مسلم ملکوں کی اقوام متحدہ

ظہیر اختر بیدری  پير 19 مارچ 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

مسلم ملکوں میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک نظر ڈالیں، ایک تباہی، ایک افراتفری، ایک بے اعتمادی،  ایک نہ ختم ہونے والی قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر طرف اقتدار کی شرمناک لڑائیاں دوسری طرف بھوک افلاس بیروزگاری کے ڈیرے تنے ہوئے ہیں۔ کوئی ایسی مرکزی قیادت نہیں جو اس افراتفری، اس بے اعتمادی اور اقتدار کی پاگلانہ لڑائیوں کو لگام دے سکے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ افراتفری خون خرابہ اور بے اعتمادی دنیا کے اور ملکوں میں بھی ہے لیکن جو بد ترین صورتحال مسلم ملکوں میں نظر آتی ہے اس کا کوئی جواب نہیں۔ مسلم ملکوں میں یقینی طور پر اہل علم بھی ہوں گے، اہل دانش بھی ہوں گے، فلاسفر بھی ہوں گے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔

مسلم دنیا سوائے عربوں کے زبوں حالی کا شکار ہے غربت مسلم ملکوں کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ بیشتر مسلم ملکوں میں یا تو براہ راست بادشاہی نظام قائم ہے یا پھر جمہوریت کے پردے میں باالواسطہ شاہی نظام قائم ہے۔ حکمران طبقات کو ملک و ملت کی کوئی پرواہ نہیں صرف دولت کے انبار جمع کرنے سے انھیں دلچسپی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 57 مسلم ملکوں میں آکسفورڈ جیسی ایک یونیورسٹی نہیں، ناسا جیسا ایک ادارہ نہیں، جو یونیورسٹیاں ہیں ان کے معیارکا حال یہ ہے کہ ان کی جاری کردہ ڈگریوں کو دنیا میں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ملازمتوں کے لیے بیرون ملک چلے گئے ہیں، کسی حکومت کو یہ توفیق نہیں کہ وہ ان اعلیٰ دماغوں اور مختلف شعبوں کے ماہرین کو وہ سہولتیں وہ معاوضے دے کر ملک واپس لائے اور ان کی خدمات سے فائدہ اٹھائے۔

سامراجی ملکوں کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت ہے۔ مسلم ملکوں میں سب سے زیادہ دولت مند ملک عرب ملک ہیں ان کی دولت کا مصرف مغربی ملکوں میں عیاشیاں ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کے 5 اسٹار ہوٹل ہمارے شہزادوں اور شاہوں کی عیش گاہیں ہیں جہاں اربوں ڈالر لٹائے جا رہے ہیں۔ کسی ایک عرب ملک نے جدید اسلحے کی کوئی انڈسٹری نہیں لگائی نہ اشیائے ضروریہ میں یہ ملک خودکفیل ہیں۔

جب مجھے سعودی عرب جانے کا موقعہ ملا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ عربوں کے گھروں میں پکانے کا رواج بہت کم ہے، تیل کی دولت کی فراوانی کی وجہ کھانے پینے کی اشیا حتیٰ کہ روٹی بھی باہر سے منگائی جاتی ہے۔ دکانیں مارکیٹیں، سپر اسٹور سب دوسرے ملکوں کی مصنوعات سے بھرے ہوئے ہیں۔

سامراجی ملکوں نے بڑے پیمانے پر عربوں کی دولت پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپ رکھا ہے۔ اسرائیل کے خوف سے عرب ملک جن میں سعودی عرب سرفہرست ہے مغربی ملکوں سے اربوں کھربوں ڈالر کا جدید اسلحہ خرید رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ یو اے ای سمیت کسی عرب ملک میں جدید اسلحہ سازی کی سرے سے کوئی صنعت ہی نہیں۔

عرب ملکوں میں بھی آکسفورڈ جیسا کوئی تعلیمی ادارہ ہے نہ ناسا جیسا خلائی تحقیق کا کوئی ادارہ ہے۔ سعودی عرب میں شاہی خاندان کی پکڑ دھکڑ کے دوران اربوں ڈالر نکالے گئے اور اس کرپشن کی دولت کے حصول کے بعد کئی عرب شہزادوں کو جنھیں کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا رہا کر دیا گیا۔ یہ وہ شرمناک صورتحال ہے جس کا فائدہ مغربی ملک اٹھا رہے ہیں۔

سعودی عرب کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تیل کی دولت ہے۔ تیل کی دولت کے بعد دوسرا انکم کا بڑا ذریعہ حج اور عمرہ ہے۔ حج اور عمرے کی آمدنی درحقیقت ساری دنیا کے مسلمانوں کی مشترکہ آمدنی ہے۔ اس آمدنی سے ایک تو عالمی سطح کے اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کیے جانے چاہیئیں اگر پسماندہ مسلم ملکوں میں مغربی ملکوں کے ہم پلہ اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں اور سائنس ٹیکنالوجی اور تحقیق کے شعبوں کی ترقی اور قیام کے لیے سعودی عرب فنڈنگ فراہم کرے تو ان پسماندہ مسلم ملکوں کی ترقی کا دروازہ کھل سکتا ہے۔ آج مغربی ملکوں کی ترقی میں اس کی برآمدات نہایت اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور برآمدات میں اضافے کی وجہ جدید طریقوں سے صنعتی اور زرعی پیداوار ہے۔

پاکستان مسلم ملکوں میں اس لیے منفرد مقام رکھتا ہے کہ یہ ایک ایٹمی ملک ہے بدقسمتی سے ہمارے رہنما ایٹمی ہتھیاروں کو بھی ترقی میں شمار کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی دنیا میں ایٹمی طاقت ہونا ایک بڑے کارنامے کی بات ہے لیکن ایٹمی ہتھیاروں کے خواہ کتنے بڑے ذخیرے بنا لیں معاشی ترقی کا ان ذخائر سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔

ایٹم بموں اور ایٹمی میزائلوں سے طاقت کے توازن کی احمقانہ تھیوریاں تو گھڑی جاتی ہیں لیکن کوئی احمق یہ بتانے کے لیے تیار نہیں کہ ایٹمی ہتھیار اگر استعمال ہوں تو دنیا کی تباہی کا ذریعہ تو بن سکتے ہیں ترقی کا ذریعہ ہر گز نہیں بن سکتے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ بھارت نے ایٹمی ہتھیار پہلے تیارکر کے پاکستان جیسے پسماندہ ملک کو بھی ترغیب فراہم کی کہ وہ بھی ایٹمی طاقت بن جائے جس کا نہ بھارت کو کوئی فائدہ ہوا نہ پاکستان کو۔

او آئی سی مسلم ملکوں کی اقوام متحدہ ہے بدقسمتی سے او آئی سی بھی اقوام متحدہ کی طرح بے مقصد اور ناکارہ ہے۔ آج تک او آئی سی کشمیر اور فلسطین جیسے مسلم ملکوں کے اہم ترین مسئلے بھی حل نہ کرا سکی۔ اسی طرح عرب لیگ بھی عربوں کے مسائل حل کرانے میں ناکام رہی۔ ایران واحد ملک ہے جو اسرائیل کی جارحیت کے خلاف ایک طاقتور ملک کی طرح کھڑا ہوا ہے۔

اگر عربی و عجمی جھگڑے کھڑے نہ کیے جاتے تو ایران اور عرب ممالک اسرائیل کے خلاف نا قابل تسخیر ملک بن جاتے لیکن تاریخ تاریخ کے کچرے دان میں عربی اور عجمی کا جھگڑا پڑا سڑ رہا ہے۔ او آئی سی اس حوالے سے بھی کوئی مصالحتی کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔

افغانستان، پاکستان کا پڑوسی اور مسلم ملک ہے لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ افغانستان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات دوستانہ ہونے کے بجائے دشمنانہ ہیں۔ کیا او آئی سی اس قابل بھی نہیں رہی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمیاں دورکر کے ان کے درمیان مخلصانہ دوست تعلقات قائم کرانے کی کوشش کرے۔

اس حوالے سے دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ عرب ملکوں میں اب تک شاہانہ نظام قائم ہے جو ماضی کی ایک فرسودہ روایت ہے۔ آج ساری دنیا میں جیسی بھی ہو جمہوریت رائج ہے۔ جمہوریت کیسی ہی لولی لنگڑی ہو شاہانہ خاندانی اقتدار کی لعنت سے تو بہتر ہوتی ہے۔ کیا او آئی سی نے مسلم ملکوں میں جہاں شاہی حکومتیں رائج ہیں جمہوری عوامی جمہوری نظام قائم کرنے کی کوشش کی؟

دہشتگردی ساری دنیا میں مسلم ممالک کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے۔ کیا او آئی سی نے مسلم ملکوں کی پیشانی سے اس کلنک کو نکالنے اور مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کی کامیاب کوشش کی۔ جب مسلم ملکوں کا ایک بھی مسئلہ حل نہ کر سکی تو اس کی ضرورت کیا رہ جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔