہ مسلمان ہیں ، لیکن ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں اور خود سے ایک سوال کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بدھ مت کے ماننے والے اچانک اسلام کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ کیوں سمجھنے لگے؟ نئی صدی میں بدھا کی تعلیمات اپنا اثرکیوں نہ جما سکیں؟

جواب اگرچہ تلخ ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ خاموش بیٹھے بدھ مت کے پیروکاروں سے سر ٹکرانے کی ابتدا تو ہمارے آس پاس ہی سے کہیں ہوئی تھی۔ طالبان نے جیسے ہی افغانستان کا کنٹرول سنبھالا وہاں اپنی طاقت کے اظہار کے لیے گوتم بدھ کے مجسموں کو مسمار کرنا شروع کردیا ۔ بدھا کے یہ مجسمے بدھ مذہب میں انتہائی اہمیت اور حرمت کے حامل قرار دیے جاتے ہیں۔ افغانستان میں سن دو ہزار کے درمیان طالبان نے عالمی برادری کی تمام اپیلوں کو رد کرتے ہوئے وادی بامیان میں بدھا کے مجسمے مسمار کردیے۔

جنوبی ایشیا میں بدھا کا دوسرا بڑا مجسمہ سوات میں نصب تھا ۔ 2007 میں یہ مجسمہ توڑ نے کی کوشش کی گئی، جس سے مجسمے کا چہرہ اورسر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ۔ان واقعات کے بعد بدھ مت کے پیروکاروں کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ مسلمان جہاں بھی غلبہ حاصل کریں گے، وہاں ان کی مذہبی آزادی ختم ہوجائے گی ۔ لہٰذا اسی خوف کے باعث وہ پیشگی بند باندھتے ہوئے، مسلمانوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوچکے ہیں۔

ان سب واقعات سے خوف زدہ ہوکر مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور جو رہتے بھی ہیں وہ خوف کی ایسی فضا میں سانسیں بھرتے ہیں کہ اونچی آواز میں بات کرنے کی جرأت بھی نہیں کر پاتے اور بدھ مت کے پیروکاروں کے نزدیک اسی میں ان کی بقا کا راز ہے۔

بہرحال وجوہات جو بھی ہوں، ان پُرتشدد کاروائیوں کی روک تھام سری لنکا کی حکومت کی اولین ترجیح ہونا ضروری ہے۔ گزشتہ سال حملوں کے جن ذمے داروں کوگرفتارکیا گیا تھا ان کو مقدمہ چلائے بغیر رہا کردیا گیا۔ میانمار اور سری لنکا کے بدھ بھکشو باہمی اتحاد کے ذریعے ایشیا میں بدھ مت کو زندہ رکھنے کی جو متشدد کوششیں کر رہے ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا قبل ازوقت نہیں کہ وہ ایک ایسے دھرم کی بقا کو خطرے میں ڈھال رہے ہیں جو اپنی امن پسندی اور محبت پر مبنی تعلیمات کے باعث تیزی سے پھیلا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔