فلم اور کلچر پالیسی

شاہد سردار  پير 19 مارچ 2018

پاکستانی فلمی صنعت کی تاریخ اور اس کے حال کو جانچا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ہماری فلمی صنعت اور اس سے وابستہ افراد نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی۔ وہ تمام مسائل جن کا سامنا ہماری فلم انڈسٹری کو روز اول سے تھا، وہ آج بھی جوں کے توں موجود ہیں۔ ان مسائل میں ہر دور کی حکومتی عدم توجہی، سرمائے کی کمی، ذہین اور تخلیق کے فن سے آشنا لوگوں کی قلت، ہشت پہلو فنکاروں اور تخلیق کاروں کی رحلت اور فلمی صنعت میں اتحاد و یگانگت کی کمی سرفہرست عوامل کہے جاسکتے ہیں۔

حکومت وقت کی طرف سے حال ہی میں ’’فلم وکلچر پالیسی‘‘ کا اعلان تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں ، جس کے تحت فلم کو صنعت کا درجہ دینا، فنانس فنڈ کی فراہمی، نیشنل فلم اکیڈمی، فلم اسٹوڈیوز کے قیام اور تفریحی ٹیکس صفرکرنے جیسے بہت سے اقدامات شامل ہیں ، لیکن فلم سے دلچسپی رکھنے والے افراد اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہمارے ہاں اس قسم کا حکومتی اعلان کوئی نئی بات نہیں۔

ماضی میں ایسے کئی پروجیکٹ سرکار کی طرف سے شروع ہوئے لیکن اعلانات سے آگے نہ بڑھے، کسی حکومت نے زیادہ شد ومد دکھائی تو نیشنل ایوارڈز کا اجرا ہوگیا ، ’’نیف ڈیک‘‘ کے نام سے ایک ادارہ بھی فلم کے فروغ کے لیے قائم کردیا گیا لیکن چند سال بعد یہ سب کا سب فلم انڈسٹری کا ساتھ چھوڑ کرکہیں روپوش ہوگیا۔ یہ اس صنعت کی حد درجہ توہین ہی کہی جائے گی کہ جس نے ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کیا اور حکومتی خزانے میں سالانہ سو فیصد تفریحی ٹیکس (جو کہ دنیا کے کسی ملک میں نہیں لیا جاتا) دینے کے باوجود کسی حکومت نے اس کے سر پر کبھی دست شفقت نہیں رکھا یوں یہ اپنی مدد آپ کے تحت جیسے تیسے اپنے سروائیول میں مصروف دکھائی دی لیکن اب یہ گزشتہ کئی برسوں سے ’’کومے‘‘ میں ہے اور آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔

عملی طور پر پاکستانی فلمی صنعت کا احیا محض دیوانے کا خواب ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ نئی فلم بنانے کے حوالے سے صورتحال بڑی واضح اور حوصلہ افزا نہیں ہے۔ تاہم فلم سازی سے وابستہ اور فلم سے دلچسپی رکھنے والا ہر فرد خواہ اس کی حیثیت کچھ بھی ہو ملک میں فلمی صنعت کی بحالی، ترقی اور فروغ کے حوالے سے آرزو مند ہی دکھائی دیتا ہے۔

پاکستان میں فلم سازی کے ارتقا کا تجزیہ کیا جائے تو موجودہ مقام تک پہنچنے میں فلمی صنعت کو مختلف مسائل اور مشکلات نظر آتی ہیں ، لیکن مشکلات اور صبر آزما حالات کے باوجود فلمی صنعت فلم پروڈیوسرز، فلم ڈسٹری بیوٹرز، فلم انگیزی ، ایکزبیٹرز، فلم اسٹارز، رائٹرز، ڈائریکٹرز، سنگرز، میوزک ڈائریکٹرز اور دیگر ٹیکنیشنز کی مستقل مزاجی، صلاحیتوں، محنت، لگن اور قومی جذبے کے بل بوتے پر ہر موقعے پر اپنے مسائل پر قابو پانے میں سرخرو ہوتی رہی لیکن اب گزشتہ طویل برسوں سے ایک بار پھر مختلف مسائل اور مشکلات نے فلم میکنگ کے عمل کو بری طرح متاثر کرکے اس پر جمود طاری کردیا ہے۔

اسے درپیش مسائل میں وطن عزیز میں غیر ملکی فلموں کی کسی منصوبے کے بغیر درآمد، ملک میں ٹی وی چینلز کا حد درجہ پھیلاؤ، ملکی فلموں کا فلم سازی کے مختلف شعبوں میں پست معیار، خاص طور پر تکنیکی شعبوں کی پستی، اداکاروں کی یکسانیت، ان کی کمی، فلم کے اسکرپٹ اور ڈائریکشن میں جدت اور تخلیقی پہلوؤں کا فقدان، قومی اور علاقائی بالخصوص پنجابی فلموں کی شدید قلت، فلموں کے یوں توہمارے ہاں تمام ہی شعبے زوال پذیر چلے آرہے ہیں لیکن ان میں موسیقی جیسے اہم اور حساس ترین شعبے کی زوال پذیری خاصی اہم اور نمایاں دکھائی اور سنائی پڑتی ہے۔

عرصہ دراز سے کوئی ایسا فلمی نغمہ سننے کو نہیں ملا جو طویل عرصے تک سنا جاسکتا ہو۔ اس کے ساتھ سینماؤں کی بالخصوص سنگل اسکرین سینماؤں کی قلت اور جدید سینماؤں کے ٹکٹوں کی ہوشربا شرح ان سبھی وجوہات نے فلمی صنعت کی حالت نازک کرکے اسے لب دم کردیا ہے۔

فلم جیسے حساس، زود اثر اور موثر ذریعہ ابلاغ اور تفریحی ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے سالانہ کا ٹیکس ادا کرنے والی فلمی صنعت کی ترقی کی ضمن میں حکومتی رویے سمجھ سے باہر رہے ہیں، ہر حکومت وقت فلمی صنعت کے معاملات سے بیگانہ دکھائی دیتی چلی آئی ہے، یوں فلم جیسے اہم میڈیم کو نظرانداز کرنے سے ملک میں ثقافتی بحران اور اس سے وابستہ لوگوں کے لیے روزی روٹی کا ذریعہ چھن گیا ہے۔

لاہور جو کبھی فلم سازی کا گڑھ تھا وہاں کے تمام فلم اسٹوڈیوز اور فلمی دفاتر اجڑ چکے ہیں، فلم اسکرین کے بڑے اسٹارز اپنا کچن چلانے کے لیے چھوٹی اسکرین ( ٹی وی) کی آغوش میں چلے گئے ہیں۔ وہ فلمی صنعت جو ہر سال دو ڈھائی سو فلمیں بناکر سینماؤں پر کامیابی سے چلاتی تھی، وہ سال میں ایک درجن قومی زبان کی فلم بنا کر چلانے کی سکت بھی کھو بیٹھی ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سینما کی کھڑکی مدتوں سے ویران، حیران، پریشان اور پشیمان ہے اپنے بنانے اور اسے چلانے والوں کے حوالے سے۔

پاکستانی فلموں کا ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ ان کی بیرون ملک کھپت نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ سوائے پشتو فلموں کے جن کو صرف متحدہ عرب امارات ہی میں پذیرائی ملتی ہے۔ ہماری فلموں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ کسی دور کے تقاضے کو پورا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی (ماسوائے چند ایک فلموں کے) ہمارے میکرز دنیا کے سامنے وہی گل و بلبل اور طوطے مینا کی کہانی رکھتے آئے ہیں ، جن پر ہمارے عوام تک آنکھ ٹکانے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے، ویسے بھی دنیا کے پاس اس اکیسویں صدی میں حقائق کی جانچ کے اپنے طریقے ہیں، ہماری الف لیلیٰ انھیں کسی طور متاثر نہیں کرتی کیونکہ وہ ٹھوس شہادت رکھنے والی دنیا کے لوگ ہیں اور وہ ہمارے مفروضوں کی دھجیاں اڑانے پر قدرت رکھتے ہیں۔

ہم نے خود کو، اپنے وطن کو، اپنی پروڈکٹ کو، اپنے ہنرمندوں کو اس نہج تک کیوں پہنایا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ داخلی طور پر ہماری توجہ کا ارتکاز ان معاملات پر نہیں جن پر ہونا چاہیے تھا۔ ہماری ترجیح حکومتوں کو بنانا یا گرانا ہے، ہم میوزیکل چیئر کا شغف رکھتے ہیں، ہم انتخابات پر اثرانداز ہوتے ہیں، اچھی پالیسی بنانے پر اثرانداز ہوتے ہیں، ہم سخت فیصلوں کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دیتے ہیں بس نیم پختہ سچائیاں ہمارے کانوں میں رس گھولتی رہتی ہیں۔

عوام کے پاؤں لہو لہان ہیں کیونکہ کانٹوں کی عمر پھولوں سے زیادہ لمبی ہوتی ہے۔ دنیا ہمیں ان خار زاروں کو صاف کرنے کا کہتی رہتی ہے لیکن ہمارے ارباب اختیار ان کانٹوں کا احساس دلانے والے افراد کو کبھی عذاب کبھی باغی اور کبھی آؤٹ آف ڈیٹ قرار دیتے رہتے ہیں۔ دراصل ہمارے ملک میں پالیسی سازی کے شعبے میں صلاحیتوں کے فقدان کا تاثر بہت گہرا ہونے لگا ہے جس کی وجہ سے ہمارے بڑے بڑے ادارے انحطاط اور زوال کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

بہرکیف پاکستانی سینما سے ناراض فلم بینوں کو واپس لانے اور نئی فلموں کی تیاری کے ضمن میں منصوبہ بندی کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اور ہماری دانست میں پاکستان فلم انڈسٹری کی درستگی یا اس کی بحالی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک اس سے وابستہ سرکردہ شخصیات اپنے موٹو، اپنے وژن کا اظہار صحیح پیرایے میں نہیں کرسکتیں۔ پاکستان میں فلم اسٹوڈیوز کی بدحالی اور اس میں جدید آلات کی کمیابی اور بعدازاں اس کے تدارک کے بغیر فلمی صنعت کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔