مفتیِ اعظم مصر کی پاکستان آمد اور پیغامِ پاکستان

تنویر قیصر شاہد  پير 19 مارچ 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

نئی پاکستان مخالف امریکی دھمکی کو ایک طرف رکھئے لیکن امن کی خاطر پاکستان نے پشاور میں ’’جماعت الدعوۃ‘‘اور’’ فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن‘‘ کے دفاتر بند کر تے ہُوئے اس کے زیر انتظام مدارس و مساجد کو محکمہ اوقاف کے سپرد کر دیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ عالمی امن کے قیام اور استحکام کے لیے جتنا شاندار کردار پاکستان ادا کررہا ہے، شائد کوئی دوسرا ملک نہیں کر رہا۔ پاکستان نے قیامِ امن کے لیے بہت نقصان بھی اٹھایا ہے۔ جانی اور مالی، دونوں ہی۔ آج پاکستان کو اپنے اور غیر کئی گروہ، ممالک اور تنظیمیں مطعون کرتی ہیں کہ پاکستان نے اپنے مالی اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے اُس وقت امریکی’’کارندے‘‘ کا کردار ادا کیا تھا جب سوویت یونین نے افغانستان پر یلغار کی تھی۔ یہ 38 برس پرانی داستان ہے۔

پاکستان نے اگر جی جان سے افغانستان میں جارح سوویت رُوس کے خلاف عملی حصہ لیا تھا تو دراصل یہ بھی بحالیِ امن کی اپنی سی ایک ناتواں کوشش تھی۔ سوویت رُوس کی جارحیت سے جنوبی ایشیا کے امن کی بساط لپٹ گئی تھی۔ سُرخ آندھی سے ہم سب غیر محفوظ ہو گئے تھے؛ چنانچہ  پاکستان نے اگر اپنے قومی، سیاسی، سماجی، معاشی اور جغرافیائی تحفظ کے لیے امریکا کا بڑ ھا ہاتھ تھام لیاتھا تو یہ قطعی غیر اخلاقی اقدام نہیں تھا۔

امریکا کے بھی اس اعانت کاری میں یقیناً کئی عالمی مفادات جُڑے ہُوئے تھے۔آج ہمارے وزیر خارجہ، خواجہ آصف، جب یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے80ء کے عشرے میں ’’میڈ اِن امریکا‘‘ جہاد لڑا تو وہ سچ تو کہتے ہیں لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے۔ پورا سچ بیان کرنے میں خواجہ صاحب دانستہ ہچکچا رہے ہیں۔ اِس سچ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان نے اپنے ہمسایہ، برادر اور مسلمان ملک کو غیر ملکی جارحیت سے بچاتے بچاتے اپنا گھر جلا ڈالا۔

پاکستان اور پاکستانیوں نے آنکھیں بند کرکے، پورے اخلاص کے ساتھ، اخوت اورانصار کے لاتعداد عملی مظاہرے کیے لیکن آج بد قسمتی سے پاکستان کو اُسی ہمسایہ اور برادر مسلم ملک سے محبت،دوستی اور اخوت کے جذبات ملنے کے بجائے نفرت، غیریت، دشمنی، سازش اوربد امنی کے ’’تحائف‘‘ مل رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے برعکس بھارتی اور امریکی مفادات کا زیادہ پاسبان نظر آرہا ہے۔ اُس کا خفیہ ادارہ (این ڈی ایس) پاکستان مخالف قوتوں کا ساتھی بن چکا ہے۔

وہ ہمارے دشمنوں کو ’’کسی‘‘ کے کہنے پر پالتا، پوستا اور پرورش کرتا ہے۔ اور دشمنانِ پاکستان کی روٹیوں پر پلنے والے یہ عناصر پاکستان کاامن بلڈوز کرنے کی وقتاً فوقتاً اپنی سے کوشش کرکے روٹی ’’حلال‘‘ کرنے کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔ اس کے باوصف ہم مگر اس اسلامی،برادر ملک اور اُس کے شہریوں کا بُرا نہیں چاہتے کہ اسلامی اخوت کی یہی اساس ہے۔

اِس پیش منظر میں پاکستان کو اپنے ہاں امن کی جتنی ضرورت ہے، شائد کسی اور ملک کو نہیں۔ ہم نے تو حصولِ امن اور قیامِ امن کے لیے بیش بہا قربانیوں اور ایثار سے کام لیا ہے۔ ہماری قربانیوں کو مگرجس طرح تسلیم کیا جانا چاہیے تھا، نہیں تسلیم کیا گیا۔ نہیں مانا گیا۔

اب ہمارے اکثریتی علمائے کرام نے امن کے پھیلاؤ اور استحکام کی خاطر ’’پیغامِ پاکستان‘‘ نامی اجتماعی فتویٰ بھی لکھا ہے اور اپنے سارے مسلکی و فرقہ وارانہ امتیازات سے بلند ہو کر اِس پر محبت سے دستخط بھی کیے ہیں۔اِس اقدام کو قیامِ امن کی خاطر پاکستان کی اجتماعی  کامیابی کہا گیا ہے اور ساری دنیا میں اِس کی تقلید بھی کی جارہی ہے۔ افغانستان بھی اِس راہ پر گامزن ہے اور انڈونیشیا بھی۔

اگرچہ طالبان کے نام سے اِ س راہ میں کچھ عناصر نے کانٹے بکھیرنے کی نا مسعود کوشش بھی کی ہے لیکن یہ کوشش مسترد کر دی گئی ہے۔ امن مخالف کوششیں اسلام کی مبادیات سے متصادم ہیں۔ اکثریتی مسلمان بھی اِنہیں قبول نہیں کرتے۔ اسلام کے پُرسلامتی اور پُرامن چہرے کو ایسی نامسعود کوششوں سے ڈھانپا نہیں جا سکتا۔

’’پیغامِ پاکستان‘‘ کو اسلام آباد میں بروئے کار ایک معروف اسلامی یونیورسٹی خوبصورت کتابی شکل دے رہی ہے۔ اس کا مرکزی خیال اور خلاصہ یہی ہے کہ دہشتگردی اور دہشتگرد عناصر اسلامی معاشرے کو نا مطلوب ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب بھی کامل امن کا درس دیتی ہے اور اللہ کے آخری رسول حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی ساری حیاتِ طیبہ بھی امن ہی کا پیغام دیتی ہے۔

سرکارِ دوعالم کے ارشاداتِ گرامی کا ایک ایک لفظ قیامِ امن اور امن کے پھیلاؤ کا اعلان ہے۔ ریاستِ پاکستان کی سرپرستی اور دلچسپی سے ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کو کتابی شکل دی جارہی ہے تو اِس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان دراصل بانیانِ پاکستان کے آدرشوں ہی کو عملی شکل میں ڈھال رہا ہے۔

قائد اعظم علیہ رحمہ اور اُن کے قریبی ساتھیوں نے تو ہمیشہ یہی چاہا تھا کہ پاکستان کے سبھی ہمسایوں کے ساتھ ہمارے تعلقات پُرامن بھی رہیں، برادرانہ بھی اور ہر قسم کے عنادات سے پاک و مبرّا بھی۔ بہت سے نقصانات اور خساروں کے باوجود پاکستان نے قیامِ امن کا خواب دیکھنا بند نہیں کیا۔ رواں ہفتے اسلام آباد میں اِسی سلسلے کی ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ پاکستان اِس کی میزبانی کررہا ہے۔

مصر کے نامور عالمِ دین، محقق اور مفتیِ اعظم محترم ڈاکٹر شوقی ابراہیم عبدالکریم علّام اِس کانفرنس کی مرکزی شخصیت ہیں۔ اُنہی کا خطاب سارے عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کی نمایندگی بھی کرے گا اور اِس خطاب کا پُراثر پیغام دُور دُور تک بھی پہنچے گا۔ انشاء اللہ۔ ڈاکٹر شوقی صاحب کے علاوہ بھی کئی دیگر ممتاز غیر ملکی مسلم اسکالرز کو دعوت دی گئی ہے اور وہ پاکستان تشریف بھی لارہے ہیں۔

کانفرنس کا مقصد ومدعا ہی یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی حیاتِ مبارکہ کی روشنی میں رواداری ، تحمل اور برداشت کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اور یہ کہ رواداری اور تحمل کی بنیاد پر دہشتگردی اور دہشتگردوں کا استرداد کیا جا سکتا ہے۔

کانفرنس مذکور کے انعقاد کا ایک مقصد یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ پاکستان سمیت سارے عالمِ اسلام میں، دینِ اسلام کے دیے گئے اصول و ضوابط کی بنیاد پر، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے؟اور یہ بھی کہ نفرت پھیلانے اور مختلف سماجی حلقوں میں دُوریاں پیدا کرنے والے لٹریچر سے نجات کیونکر حاصل کی جاسکتی ہے اور اس میں ملک کے تمام صوبے کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟

وزارتِ مذہبی امور اِن مقاصد اور اہداف کے حصول میں بھاگ دوڑ کرتی نظر آرہی ہے۔ ویسے تو ہمارے وزیر مذہبی امور،سردار محمد یوسف، ایسے امور میں بھاگنے دوڑنے سے ہمیشہ گریز ہی کرتے ہیں لیکن اگر اب کسی کے اصرار سے وہ اِس مستحسن جانب آئے ہی ہیں تو ہماری دعا ہے کہ اُن کی مساعیِ جمیلہ کامیابیوں سے ہمکنار ہوں کہ یہ پیغامِ امن کسی فرد کا پیغام نہیں، بلکہ یہ پورے پاکستان کا پوری دنیا کو پیغام ہے۔

سادہ الفاظ میں’’پیغامِ پاکستان‘‘ یہ ہے کہ ہم امن کے ہامی ہیں اور دائرئہ امن کی وسعت چاہتے ہیں۔ ہم دہشتگردی کی تمام شکلوں سے اعراض اور نفرت کرتے ہیں۔ صرف زبانی کلامی نہیں، عملی بھی۔ ہمیں مگر دھچکا اُس وقت لگتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارا ہمسایہ بھارت، جسے ’’بڑا‘‘ ہونے کا بڑا زعم اور غرور ہے، ہماری امن کوششوں کو غارت کرنے کی سعی کرتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی مداخلت کرتا ہے اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی۔

مثال کے طور حالیہ ایام میں اُس کی اسلامی ملک ’’مالدیپ‘‘ میں حد سے بڑھتی ہُوئی مداخلت۔ بھارت آگے بڑھ کر مالدیپ پر کامل شکنجہ چاہتا ہے۔ چین بھی بھارت کی ان حرکات سے نالاں ہے۔ اُس نے سفارتی اور میڈیائی محاذ پر اُسے خبردار کرتے ہُوئے مالدیپ سے دُور رہنے کی وارننگ بھی دی ہے۔

چینی سرکاری اخبار ’’گلوبل ٹائمز‘‘ میں یہ انتباہ صاف نظر آتا ہے۔ پچھلے دنوں مالدیپ نے بھارتی واویلے کو نظر انداز کرتے ہُوئے چین کے تین جنگی بحری جہازوں کو اپنے ہاں لنگر انداز ہونے کی اجازت دی تو بھارت کو بڑی تکلیف پہنچی تھی۔ اندھی مخالفت میں بھارت نے پاکستان پر بھی گند اچھالنے کی ناتمام کوشش کی۔ چین پر تو بھارت کا بس نہ چلا لیکن اُس نے نئی دہلی میں پاکستانی سفارتکاروں کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ یہ اقدام دراصل پاکستان کے خلاف نئی بھارتی دہشتگردی ہے۔

عالمی سفارتکاری کے آداب و ضوابط کی بے حُرمتی۔ ویانا کنونشن کی پامالی بھی۔ پاکستان دل  سے امن چاہتا ہے مگر اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ نئی دہلی کے ہاتھوں اپنے سفارتی عملے کی بے عزتی بھی کروا لے۔پاکستان نے بھارت سے اپنا سفیر واپس بلا کر اور نئی دہلی میں WTO کانفرنس میں شریک نہ ہو کر ایک غیرتمندانہ فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھارت کے لیے یہ نیا پیغام ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔