غنی خان ‘وطن کادیوانہ

جمیل مرغز  پير 19 مارچ 2018

15مارچ 1996ء کوعظیم پختون شاعراور فلسفی غنی خان ہم سے جدا ہو گئے وہ 1915ء میں پیدا ہوئے تھے۔ دنیا کی ہر قوم کے شعراء نے اپنی مٹی سے محبت کے گیت گائے ہیں‘ہومر یونان کی سرزمین کو دیوتاؤں کی سر زمین کہتا ہے‘ملٹن اور کیٹس برطانیہ عظمی کے گیت گاتے ہیں‘ رابندر ناتھ ٹیگور اور نذرالاسلام بنگال کی سرزمین کی محبت میں سرشارہیں‘بابا بلھے شاہ اور امرتا پریتم کی شاعری میں پنجاب دھرتی کی تعریفیں ہوتی ہیں‘ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی ’’شاہ جو رسالو‘‘ اور امر جلیل کی تحریروں میں سندھ دھرتی کی محبت رچی بسی ہیں۔

پختون سرزمین سے محبت کرنے والے شاعر لاتعداد ہیں‘ان میں احمد شاہ بابا‘ خوشحال خان خٹک‘حمزہ بابا‘قلندر مومند‘اجمل خٹک‘ غنی خان‘ سیف الرحمان سلیم‘ رحمت شاہ ساحل‘فضل سبحان عابد‘ عزیز مانیروال‘اکمل لیونے‘ انور مانیروال اور نورالبشر نوید سمیت دوسرے بے شمار شاعر شامل ہیں جنہوں نے افغان وطن کی تعریفیں شاعری کی زبان میں کی ہیں‘ اپنی سرزمین کی تعریف کو ملک سے غداری قرار نہیں دیا جا سکتا۔

پنجابی‘سندھی ‘بلوچی اور پختون قومیتیں صدیوں سے اس سر زمین میں آباد ہیں‘ ان قومیتوں کا ادب ‘ثقافت اور تہذیب بھی اتنا ہی پرانا ہے‘یہ اس وقت کا ادب اور ثقافت ہے جب پاکستان کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔

ایک پرانا واقعہ یاد آیا کہ چند سال قبل جمعیت العلماء اسلام اور اے این پی کے درمیان مخالفانہ بیان بازی چل رہی تھی‘مولانا گل نصیب صاحب نے کہا کہ ’’اے این پی کے جلسوں میں پختونستان کا ترانہ گایا جاتا ہے‘باچا خان ٹرسٹ کے زیر انتظام سکولوں میں بھی بچے پختونستان کا ترانہ گاتے ہیں‘جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اے این پی ملک دشمن پارٹی ہے‘‘۔ان دونوں پارٹیوں کے درمیان سیاسی لڑائی میرے اس کالم کا موضوع نہیں ہے بلکہ جس ترانے پر اعتراض کیا گیا ہے‘وہ میرے کالم کا موضوع ہے‘یہ ترانہ عظیم پختون شاعر غنی خان کا تحریر کردہ ہے‘ چونکہ اس ترانے میں پختون سرزمین کی تعریف کی گئی ہے‘اس لئے یہ ترانہ پوری پختون قوم کا سرمایہ ہے۔

اس ترانے کو محترم مفتی محمود بھی سن کر خوش ہوتے تھے‘جب محترم مفتی محمود صوبہ سرحد کے وزیر اعلی بنے تو نیپ ان کی اتحادی جماعت تھی ‘حکومت بننے کی خوشی میں پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن نے ایک فنکشن کا اہتمام کیا‘محترم مفتی محمود اور کابینہ کے تمام وزراء بھی موجود تھے‘اس محفل میں چند طلباء نے یہ ترانہ گایا‘محترم مفتی محمود نے بھی یہ ترانہ بہت شوق سے سنا۔

اس محفل میں کافی علماء بھی موجود تھے‘پھر بھی دائیں بازو کے سیاستدان اے این پی کا غصہ غنی خان کے اس شہرہ آفاق ترانے پر نکال رہے ہیں‘حالانکہ اے این پی نے اپنے پورے دور حکومت میں غنی خان کی برسی منانا تو دور کی بات ہے کبھی اس عظیم شاعر کا نام تک نہیں لیا کیونکہ غنی خان ہمیشہ روایتی پختون قوم پرست تحریک کے ناقد رہے‘وہ اے این پی کے رہنماؤں کو پختونوں کے سوداگر کہا کرتے تھے۔

یہ پارٹی اب بھی اس مقبول عام ترانے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہے‘ حالانکہ یہ ترانہ پوری پختون قوم کا قیمتی ورثہ ہے۔یہ ترانہ پشتونوں کی سرزمین کی تعریف میں ہے اس میں کوئی سیاسی بات یا کسی سیاست کا نام نہیں ہے‘ پختونوںکے پاس تو اپنی تاریخ‘ادب اور ثقافت کے سوا کوئی اثاثہ نہیں بچا‘اس لئے سیاستدانوں کو کم از کم ان کو تو معاف رکھنا چاہیے۔

غنی خان کی وجہ شہرت اعلی پائے کے ادیب‘ فلسفی‘مصور‘ مجسمہ ساز‘ سیاستدان‘مورخ‘فنکاراور ایک عظیم شاعر ہونے کی وجہ سے تھی‘ان کی نظمیں اور انقلابی نغمے پشتو زبان کے شہرہ آفاق ادب پارے ہیں‘ان کی شاعری میں وطن سے محبت ایک خاص موضوع ہوتی ہے‘کیونکہ وہ صرف شاعر نہیں بلکہ با عمل شاعر تھے۔

انہوں نے تحریک آزادی میں جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن قیام پاکستان کے بعد پارٹی قیادت سے اصولی اختلافات کی وجہ سے سیاست سے کنارہ کش ہوگئے تھے‘کبھی موقعہ ملا تو ان کی زندگی اور شاعری پر بھی طبع آزمائی کرنے کا ارادہ ہے۔اب ذکر اس ترانے کا ہوجائے۔ یہ ترانہ غنی خان نے قیام پاکستان سے قبل تحریر کیا تھا۔ ان کی برسی کی مناسبت سے اس ترانے کا اردو ترجمہ قارئین کیلئے پیش کرتا ہوں‘اس میں ان کی وطن کی مٹی سے محبت جھلکتی ہے۔

اس ترانے کا عنوان ہے ’’ اے زما وطنہ‘‘…  (اے میرے وطن)۔

٭۔ اے زما وطنہ د لعلونو خزانے زما۔۔ستا ھرہ درہ کے دی د تورو نشانے زما۔

(ترجمہ )۔اے میرے وطن تم میرے لئے لعل و جواہر کے خزانوں کی طرح ہو‘کیونکہ تمہارے پہاڑوں کے درّوں میں میرے اسلاف کی بہادری‘شجاعت اور حب الوطنی کی تاریخ اور نشانیاں موجود ہیں۔

٭۔ ستا سر چہ وی ٹیٹ نو زہ بہ شان و شوکت سہ کڑمہ۔تہ چہ خوار و زار یے زہ بہ مال او دولت سہ کڑ مہ ۔

(ترجمہ)اگر دنیا میں تمہاری عزت نہ ہو تو میں اپنی شان و شوکت کا کیا کرونگا۔اگر تم مفلس اور غریب ہو تو میں اپنے مال و دولت کا کیا کرونگا۔

٭۔ تہ چہ روان ویجاڑ یے زہ بہ خوب او راحت سہ کڑمہ۔مستہ بہ د خاورہ کڑم پہ وینہ مستانے زما۔

(ترجمہ) اے میرے وطن!اگر تم بدحال اور ویران ہوگے تو میں نیند اور آرام کیسے کروں گا۔ ضرورت پڑی تو میں اپنے مست خون سے تمہاری زمین کی آبیاری کرونگا۔

اے زما وطنہ د لالونو خزانے زما

٭۔ عقل مے ایرے شہ ستا د پارہ د فکرونو نہ۔سترگے مے قربان شہ ستا د پارہ د سوچونو نہ۔

(ترجمہ) ۔ تمہاری خوش حالی اور ترقی کیلئے سوچتے سوچتے میری عقل اور نظردونوں خراب ہو جائیں تو کوئی فکر نہیں‘یہ میری تمنا ہے۔

٭۔ زار شمہ قربان شم ستا د خاورو د کورونہ ۔ستا زڑہ کے پرتے دی ٹولے تلے زمانے زما۔

(ترجمہ)۔میں تمہارے سینے پر بسے ہوئے کچے مکانوں پر واری اور قربان جاؤں‘ میرے پیارے وطن تمہارا سینہ میری قوم کے ماضی کی داستانوں اور تاریخ کا خزینہ ہے۔

اے زما وطنہ د لالونو خزانے زما

٭۔ یا بہ دزہ سیال کڑمہ وطنہ د جہان ۔یا بہ ستا پہ خپو کے تورے خاورے کڑم خپل زان۔

(ترجمہ) ۔اے میرے پیارے وطن یا تو میں تمہیں دنیا کی قوموں کے برابر لے آؤ نگا‘اگر میں ایسا نہ کر سکا تو تمہارے قدموں میں اپنی جان دے کر اس مٹی کا حصہ بن جاؤنگا۔

٭۔ زان بہ دڑے وڑے کڑم خو تا بہ کڑم ودان۔نر یمہ پختون یم تا تہ یادے افسانے زما۔

(ترجمہ)۔اپنی جان پر کھیل کر اے وطن میں تم کو آباد کرونگا‘تمہیں تو میری تاریخ معلوم ہے کہ پختون اپنے وطن پر قربان ہوجاتا ہے۔

اے زما وطنہ د لالونو خزانے زما

چو نکہ میں ایک ادبی شخص نہیں ہوں اس لئے اپنی اس ’’بے ادبی‘‘ کی حالت میں جتنا ہو سکا اس خوبصورت ترانے کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے‘ اس ترانے میں غنی خان نے وطن کی محبت میں اپنا سینہ چیر کر رکھ دیا ہے‘اس لئے پورا مفہوم ادا کرنا مشکل ہے‘اگر ہمارے قدامت پرست حضرات ذرا کھلے ذہن سے سوچیں تو یہ ترانہ ایک پختون کا پاکستان کے لئے محبت کے جذبے کا اظہار بھی ہو سکتا ہے‘معلوم نہیںاس ترانے میں ’’پختونستان‘‘ اور’’ پاکستان دشمنی‘‘ کہاںہے۔

اگر اس ترانے میں پختونوں کی سر زمین کے پہاڑوں اور درّوں کا ذکر ہے تو کیا اس ترانے کی مخالفت کرنے والے پختون ان پہاڑوں اور دروّں کے باسی نہیں ہیں؟ کیا یہ ان کا وطن نہیں ہے؟۔کیا پختونوں کا وطن پاکستان کا حصہ نہیں ہے؟۔

ویسے آپس کی بات ہے کہ جمیعت العلماء ہند بھی قیام پاکستان کی مخالف اور کانگرس کی اتحادی تھی۔اے این پی کی طرح جے یو آئی کی تاریخ بھی پاکستان کے حوالے سے روایتی محب وطنی پر مبنی نہیں ہے لیکن غنی خان آخر تک اپنی دھرتی کے عاشق تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔