چاچا علی جان اور ارسلا خان

سعید پرویز  پير 19 مارچ 2018

اچھے انسانوں کا ذکر جتنا کیا جائے کم ہے۔ ایسے ہی دو انسانوں کا آج ذکر ہے۔ 12 مارچ 2018 کا دن تھا، اس کا فون آیا وہ آرہاتھا ۔ 10 مارچ دو دن پہلے بھی اس کا فون آیا تھا۔ اس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا میرا نام ارسلا خان ہے۔ میں داؤد چورنگی لانڈھی کے پاس مظفر آباد کالونی میں رہتا تھا۔

اور پھر وہ آگیا، اس نے مقررہ جگہ پہنچ کر مجھے فون کیا۔ سعید پرویز صاحب ! میں پہنچ گیا ہوں‘‘ میں نے اس سے کہا ’’وہیں ٹھہریں میں آپ کو لینے آرہاہوں۔‘‘

ہم ایک دوسرے سے پہلی بار مل رہے تھے لیکن میں اسے دیکھتے آواز لگائی ’’ارسلا خان ! اور وہ بھی بڑی خوشی سے میری جانب بڑھا، بغل گیر ہوا، پھر ہم گھر آگئے۔ ارسلا خان نے آسمانی رنگ کا نیلا قمیض شلوار پہن رکھا تھا۔ گورا چٹا رنگ اور سفید بال مزدور تحریکوں میں سفید ہوئے بال ارسلا خان نے گفتگو کا آغاز یوں کیا میں بالکل ان پڑھ ہوں۔ مگر پھر بھی اردو پڑھ لیتا ہوں۔ لکھ نہیں سکتا پھر ارسلا خان نے دو صفحے کمپوز شدہ مجھے دیے اور ساتھ یہ گلا کیا کہ عظیم مزدور رہنما چاچا علی جان جس کا پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں بڑا کام ہے مگرکہیں کسی کتاب میں چاچا کا ذکر تفصیل سے موجود نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مزدور تنظیم چاچا کی یاد مناتی ہے۔ ‘‘

اب میں مزدور کارکن ارسلا خان کے دو صفحات پر مشتمل تحریرکا اکتساب پیش کرتا ہوں، اس لیے یہی عظیم مزدور کارکن ہیں، جنھیں نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ۔ ارسلا خان لکھتے ہیں ’’میں اپنے گاؤں ڈسٹرکٹ سوات سے 1961 کے شروع میں آدھے ٹکٹ پرکراچی آیا تھا اس زمانے میں ٹریڈ یونین کی سیاست کو میں نہیں سمجھ سکتا تھا مگر میں نے کچھ نارے (نعرے) سیکھے تھے۔ مزدور مزدور بھائی بھائی، منگھوپیر کے مزدورو ایک ہوجاؤ، میرا چاچا علی جان سے کئی ملاقاتیں ہوا۔

حسرت موہانی کالونی کے مزدور دفتر پاک کالونی مین روڈ پر طفیل عباس کے دفتر، شیر شاہ میں نبی احمد کے دفتر میں جاتا آتا تھا۔ میں نے 1963 کی مزدور تحریکوں میں بہت کام کیا۔ چاچا علی جان ٹیکسٹائل ملز رینگ ڈبل سائٹر میں ملازمت کرتا تھا ، ملز کے مزدور ڈیوٹی کے بعد گیٹ پر جمع ہوکر میٹنگ کرتے، اس جرم کی پاداش میں ملز انتظامیہ نے کچھ کو چارج شیٹ کردیا اور پھر انھیں نوکری سے نکال دیا۔

اس کے بعد منگھوپیر کی مختلف ملز کے مین گیٹ پر مزدوروں کے مسائل پر گفتگو شروع ہوگئی۔ اور یکم مارچ 1963 کو چورنگی پر مزدور جمع ہوئے اور ایک جلوس نکالا گیا جس کی قیادت چاچا علی جان کر رہا تھا، جلوس کو ریڈیو پاکستان یا گورنر ہاؤس جانا تھا۔ سائٹ کے مزدور ایک ہوجاؤ، مزدور مزدور بھائی بھائی، کراچی کے مزدور ایک ہوجاؤ۔ 1963 کے مزدور جلوس میں لگنے والے نعروں کا ذکر ارسلا خان نے اپنے پمفلٹ میں کیا ہے اور میں بڑے دکھ سے لکھ رہا ہوں کہ آج ایسا بالکل نہیں۔ نہ مزدور بھائی بھائی ہیں اور نہ ہی ایک ہیں۔

ارسلا خان اپنے جلوس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’جلوس کے آگے اور پیچھے پولیس کی بڑی نفری تھی۔ پولیس نے کئی بار وارننگ دی مگر جلوس بڑھتا رہا۔ جس کے نتیجے میں پولیس نے شدید آنسو کا گیس استعمال کیا۔ یہ واقعہ دو بڑی ٹیکسٹائل ملز کے پاس پیش آیا اور جب جلوس بڑا بورڈ پاک کالونی پہنچا تو پولیس نے فائرنگ شروع کردی جس میں آٹھ مزدور ہلاک ہوکر مزدور تحریک میں اپنا حصہ ڈال گئے۔

ارسلا خان لکھتا ہے ’’شہید ہونے والے مزدوروں میں زیادہ تر بنگالی مزدور شامل تھے جو ہوٹل کے پاس رہتے تھے اور کچھ لالوکھیت میں رہتے تھے۔ یکم مارچ 1963 سے لے کر 8 مارچ تک یہ ہڑتال کا مسلسل چلا۔ آخر کار حکومت نے مجبور ہوکر ریڈیو پاکستان کے آٹھ بجے رات کی خبروں میں یہ اعلان کردیا۔ تمام گرفتار قیدی رہا اور مزدور کو پورے تین روپے، جو پہلے دو یا سوا دو روپے تھے اور ہنرمند کی تنخواہ میں ایک روپے کا اضافہ ہوا اور 8 دن کی ہڑتال کے پیسے بھی مل مالکان نے ادا کیے۔

یکم مارچ 1963 کی تحریک چاچا علی جان کی قیادت میں کامیاب ہوئی۔ ارسلا خان لکھتے ہیں۔ اس تحریک کے بعد منگھوپیر میں کئی مزدور لیڈر پیدا ہوئے۔ SP لودھی، کنیز فاطمہ، عثمان بلوچ، باور خان، فیض اﷲ، کرامت علی، شفیع قریشی، میں نے کنیز فاطمہ کے ساتھ دو سال کام کیا اور شفیع قریشی کے ساتھ آٹھ سال کام کیا۔

ارسلا خان میرے ساتھ ایک گھنٹہ رہے، یہ وقت بہت اچھا گزرا، ایک بے لوث، مزدور کارکن کی باتیں، میرا قیمتی سرمایہ یہی میرا اعزاز ہے کہ ارسلا خان مجھ سے ملاقات کرنے آئے یہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے دنیا اچھی لگنے لگتی ہے اور زندہ رہنے کو جی چاہتا ہے۔

چاچا علی جان! تمہیں سرخ سلام، سرخ سلام

ارسلا خان! تمہیں سرخ سلام، سرخ سلام

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔