گرداب میں پھنسا معاشرہ

مقتدا منصور  پير 19 مارچ 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

سینئرسیاسی رہنما جاوید ہاشمی نے گزشتہ منگل کو ملتان پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران وہ باتیں کیں، جو متوشش شہریوں کے ذہنوں میں کافی عرصے سے گردش کررہی ہیں، لیکن اس کا برملا اظہارکرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ جاوید ہاشمی کوگمان ہے کہ نگران حکومت کے معاملے پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہوسکے گا۔

نتیجتاً یہ فریضہ سپریم کورٹ سرانجام دے گی۔ ان کی پیش گوئی ہے کہ نئی نگران حکومت کے قیام کے بعد نواز شریف اور مریم نواز سمیت مسلم لیگ(ن) کے کئی رہنماؤں کوحراست میں لیا جا سکتا ہے، جب کہ نگران حکومت کا دورانیہ بھی غیر معینہ ہوسکتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو سلسلہ ایم کیو ایم سے شروع ہوا، وہ مسلم لیگ(ن) سے ہوتا ہوا عمران خان اورآصف علی زرداری تک پہنچے گا۔ عمران خان کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے،کیونکہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آنے والا۔ انھوں نے طاقتور حلقوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آپ بالادست ہیںاور ہم زیر دست۔ مگر اس طرح ملک نہیں چلتے۔ ہم نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے کچھ نہیں سیکھا اور نہ سیکھنا چاہتے ہیں۔ جو کھیل آج کھیلا جارہاہے، وہ ملک کو تباہی کی جانب لے جانے کا باعث بن رہا ہے، مگر کسی کو اس کی پراہ نہیں ہے۔

پاکستان کی ستربرس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہاں روزاول سے جو ہوتا رہا ہے، اس میں سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ برابر کی شریک ہیں، اگر سیاسی جماعتوں نے کوتاہ بینی اور عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی اہم مواقعے پر فاش غلطیاں کی ہیں، تو وہیںاسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھنے کے بجائے انہی غلط فیصلوں اور اقدامات کو دہرانے پر اصرار کیا، جن کے باعث اسے ہر بار ہزیمت اٹھانا پڑی۔

ملک غلام محمد سے ایوب خان کے مارشل لا تک۔ ملک کے دولخت ہونے سے جنرل ضیا کے مارشل لا تک۔ 1988ء سے 1999ء کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچنے سے پرویز مشرف کی شخصی حکومت کی حمایت تک سیاسی جماعتیں دور اندیشی پر مبنی رویوں کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہیں، جب کہ اسٹیلشمنٹ کا معاملہ اس سے بھی بدتر رہا ہے۔

ماضی میں دور تک کیوں جائیں۔ 2013ء میں شروع کیے جانے والے کراچی آپریشن سے بات شروع کر لیتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے خلاف یہ دوسرا ریاستی آپریشن ہے۔1992ء میں جو کچھ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ ملک سے غداری اور جناح پور جیسے سنگین الزامات لگائے گئے، مگر نہ صرف ان الزامات کوکسی عدالت میں ثابت کیا جاسکا، بلکہ ایک اہم ریاستی افسر نے جلد ہی ان الزامات کی حقیقت کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا۔پھر وہی جماعت 2001ء کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا بن کر اقتدارکا حصہ بن گئی۔

2013ء میں ایک بار پھر وہی کھیل کھیلا گیا۔ اس مرتبہ بھی بانی ایم کیو ایم پر ملک دشمنی کے وہی الزامات عائدکیے گئے، جو 1992ء میں لگائے گئے تھے، مگر اس بار بھی ان کے شواہد کسی عدالت میں پیش کرنے سے اب تک گریز کیا جا رہا ہے۔اُس وقت ریاست کی زیر سرپرستی حقیقی گروپ بنا کر اسے زبردستی اربن سندھ پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب ایک نئی جماعت بناکر اس میں ڈرائی کلین فیکٹری لگا دی گئی ہے۔

ایم کیوایم کی پاکستان میں موجود قیادت کے اپنے بانی سے علیحدگی کے باوجود انھیں مختلف دھڑوں میں تقسیم کرنے کا کھیل جاری ہے۔ باخبر حلقوں کا خیال ہے کہ اس کھیل کا مقصد اربن سندھ کے مینڈیٹ کو تقسیم کرنا ہے، تاکہ اس شہر کو وفاق کے زیر اثر لاکر اس کے وسائل پرکنٹرول کیا جاسکے،  اس کھیل کو بچہ بچہ سمجھ رہا ہے، مگر مصلحتاً خاموش ہے۔

کراچی میں ہونے والے ماورائے آئین وعدالت اقدامات پر نہ مسلم لیگ (ن) اور نہ ہی پیپلز پارٹی نے کبھی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کرانے کی زحمت گوارا کی، بلکہ ماورائے عدالت اقدامات پر تحسین و آفرین کے ڈونگرے برسائے۔ اسی طرح شام 7بجے سے 12بجے تک ہر چینل پر بقراطیت جھاڑنے والے تجزیہ نگاروں کی پیشہ ورانہ جرأت بیدار ہوئی اور نہ ضمیر نے کروٹ بدلی کہ وہ ماورائے آئین و عدالت اقدامات پرتنقید کرتے۔ حالانکہ الزام تراشیاں کرتے وقت وہ شاہ سے زیادہ شاہ پرست بنے زمین آسمان ایک کررہے تھے۔

لیکن جیسے ہی ڈاکٹر عاصم حسین اور شرجیل میمن سمیت پیپلزپارٹی کے دیگر رہنماؤں تک اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ پہنچے تو پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین اس قدر ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے کہ انھوں نے ریاستی اداروں کی ’’اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کی دھمکی دیدی ۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار ڈاکٹر عاصم اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤ ں کی کرپشن کے بارے میں نت نئے انکشافات کرنے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت نہ صرف خاموش تماشائی بنی سب کچھ دیکھتی رہی، بلکہ ان اقدامات کو بڑھ چڑھ کر Justify بھی کرتی رہی۔

پھر کھیل کا دوسرا راؤنڈ شروع ہوا، جس میں پیپلز پارٹی سے وقتی طورپر صرف نظرکرتے ہوئے پوری توجہ مسلم لیگ (ن) پر مرکوز کردی گئی۔ اسے حالات کی ستم ظریفی کہیے یا تحریک انصاف میں سیاسی بلوغت کی کمی کہ وہ جس آصف زرداری کو ملک کی سب سے بڑی بیماری قرار دیتی تھی، سینیٹ چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخاب میں اسی کی ہم رکاب بننے پر مجبور ہو گئی۔

جاوید ہاشمی کے بقول کٹھ پتلیوں کے اس کھیل میں بچت کسی کی نہیں ہونے والی۔ جو کل بغلیں بجارہے تھے، آج آنسو بہار ہے ہیں۔ جو آج شادیانے بجارہے ہیں، کل ماتم کناں ہوں گے، جب کہ پیپلز پارٹی اس وقت اکبر الہ آبادی کے اس شعرکی تفسیر بنی ہوئی ہے کہ :

مچھلی نے ڈھیل پائی، لقمہ پہ شاد ہے

صیاد مطمئن ہے، کانٹا نگل گئی

میاں صاحب ووٹ کی توقیر کے لیے ہر جلسے میں نعرے لگوا رہے ہیں۔ ان سے مؤدبانہ سوال ہے کہ آیا صرف پنجاب کے ووٹروں کا ووٹ محترم ہے؟ کیا دوسرے صوبوں کے شہریوں کا ووٹ اہم نہیں ہے؟ اگر دوسرے صوبوں کے شہریوں کا ووٹ بھی قابل توقیر ہے، تو اربن  سندھ کے شہریوں کے ووٹ پر جب شب خون مارا جا  رہا تھا اور آج بھی اس کی تذلیل کی جا رہی ہے، تو انھیں ان ووٹوں کے تقدس کا خیال کیوں نہیں آ رہا؟

جب وہ وزیر اعظم تھے،توانھوں نے ماورائے آئین اقدامات کرنے والوں سے بحیثیت چیف ایگزیکٹو باز پرس کیوں نہیں کی؟ کیا اربن سندھ کے شہریوں کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں؟ شاید نہیں ہے،کیونکہ ایوب خان نے اربن سندھ کے لوگوں کے ساتھ جس معاندانہ رویے کا آغازکیا تھا، وہ آج تک جاری ہے۔

عرض ہے کہ یہ ملک سب کا ہے، بشرطیکہ طاقت کے زعم اور تعصب سے نکل کراس حقیقت کو سمجھ لیا جائے۔ اس لیے حب الوطنی اور ملک دشمنی کے سرٹیفیکٹ باٹنے کے بجائے سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر رضا ربانی کے گرینڈ ڈائیلاگ کے مشورے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے۔کیونکہ اس ملک کی بقا اسی میں ہے کہ ریاست کے تمام فیصلہ ساز حلقے اور سیاسی جماعتیں اپنی انا اور طاقت کے زعم سے باہر نکل کر ملک کے مستقبل کے ایک نکاتی ایجنڈے پر میز کے گرد بیٹھیں اور فیصلہ کریں کہ اس ملک کا اصل حاکم آئین اور اصل فیصلہ ساز ادارہ پارلیمان ہے۔ ہر ادارے کو اپنی پیشہ ورانہ اہلیت کے مطابق متعلقہ معاملہ کی فیصلہ سازی میں مشورہ دینے کا حق ضرور ہے، مگر مداخلت کااختیار نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔