صرف بائیس لاکھ کی چوری!

راؤ منظر حیات  پير 19 مارچ 2018
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

ماریشیس چھوٹا سا ملک ہے۔تیرہ لاکھ آبادی کے ملک میں سیاحت ہی سیاحت ہے۔مگرچنددن قبل اس چھوٹے سے ملک میں بالائی سطح پرایمانداری اورغیرمتعصب احتساب کی ایک ایسی شاندارمثال سامنے آئیکہ رشک آنے لگا۔ مثال عجیب سی بھی لگی،اسلیے کہ ہمارے عظیم ملک میں ایسی درخشاں مثالیں تقریباًنہ ہونے کے برابرہیں۔

سیاستدان اورمیری برادری یعنی سرکاری ملازم توخیرایسے ایسے سیاہ کارنامے انجام دیتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ہاں،ایک اورگزراش۔وثوق سے عرض کرسکتاہوں کہ کسی بھی دورکی حکومت کی کرپشن کے اصل اسکیل کا لوگوں کودو تین فیصد سے زیادہ ادراک نہیں۔کرپشن کابیشترحصہ آج تک اﷲ کے فضل وکرم سے باپردہ ہے۔ماریشیس کی بات ہورہی تھی۔اس کی صدرامینہ غوریب فاکم انتہائی تعلیم یافتہ خاتون ہے۔

برطانیہ کی ایکسٹریونیورسٹی سے کیمسٹری میں ڈاکٹریت حاصل کرنے کے بعدسیاست میں قدم رکھا۔یہ کوئی زیادہ دورکی بات نہیں۔تعلیم حاصل کرنے کے بعد1987ء میں واپس وطن آگئی۔افریقی براعظم میں اسے بے حدپذیرائی حاصل ہوئی۔ایک توخاتون ہونے کے ناطے اس نے ثابت کیاکہ کسی مردسے کم نہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے ماریشیس آنے کے بعدفاکم نے تعلیمی شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت پرزوردیا۔اس کے بعد سیاست میں آگئی۔

خیرمیدانِ سیاست کے معمولات بے حدپیچیدہ اورمختلف ہیں۔ فاکم2015ء میں ماریشیس کی صدرمنتخب ہوگئی۔اپنے خطے میں پہلی خاتون تھی جوصدربننے میں کامیاب ہوئی۔ 2015ء ہی میں ایک این جی اوسے وابستہ ہوئی تھی جو بنیادی طورپرافریقہ میں سائنسی تحقیق کوترقی دیناچاہتی تھی۔ برطانیہ میں تشکیل ہوئی اس این جی اوکانامPlanet Earthتھا۔تنظیم کابنیادی کام کیونکہ سائنس کوفروغ دینا تھا۔ادارے نے فاکم اوراپنے دیگرممبران کوکریڈٹ کارڈ جاری کیے تھے۔

مقصدصرف یہ کہ وہ جب بھی اس این جی او کے لیے سفرکریں،کسی ہوٹل میں قیام پذیرہوں،توان پرمالی بوجھ نہ ہو۔ یہ کارڈ2016ء میں جاری کیے گئے۔سب کچھ معمول کی بات تھی اورکسی قسم کاکوئی مسئلہ نہیں تھا۔دو برس قبل،فاکم بحیثیت صدردبئی گئی۔سرکاری دورہ کے اختتام پر چنددن چھٹیاں لیں۔واپسی پردبئی ائیرپورٹ پرڈیوٹی فری شاپ سے کچھ جیولری خریدلی۔

اس کے علاوہ ذاتی استعمال کی چنداوراشیاء مزیدلیں۔اس شاپنگ پرکچھ زیادہ پیسے خرچ نہیں ہوئے۔تقریباًاکیس ہزارامریکی ڈالرکابل بنا۔فاکم نے تمام ادائیگی اس کریڈٹ کارڈ سے کردی جو برطانوی این جی اونے جاری کیا تھا۔ امینہ کی جیب میں ایک ہی طرزکے دوکریڈٹ کارڈ موجود تھے۔امینہ کوخریداری کرتے وقت اس غلطی کااحساس نہیں ہوا۔خیرآرام سے اپنے ملک میں واپس آگئی۔

این جی اوکاسالانہ آڈٹ ہوا تومعلوم ہواکہ امینہ نے کریڈٹ کارڈسے یہ خریداری کی ہے۔یہ معاملہ کسی طرح ماریشیس کے میڈیا میں رپورٹ ہوگیا۔اس کے بعدکیا ہوا، تصورنہیں کیاجاسکتا۔پورے ملک میں فاکم پرتنقیدشروع ہوگئی۔اس کے خلاف مظاہرے ہونے لگے۔فاکم کو غلطی کا احساس ہواتوتمام رقم ادارے کے اکائونٹ میں واپس جمع کرادی۔اس کے وکیل نے ٹی وی پرآکرپریس کانفرنس کی۔

قوم کواعتمادمیں لیاکہ تمام رقم واپس کردی گئی ہے اورفاکم نے یہ سب کچھ غیردانستہ طورپرکیا تھا۔برطانیہ میں ادارے نے تصدیق کی کہ اکیس ہزارڈالرواپس جمع کرادیے گئے ہیں۔ مگرماریشیس میں یہ سوال اُٹھایاگیاکہ فاکم نے یہ سب کچھ جان بوجھ کر یہ رقم اپنے اوپرخرچ کی۔ اسے کوئی حق نہیں تھا کہ این جی او کے کریڈٹ کارڈکو ذاتی استعمال میں لاتی۔

چنددن پہلے ماریشیس کاوزیراعظم،اپنی خاتون صدرکے پاس گیا۔ اسے بتایاکہ عوام  میں  بہت غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ لہذااستعفٰی دینے پرغورکرناچاہیے۔فطری بات ہے کہ اس سطح پرمشورہ دینے کابھی ایک سلیقہ ہوتاہے۔ٹھیک دودن پہلے،فاکم نے قوم سے اپنی غلطی کی معافی مانگی اوراستعفیٰ دیدیا۔

پورے ملک نے چین کاسانس لیاکہ ایک کرپٹ صدرسے اس کی جان چھوٹ گئی ہے۔کیاآپ جانتے ہیں کہ فاکم پرکرپش کاحجم کتناتھا۔کرنسی نرخ کے مطابق یہ تمام کرپشن بائیس لاکھ پاکستانی روپے کے برابرتھی۔صرف اور صرف بائیس لاکھ۔یہ ایک زندہ معاشرے کی ایماندارانہ سیاست اوراچھی حکومت کی قابل تقلید مثال ہے۔

مجھے فاکم کااستعفیٰ عجیب لگا۔وجہ صرف یہ کہ جس خطے میں، میں سانس لے رہاہوں،وہاں سیاست، حکومت، ایوان اقتداراورطاقت کے کھیل میں مالی ایمانداری کی سیکڑوں سال سے کوئی مثال نہیں۔یا شائد بہت ہی کم ہیں۔خطے کالفظ اس لیے استعمال کیا،کہ ستربرس سے بہت پہلے بھی بہرحال کسی نہ کسی طرزکی حکومت موجودتھی۔

ہندوستان، پاکستان،بنگلہ دیش اورافغانستان اس پورے خطے میں شاذونادرہی غیر متعصب احتساب اور ایمانداری کی کوئی مثال ملے۔غیرمتعصب احتساب کا لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کررہا ہوں۔ اس لیے کہ غیرجانبدار احتساب اس خطے میں مکمل طورپراجنبی ہے۔

برصغیرمیں چانکیہ نام کاایک ہندوفلسفی تھا۔ایک ہزاربرس سے بھی پہلے اس فلسفی نے’’ارتھ شاستر‘‘ نام کی ایک شہرہ آفاق کتاب لکھی تھی۔حیرت کی بات ہے کہ پندرہ صدیاں قبل لکھی جانے والی کتاب میں برصغیرکے سرکاری عمال کی کرپشن اوربدعنوانی کاذکرہے۔چندرگپت موریاکے دربارمیں موجوداس فلسفی نے طرزِحکمرانی،حکومتی ناانصافی، معاشرتی بگاڑکاذکربڑے سچے اندازسے کیاہے۔اس کتاب کااردوترجمہ بھی موجودہے۔

اصل میں اسے سنسکرت میں لکھا گیاتھا۔پڑھنے سے ظاہرہوتاہے کہ اس خطے کا مقتدر طبقہ ہزاروں برس سے ذاتی فوائدحاصل کرنے کی دوڑمیں مصروفِ کارہے۔اخلاقیات یاکسی قسم کے مثبت عنصرکے بغیر،صرف اورصرف دولت کمانے کے عمل میں دیوانوں کی طرح جُتا ہوا ہے۔ایک اورتاریخی مثال دیناچاہتاہوں۔فرانسس برنیر (Francois Bernier)ایک فرانسیسی ڈاکٹرتھا۔سترویں صدی کی تین دہائیاں اسے برصغیرمیں گزارنے کاموقع  ملا۔معالج ہونے کی بدولت اسے شاہ جہان،اورنگ زیب اورداراشکوہ کے دربارمیں کام کرنے کاموقع ملا۔

فرانسس ایک بہترین معالج تھا،لہذااسے شاہی دربارکے علاوہ، بادشاہ اورامراء کے گھروں میں جانے کابھی اتفاق رہتا تھا۔ اس نے تیس برس برصغیرکے شاہی محلات، پوشیدہ کہانیاں، ریشہ دوانیاں اورسازشیں بذات خوددیکھیں۔ بعدازاں، ڈاکٹرنے برصغیرمیں مغلوں کے متعلق انتہائی خوبصورت کتاب لکھی۔اس میں تمام اہم شخصیات،ان کی عادات اور ذاتی رویوں پرسیرحاصل بات کی گئی ہے۔

مختصرعرض کرونگا کہ برصغیرمیں اقتداراورپیسے کے حصول میں نہ ماضی میں کوئی اعلیٰ اصول تھااورنہ آج ہے۔شاہ جہان کے دربارمیں امراء کے قصے،داراشکوہ اوراورنگ زیب کی باہمی لڑائیاں، اہم شخصیات کے اہل خانہ کی داستانیں بالکل ایسی ہی ہیں، جیسے آج کی بات ہو۔کئی بارتویہ گمان ہونے لگتاہے کہ برصغیر میں نئے ملک توبن گئے۔مگرفطرت اورعادات بعینہ ایسی ہی رہیں،جیسے صدیوں پہلے تھیں۔

فرانسس یہاں تک لکھتا ہے کہ یورپ کے بادشاہ اورامراء،برصغیرکے مقابلے میں بہت بہترہیں۔تاریخی تناظرمیں دیکھیے توایمانداری اور میرٹ کاہمارے پورے خطے سے کسی قسم کاکوئی تعلق نہیں رہا۔ ہاں،زبانی جمع خرچ میں ہم ہزاروں سال پہلے بھی کمال تھے اورآج کل بھی چرب زبانی اوراجتماعی دروغ گوئی میں اوجِ ثریاپرمامورہیں۔

عجیب سااحساس ہوتاہے کہ یہ سب کچھ اتناادنیٰ کیوں ہے۔ہم کردارکے اعتبارسے اتنے پست کیوں ہیں۔بالخصوص،جب اپنے مقتدرطبقے کودیکھتاہوں تو رنج ہوتاہے۔اتناجھوٹ،اتنی دروغ گوئی۔ ہمارے ہاں جو سیاسی رہنمااپنی پارسائی کی قسمیں کھاتے ہیں۔ یورپ اورامریکا میں ان کی ناجائزجائیدادوں کاسب کو علم ہے۔ برطانیہ اور امریکا کورہنے دیجیے۔دبئی اور فرانس جاکرکسی پاکستانی ٹیکسی ڈرائیورسے تھوڑا سا ذکر کیجیے۔

چشمِ زدن میں مقتدرطبقے کے محلات،ہوٹل اور پلازے گنوادیگا۔ اگروقت ہوتو آپکو دکھابھی دیگا۔ کمال ہے کہ مقتدر طبقہ ملک کی دولت لوٹ کر باہر لیجانے میں کسی قسم کی شرم محسوس نہیں کرتا۔اپنی ناجائز جائیدادکے سامنے کھڑے ہوکراخلاقیات پربھرپور لیکچر دیتا ہے۔ اس بے حیاء طبقے کوکون ٹھیک کریگا۔ کون ان کے مسلسل جھوٹ کو گرفت میں لیگا۔کوئی علم نہیں۔ ماریشیس کی سابقہ صدرفاکم معمولی سی کرپشن پرفارغ ہوچکی ہیں۔ انھیں پڑھانے کاشوق بھی ہے۔

میرا خیال ہے کہ فاکم کو پاکستان آکرایک سیاسی ٹیوشن سینٹر کھول لینا چاہیے۔ شائدمیں غلط کہہ رہاہوں۔ ہمارے سیاستدانوں کو افریقہ اوردیگر ممالک میں کوچنگ اکیڈمیاں کھول لینی چاہیے۔ ملک سے قومی دولت لوٹ کر یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور امریکا میں جائیدادیں خریدنے کی تربیت دینی چاہیے۔ پاکستانی ماہرین وہاں کرپشن کے نت نئے طریقوں پر حیرت انگیزفنی ٹریننگ دے سکتے ہیں۔ پوری دنیاکو اپنا مرید بناسکتے ہیں۔

فاکم تو بیوقوف تھی، کہ بائیس لاکھ کی چھوٹی سی کرپشن پر صدرکے عہدہ سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اسے مزید تربیت کی اَشدضرورت ہے۔ہمارے خطے اورملک سے بہتردرسگاہ کوئی اورنہیں ہے۔کرپشن کی عظیم ترین یونیورسٹی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔