یہ میڈ ان امریکا جہاد تھا

زمرد نقوی  پير 19 مارچ 2018
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقعہ پر راجہ ظفرالحق کی ہار پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کیا خوب کہا کہ ضیاء الحق کا اوپننگ بیٹسمین ہار گیا۔ انھوں نے یہ کہہ کر کوزے میں سمندر کو بند ہی نہیں کیا بلکہ ستر اور اسی کی دہائی کی سازشی تاریخ کی پوری داستان ہی بیان کردی۔ وہ خون آلود داستان جس سے نئی نسل تو سرے سے ہی لاعلم ہے جب کہ پرانی نسل بھی اسے بھولتی جارہی ہے۔

ہمارے وزیر خارجہ خواجہ آصف کو ہی لے لیں جنھیں آج کل سچ بولنے کا جنون ہے ان کے ذریعے آج کی پاکستانی نسل کو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کی حقیقت پتہ چلتی ہے کہ یہ ’’میڈ ان امریکا جہاد‘‘ تھا۔

یہ حقیقت میں جہاد نہیں تھا بلکہ امریکی مفاد میں جہادی رنگ ہمارے مذہبی رہنماؤں اور حکمران طبقے نے دیا۔ اور یہ بھی کہ افغان مہاجرین ہمارے نہیں بلکہ امریکی مہمان ہیں جو امریکی زور زبردستی سے ہماری سرزمین پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ پتہ نہیں انھیں اتنا زیادہ سچ بولنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جب کہ ماضی میں اسی سچ کو پاکستانی عوام سے چھپایا گیا۔

حال ہی میں پاکستانی وزیر خارجہ نے قومی اسمبلی میں جو بیان دیا ضروری ہے کہ ہر پاکستانی اس کو پڑھے اور سمجھے کہ کس طرح ایک عالمی سامراجی طاقت نے پچھلی کئی دہائیوں سے اپنے مفادات کے لیے پاکستان کو اپنا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ اس سازش کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ آنے والا وقت آسان نہیں بلکہ ماضی سے زیادہ ہولناک ثابت ہوسکتا ہے۔

پاکستان مستقبل میں ہونے والی عالمی جنگ کا میدان بھی بن سکتا ہے۔ اس وقت کوئی چیز پاکستان کو بچا سکتی ہے تو وہ پاکستانی قوم کا اتحاد ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر پاکستانی رنگ ونسل زبان اور خاص طور پر مسلکی اختلاف کو پس پشت ڈال کر ملکی سالمیت کو پیش نظر رکھے۔ پاکستان کے لیے اگلے 6 ماہ بہت کٹھن ہیں۔ سیاسی بحران ایسی شکل اختیار کرسکتا ہے جس سے ملکی سالمیت زندگی موت کا شکار ہوسکتی ہے۔ اس طرح اندرونی بیرونی ملک دشمن قوتوں کی مراد برآسکتی ہے۔

پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی وابستگیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف اور صرف پاکستان کو ترجیح دیں۔ پاکستان ہے تو سیاست بھی ہے اور پسندیدہ سیاستدان بھی۔ خدانخواستہ پاکستان ہی نہ رہا تو کہاں کی سیاست کہاں کی جمہوریت۔ کیونکہ 1971ء کے بعد موجودہ پاکستان کو جو ماضی میں ٹوٹ چکا دوبارہ سے ٹوٹنے کا حقیقی خطرہ درپیش ہے۔ جس کو صرف پاکستانی عوام کا اتحاد ہی ناکام بناسکتا ہے۔ پاکستانی عوام اپنی ذمے داری پوری کریں۔

اس وقت ہر قسم کی سیاسی، مذہبی تقسیم سے بالاتر ہوجائیں۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کا قومی اسمبلی میں دیا ہوا بیان ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ایران، عراق، افغانستان، لیبیا اور شام کے بعد اب پاکستان عالمی طاقتوں کا اگلا ٹارگٹ ہے۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان میں امن پاکستان اور افغانستان کے عوام کی خواہش ہے۔ لیکن عالمی طاقتیں افغانستان میں امن ہرگز نہیں چاہتیں کیونکہ وہاں بدامنی کا موجود رہنا ہی ان کے مفادات کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ امریکا کی مسلط کردہ جنگوں کی وجہ سے صرف عراق اور شام میں کئی ملین لوگ مارے جاچکے ہیں جب کہ افغانستان، لیبیا، یمن اور ایران اس میں شامل نہیں ہیں۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایک سپرپاور امریکا افغانستان میں بیٹھی ہونے کے باوجود افغانستان میں ہیروئن کی پیداوار جمپ لگا کر 200 ٹن سے 9000 ٹن تک پہنچ جاتی ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں لڑا جانے والا امریکی جہاد اس رقم سے لڑا گیا جو پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہیروئن کی فروخت سے حاصل ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ ساری دنیا کو پتہ ہے کہ افغانستان میں داعش کو کون لے کر آیا ہے؟ پاکستانی وزیر خارجہ نے جو کچھ کہا اسے دنیا پہلے بھی جانتی تھی، سوائے پاکستانی سادہ لوح عوام کے۔ لیکن سرکاری سطح پر اس سچ کو آخر کار 40 سال بعد تسلیم کرلیا گیا لیکن کس قیمت پر کہ پاکستان کی کئی نسلیں تباہ ہوگئیں۔

مسلم امہ کا ورد ہم دن رات کرتے رہتے ہیں لیکن خود اس مسلم امہ کا کیا حال ہے خواجہ آصف بتاتے ہیں کہ مسلم امہ کا شیرازہ بکھیرا جارہا ہے اور مسلمان ممالک کے حکمران دشمنوں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ امت مسلمہ کو دشمنوں کی ضرورت نہیں کیونکہ مسلم ممالک کسی ایک مسئلے پر بھی متحد نہیں۔ جو کچھ شام، فلسطین، لیبیا، عراق میں ہورہا ہے وہ سب جانتے ہیں۔

ہمارا دشمن سمندر پار سے آکر شام، افغانستان اور دیگر ممالک میں خون کی ہولی کھیل رہا ہے اور مسلمان ممالک کے حکمران دشمنوں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا دشمن کون ہے اور ہمیں اپنے دشمن کے سہولت کار کو بھی ڈھونڈنا ہوگا۔

خواجہ آصف کے مطابق یہ بیان انتہائی المناک ہے کہ کوئی اور نہیں مسلم ممالک کے حکمران ہی مسلم امہ کے دشمنوں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ ان کو پہچاننا کوئی مشکل نہیں، اگر اپنی پسند و ناپسند سے بالاتر ہوکر سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ یہ وہی ہیں جو مسلم امہ کے مقدر سے کھیلتے ہوئے امریکا کی ہاں میں ہاں ملارہے ہیں۔ آخر میں پاکستانی وزیر خارجہ نے سچ بتانے میں کمال ہی کردیا۔

جب انھوں نے کہا کہ ہم نے میڈ ان امریکا جہاد کیا۔ نائن الیون کے بعد پھر وہی غلطی دہرائی جس کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں۔ کمال کا فقرہ کہا ۔خواجہ آصف نے کہا ہمارا دشمن سمندر پار سے آکر شام، افغانستان اور دیگر مسلم ممالک میں خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔ ہم نے میڈ ان امریکا جہاد لڑا اور جہادی بنائے۔ اگر ہم ماضی میں امریکا کے سامنے ہتھیار نہ ڈالتے اور ذاتی مفادات کے لیے سمجھوتے نہ کرتے تو امریکی جنگ پاکستان کے اندر نہ آتی۔

ماضی کے حکمرانوں کو حکمرانی اتنی عزیز تھی کہ انھوں نے اس کے لیے اپنے وطن کو بیچ دیا۔ سوچئے وطن سے غداری اور کسے کہتے ہیں۔ لیکن یہ وہ سچ ہے جس سے پاکستانی قوم کو بروقت آگاہی مستقبل قریب میں اس کے سب سے بڑے دشمن سے محفوظ رکھے گی۔

وضاحت:۔ مجھے بہت سے ٹیلیفون آئے جس میں بتایا گیا کہ لبنانی حزب اللہ کے سربراہ کا نام سید حسن نصراللہ ہے۔

سیل فون:۔ 0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔