کھلے معاشرے کی عطائیں

ڈاکٹر یونس حسنی  پير 19 مارچ 2018

بعض امور میں مغربی معاشرہ ایسا قابل تعریف ہے کہ اس کی تعریف نہ کرنا بجائے خود ایک ناشائستہ حرکت ہے۔ مثلاً یہی کہ ان کے یہاں آزادیٔ فکر بھی ہے اور آزادیٔ اظہار بھی۔ اور یہ کہ یہ معاشرہ جیسا ہے ویسا ہی نظر بھی آتا ہے۔ یہ نہ کچھ چھپاتے ہیں نہ چھپاکر کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کے یہاں ہونے والے بگاڑ کا علم بھی ہوجاتا ہے اور اس کا تدارک بھی۔

ہم پردہ پوشی کے نام پر نہ جانے کتنے گناہ کرتے چلے جاتے ہیں اور چونکہ ان کا اظہار نہیں ہوتا اس لیے وہ چھپے رہتے ہیں۔ مگر ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ بقول شاعر:

میرے زخموں نے دل کے دل لگی اچھی نکالی ہے

چھپائے سے تو چھپ جانا مگر ناسور ہوجانا

ہمارے معاشرے میں زخم ناسور ہوجاتا ہے اور یوں لاعلاج قرار پاتا ہے۔

مغربی معاشرے میں بہت سی چیزیں حلال ہیں جو ہمارے معاشرے میں حرام ہیں ۔ مثلاً شراب نوشی، جنسی بے راہ روی، زنا بالرضا اور آزادانہ جنسی اختلاط وغیرہ ۔ ہمارے یہاں یہ سب کچھ حرام ہے مگر شراب نوشی ہمارے معاشرے میں بھی عام ہے چاہے وہ بظاہر دکھائی نہ دے، جنسی بے راہ روی بھی کم نہیں اگرچہ وہ کبھی کبھی خفا سے اظہار میں آجاتی ہے۔

سود ہم بھی لے لیتے ہیں مگر چکھنے کی حد تک، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جوکچھ کرتے ہیں اسے سمجھتے بھی ہیں اور چھپاتے بھی نہیں۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں چھپا کرکرتے ہیں۔ یہ رویہ بھی یکسر غلط نہیں۔ کم از کم احساس زیاں تو رہتا ہے اسی لیے تو اخفا پر زور ہوتا ہے۔ خدا سے توکچھ بھی نہیں چھپ سکتا ہم بندوں سے بہت کچھ چھپا لیتے ہیں۔

مغربی معاشرے میں آزادی اور خصوصاً آزادیٔ نسواں کے نام پر اس قدر مادر پدر آزادی ہے ایک شخص کسی بھی خاتون کو اپنی گرل فرینڈ بنائے یا کوئی لڑکی کسی مرد کو بوائے فرینڈ بنا لیں اور وہ سالوں ’’دوستی‘‘ کی بنا پر جنسی زندگی گزارتے رہیں اور پھر کپڑوں کی طرح گرل یا بوائے فرینڈ کو بدل لیا جائے تو اس کی کھلی آزادی مغربی معاشرے میں حاصل ہے۔ ایک خاتون اگر کبھی غیر قانونی بچے کو جنم دے تو بڑی جرأت سے اس کے باپ کا نام بتادیتی ہے حالانکہ اب یہ اس کا بوائے فرینڈ نہیں رہا اور انسانوں کی بھیڑ میں کہیں گم ہوگیا ہے مگر اس کی بچی اپنے اسے باپ کے نام سے موسوم ہوتی ہے اورکوئی یہ نہیں پوچھتا کہ کیا وہ تمہارا شوہر تھا۔

اتنے کھلے اور آزاد معاشرے میں جنسی حبس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ مغرب میں جو غیر معمولی کشش ہم مشرقیوں کو نظر آتی ہے اس میں وہاں کے عادلانہ نظام ، سماجی مساوات، زندہ رہنے کی سہولتوں کے علاوہ اس جنسی آزادی کے تصورکو بھی بڑا دخل ہے۔ کیا ہم یہاں بیٹھ کر تصورکرسکتے ہیں کہ اس سے زیادہ اورکیا جنسی آزادی ممکن ہوسکتی ہے۔

ہمارے یہاں آئے دن لڑکیاں اپنے محبوبوں کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں اور ہماری صحافت اسے آشنا کے ساتھ فرارکی شہ سرخی کے ساتھ شایع کرتی ہے مگر مغربی معاشرے میں کسی لڑکی کو فرار ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ ٹہلتی ہوئی آشنا کے ساتھ جاسکتی ہے کیونکہ اس پر کوئی پابندی عاید نہیں، اس پر کسی کی نظر نہیں، کوئی اس کا محتسب نہیں اس لیے وہاں لڑکیوں کے بھاگنے کی خبر اخبارات کی زینت ہی نہیں بنتی۔

ان تمام آزادیوں کے بعد تو مغربی معاشرے میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے یا کسی کو جبراً اپنی طرف ملتفت کرنے کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ وہاں تو میدان صاف ہے ’’ تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی‘‘

مگر جب آپ کو یہ خبر ملے کہ مغربی ممالک میں اساتذہ، طلبہ وطالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں تو نہ صرف حیرت ہوتی ہے بلکہ ان کے ’’ کھلے‘‘ معاشرے کے مقابلے میں اپنے ’’ گھٹے گھٹے‘‘ معاشرے پر فخرکرنے کو جی چاہتا ہے۔ کیا اساتذہ کو معاشرے میں عورتوں کی کمی ہے کہ وہ اساتذہ اپنا طالبات اور استانیاں اپنے طالب علموں کی طرف جنسی طور پر مائل ہوتے ہیں۔

جنسی ہراسگی کی جو تفصیلات مختلف ذرائع سے ملتی ہیں ، ان سے پتا چلتا ہے کہ طلبا وطالبات سے زیادتی یا ان کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی پاداش میں امریکا اور یورپ میں تقریباً ایک ہزار اساتذہ کو جیل بھیجا گیا ہے۔ اوسطاً ہر ماہ 20 واقعات اسی نوعیت کے ریکارڈ ہوتے ہیں اور ریکارڈ نہ ہونے والے واقعات کا علم نہیں۔

خبر کی تفصیل یہ بھی ہے کہ اساتذہ یعنی استاد اور استانیاں اپنے شاگردوں کو جنسی طور پر ورغلانے کے لیے ان کو بھنگ، چرس، افیون اور دیگر منشیات کی طرف راغب بھی کرتے ہیں تاکہ پھر ان منشیات کا محتاج بناکر ان سے جنسی لذت حاصل کی جاسکے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ متعدد خواتین اساتذہ نے کمسن طلبہ کو ورغلانے کا الزام تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی عدم توجہی کے سبب ایسا کرنے پر مجبور ہوئی ہیں۔

فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل معلومات کے ذیل میں پتا چلا ہے کہ 2015 میں 130 سے زائد برطانوی اساتذہ کو اخلاقی بے راہ روی کا مجرم پایا گیا ہے جن میں ایک سو خواتین اساتذہ شامل ہیں۔ 2016 میں 150 برطانوی اساتذہ کو طلبہ کو ہراساں کرنے پر گرفتار اور معطل کیا گیا ہے جبکہ 2017 میں 330 بد قماش اساتذہ کوگرفتار اور معطل کیا گیا ہے۔

یہ اعداد وشمار حیرت انگیزوعبرت انگیز ہیں جو معاشرہ ’’ کھلا ‘‘ معاشرہ ہونے کا فخر رکھتا ہو وہ ’’بند‘‘ گھٹے ہوئے معاشرے سے کس طور پر بہتر ہوسکتا ہے۔ جس معاشرے میں ہر قسم کی جنسی آزادی میسر ہو وہاں اساتذہ کا طلبہ کو اس طرح استعمال کرنا شاید لوگوں کے لیے ناقابل فہم ہو ہماری سمجھ میں آتا ہے۔

یہ نام نہاد آزادی جس کے ہم بھی شیدائی ہیں، خواہش مند ہیں اور اس کی طرف چل پڑے ہیں انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی اسے حیوانیت کی طرف راغب کرتی ہے۔ اگر معاشرے کو اخلاقی قدروں کا حامل بنانا ہے تو افراد پر بعض پابندیاں لگانا اور انھیں قبول کرنا بھی لازمی ہوگا ورنہ معاشرہ اس سے زیادہ تذلیل کا شکار ہوگا۔

یہ بات بھی لطف سے خالی نہیں کہ اساتذہ کا محترم پیشہ تو مغرب نے رسوا کر ہی دیا امریکا میں تو صدر محترم پر آئے دن خواتین کو ہراساں کرنے یا جنسی تشدد کرنے کے انکشافات ہوتے رہتے ہیں اور یکے بعد دیگرے خواتین یہ الزامات لیے نمودار ہورہی ہیں۔

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔