ٹکراؤ کی پالیسی نقصان دہ؛ تمام اداروں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 19 مارچ 2018
عالمی سطح پر درپیش مسائل کے پیش نظر پاکستان کو مضبوط بنانا ہوگا، ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

عالمی سطح پر درپیش مسائل کے پیش نظر پاکستان کو مضبوط بنانا ہوگا، ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

پانامہ لیکس کے بعد سے شریف خاندان اور پاکستان مسلم لیگ (ن) مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔ حکومتی جماعت سینیٹ میں اکثریت رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپوزیشن اتحاد سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا معرکہ ہار گئی جسے اپ سیٹ قرار دیا جارہا ہے۔

تاریخ میں پہلی مرتبہ بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوا اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ایک آزاد امیدوار کو اپوزیشن جماعتوں نے ووٹ دیا جس کے بعد سے پاکستان مسلم لیگ(ن) کی جانب سے مختلف قسم کے الزامات لگائے جارہے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے اتحاد کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔

اس ساری صورتحال کے پیش نظر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’سینیٹ انتخابات اور مستقبل کی سیاست پر اس کے اثرات‘‘ کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ (سیاسی تجزیہ نگار )

1973ء کے آئین میں سینیٹ کے پاس قومی اسمبلی کے مقابلے میں کوئی خاص اختیارات نہیں تھے۔ 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں 8 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سینیٹ کو اختیارات ملے اورکسی بھی قسم کی قانون سازی کیلئے سینیٹ سے منظوری لازمی قرار دی گئی۔ سینیٹ کا سب سے اہم اختیار یہ ہے کہ وہ آئین میں ترمیم کرسکتی ہے مگر اس کیلئے دو تہائی اکثریت ضروری ہے۔سینیٹ کے انتخابات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں مگر ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ان انتخابات کو اتنی زیادہ اہمیت حاصل ہوئی ہے۔میاں محمد نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ مخالف رویہ رہا ہے اور موجودہ حالات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) سینیٹ میں اکثریت حاصل کرکے ایسی آئینی ترامیم لانا چاہتی تھی جن سے فوج اور عدلیہ کا کردار محدود کیا جاسکے۔ اس مقصد کیلئے مسلم لیگ (ن) سینیٹ انتخابات کا انتظار کررہی تھی ۔

اسٹیبلشمنٹ بھی اس سے آگاہ تھی کہ کیا ہونے جارہا ہے لہٰذا بلوچستان میں سیاسی تبدیلی سے ساری گیم پلٹ دی گئی لیکن اگر ایسا نہ ہوتا تو وہاں سے مسلم لیگ (ن) کو اچھی تعداد حاصل ہوتی۔ سینیٹ انتخابات میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ عمران خان نے سب سے بڑا یوٹرن لیا۔ آصف زرداری نے سمارٹ کارڈ کھیلا اوراس سارے کھیل میں حکومتی جماعت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جو میاں نواز شریف کی سیاست کیلئے سیٹ بیک ہے۔ سینیٹ کا سارا انتخابی عمل مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف کیلئے غیر متوقع تھا لیکن اب انہیں بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ عام انتخابات کی شکل کیا ہوگی یہی وجہ ہے کہ اب نواز شریف کا انداز جارحانہ ہے۔

رضاربانی کا موقف اسی لیے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے، میاں نواز شریف نے ان کا نام لیا، وہ چاہتے تھے کہ رضا ربانی پر اتفاق رائے ہوجائے کیونکہ ایسا ہونے سے ان کے لیے آسانی پیدا ہوسکتی تھی۔ نواز شریف کے خیال میں اب ایک ڈمی چیئرمین سینیٹ لایا گیا ہے جس سے اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کا کام لے سکتی ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ اب مارشل لاء لگانا ممکن نہیں ہے کیونکہ حالات بہت بدل چکے ہیں لہٰذا عام انتخابات وقت پر ہونگے۔

میرے نزدیک سینیٹ انتخابات آئندہ عام انتخابات کے لیے ماڈل ہے جس میں مسلم لیگ (ن) اقتدار میں نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل ہوگی بلکہ مختلف جماعتوں پر مشتمل ایک کمزور حکومت بنے گی۔ میرے نزدیک آنے والے دنوں میں مسلم لیگ (ن) کیلئے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔ پنجاب میں تحریک انصاف انہیں ٹف ٹائم دے گی جبکہ انتخابات کے قریب آنے والے عدالتی فیصلے نہ صرف مسلم لیگ (ن)کی مقبولیت کم کریں گے بلکہ یہ جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی۔ موجودہ مسائل بیڈ گورننس کی وجہ سے ہیں کیونکہ کسان، مزدور اور عام شہری کے مسائل حل نہیں ہوئے۔

ترکی میں بھی پہلے ایسے ہی مسائل تھے، وہاں 4 مارشل لاء لگے لیکن عوام نے فوج کا راستہ روکا کیونکہ ترکی کی موجودہ حکومت نے ڈیلور کیا۔ہمارے ملک میں لوگ کسی سیاسی لیڈر کیلئے باہر نکلیں گے ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ ابھی طیب اردوگان جیسا لیڈر یہاں نہیں ہے لہٰذا اب ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ڈیلور کرے اور لوگوں کے مسائل حل کرے۔ اگر ایسا ہوگیا تو پھر جمہوریت مضبوط ہو گی اور دیگر اداروں کا راستہ عوامی طاقت سے خود بخود بند ہوجائے گا ۔ اب ملک میں مارشل لاء نہیں لگ سکتا تاہم پیچھے رہ کر گیم کی جاسکتی ہے جو ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے۔ ہم جمہوریت کی بات تو کرتے ہیں مگر ہمارے رویے جمہوری نہیں ہیں بلکہ سیاسی جماعتوں میں بھی آمریت ہے۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک ہمارے رویے جمہوری نہیں ہوں گے تب تک ملک میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی۔ جمہویت گڈ گورننس سے مضبوط ہوتی ہے ۔ اس کیلئے بہترین نظام لوکل باڈیز کا ہے مگر انہوں نے اس نظام کو کمزور کیا اور بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات نہیں دیے۔ یہ تجاویز بھی سامنے آئیں کہ نئے صوبے بنا دیں تاکہ گورننس بہتر ہوسکے مگر ذاتی مفادات کی خاطر ایسا بھی نہیں کیا گیا جس کے باعث مسائل حل نہیں ہوئے۔ ہمیں ایسا سسٹم بنانے کی ضرورت ہے جو ڈیلور کرے اور عام آدمی کے مسائل حل ہوں، صرف اسی صورت میں ہی جمہویت کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں قیادت کا فقدان ہے لہٰذا نئی لیڈر شپ سامنے آنی چاہیے، امید ہے آنے والے وقت میں اچھی قیادت سامنے آئے گی جو عام آدمی کے مسائل حل کرے۔

ڈاکٹر ارم خالد (پروفیسر شعبہ سیاسیات جامعہ پنجاب )

پاکستان میں جمہوریت کو مختلف نام دیے جاتے رہے ہیں جن میں ’’کنٹرولڈ ڈیموکریسی‘‘ اور ’’کومپرومائزڈ ڈیموکریسی‘‘ شامل ہیں جبکہ موجودہ نظا م کو ’’ڈیزائنڈ ڈیموکریسی‘‘ کا نام دیا جارہا ہے۔ جمہوریت مجموعی رویوں کا نام ہے اس لیے میرے نزدیک انسانی معاشروں کو ڈیزائن کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے ۔پاکستانی معاشرہ اور ریاست مشکل دور سے گزر رہے ہیں ۔ معاشرتی مسائل زیادہ ہیں لیکن ریاست کی ان پر توجہ نہیں ہے۔ حالیہ معاملات ریاست اور معاشرے میں خلاء کی وجہ سے خراب ہیں جن کے بارے میں یہ خیال کیا جارہا ہے کہ کوئی سازش ہورہی ہے اور معاملات کسی کے اشاروں پر چل رہے ہیں۔

سینیٹ انتخابات کے حوالے سے خدشات کی وجہ سیاسی مسائل ہیں جن سے ملک اس وقت دوچار ہے۔ ایک جماعت کی قیادت نااہل ہوئی مگر وہ عدالتی فیصلہ ماننے کے بجائے ایک خاص بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے، احتجاج کے ذریعے معاشرے کو اکسایا جارہا ہے اور نواز شریف کی جانب سے ووٹ کی عزت کے نعرے لگائے جارہے ہیں جبکہ خود ان کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ کیا ان کی جماعت میں شہباز شریف کے علاوہ کوئی دوسرا رکن موجود نہیں تھا جسے جماعت کی سربراہی سونپ کر جمہوریت کو مضبوط کیا جاتا؟ اگر مسلم لیگ (ن) کا سربراہ کسی اور سینئر ممبر کو بنا کر موروثی سیاست کا خاتمہ کیا جاتا تو جمہوریت کی عزت ہوتی۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدان اپنے مقاصد کے لیے سیاست کرتے ہیں، یہی صورتحال ہمیں سینیٹ انتخابات میں بھی نظر آئی جس میں تمام طاقتوں نے اپنی اپنی گیم کھیلی۔ میرے نزدیک چیئرمین سینیٹ کے حوالے سے کمزور فیصلہ کیا گیا۔ اگر سینیٹ چیئرمین کیلئے بلوچستان سے کسی تجربہ کار سینئر سیاستدان کو آگے لایا جاتا تو اتنے اعتراضات نہ اٹھتے۔ چونکہ چیئرمین سینیٹ کا نام بہت سارے حلقوں کیلئے بالکل نیا ہے اس لیے اعتراضات کا موثر جواب ممکن نہیں ہے۔ صدر کے بعد سب سے اہم عہدہ چیئرمین سینیٹ کا ہوتا ہے، نئے چیئرمین کی عمر 45 سال سے کم ہے جبکہ صدر کی عمر کم از کم 45برس ہونی چاہیے، سوال یہ ہے کہ صدر کی غیر موجودگی میں ملکی معاملات کون چلائے گا؟

پاکستان کی سیاست میں وقتی طور پر بہت سارے مسائل سامنے آتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ان کی اہمیت کم ہوجاتی ہے اور پھر کسی اور مسئلے کو ہائی لائٹ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ دن بعد سینیٹ کے انتخابی نتائج کے بجائے آئندہ انتخابات کی باتیں ہوں گی جس میں عبوری حکومت کا قیام سب سے اہم ہوگا۔ سینیٹ انتخابات میں ہونے والی ڈویلپمنٹ پر بات کریں تو سوال یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا اتحاد وقتی ہے یا پھر یہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے اسی طرح آگے بڑھیں گے؟

ہمارے نظام میں شخصیات اہمیت رکھتی ہیں۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے قائدین کی سوچ مختلف ہے لہٰذا سینیٹ میں ہونے والا اتحاد زیادہ دیر چل نہیں سکے گا۔ 2007ء کے بعد سے پاکستان کے سیاسی ماحول میں تبدیلی آئی ہے۔ پاکستان اب اس دور سے نکل گیا ہے جس میں الیکشن وقت پر نہیں ہوتے تھے۔ اب جمہوریت سیدھے راستے پر گامزن ہے۔  وکلاء تحریک، میڈیا اور پھر پاکستان تحریک انصاف کی وجہ سے لوگوں میں سیاسی شعور بیدار ہوا ہے لہٰذا اب ادارے اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ سیاسی عمل کو ملتوی کرکے خود کو چیلنج کریں۔

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش (سیاسی تجزیہ نگار)

پاکستان کو شروع دن سے ہی اکائیوں میں آبادی کی عدم برابری کے مسئلے کا سامنا رہا ہے اور سینیٹ آف پاکستان اس کی عکاس ہے۔ 1956ء کے آئین میں بھی یہ مسئلہ رہا ۔ مغربی پاکستان کی چاروں اکائیوں کی آبادی، مشرقی پاکستان سے کم تھی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد جب 1973ء کے آئین کی تدوین کا مرحلہ آیا تو پھر یہی مسئلہ درپیش آیا کہ چاروں صوبوں میں پنجاب کی آبادی باقی تینوں صوبوں کے برابر تھی لہٰذا پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ مقننہ کے دو ایوان رکھے جائیں گے ، ایوان بالا میں چاروں صوبوں کو برابر نمائندگی دی جائے گی اور آبادی اس پر اثر انداز نہیں ہوگی۔

اس وقت خیال یہ تھا کہ چھوٹے صوبوں کی آواز کو توانا بنایا جائے گااور ایسی قانون سازی جس پر کسی صوبے کو اعتراض ہو، اسے روکا جاسکے گا۔ اس حوالے سے دیکھیں تو سینیٹ میں سنجیدہ اور قابل لوگ ہونے چاہئیں۔ سینیٹ میں بالواسطہ انتخاب ہوتا ہے جس کی وجہ سے مسائل درپیش رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سینیٹ کے طریقہ انتخاب میں جان بوجھ کر خلاء چھوڑا گیا ہے تاکہ بوقت ضرورت اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اس کا آسان ترین راستہ یہ تھا کہ جس اسمبلی میں جس جماعت کے جتنے ممبرز ہیں اس حساب سے اس کی نشستیں مقرر کردی جائیں۔ اپریل 2017ء سے سینیٹ کے حوالے سے معاملہ گرم ہونا شروع ہوا جب آصف علی زرداری نے یہ بیان دیا کہ مسلم لیگ (ن) کی نظر سینیٹ پر ہے لیکن ہم انہیں سینیٹ نہیں لینے دیں گے۔

اس وقت بہت سارے حلقوں نے ان کے بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیا مگر کچھ عرصے بعد اچانک بلوچستان میں سیاسی تبدیلی آگئی اور اس مرتبہ تبدیلی کا نعرہ عمران خان نہیں بلکہ آصف  زرداری نے لگایا جس میں سہولت کاری کے الزامات بھی لگے اور پھر وزیر اعلیٰ بلوچستان کو استعفیٰ دینا پڑا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) نے یہ کہا کہ اس عمل کا مقصد اسمبلی توڑ کر سینیٹ انتخابات ملتوی کروانا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی رائے یہ تھی کہ اسمبلی ٹوٹ بھی جائے تو سینیٹ الیکشن ہوگا۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں جب آزاد سینیٹرز اسمبلی میں آئے تو ایسا لگ رہا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب مشکل ہوگا۔

ان سارے معجزات پرمسلم لیگ (ن) نے الزام لگایا کہ ان کے خلاف صف آرائی کی گئی۔ جوڑ توڑ سیاسی عمل کا حصہ ہے مگر اس الیکشن میں جس طرح سے جوڑ توڑ ہوا وہ غیر فطری ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کو ایک ساتھ بٹھانے کی کوشش کی گئی مگر ناکام ہوہی جبکہ اب بلوچستان کے احساس محرومی کو بنیاد بنا کر ان دونوں مخالف جماعتوں کو اکٹھا کردیا گیااور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آزاد رکن چیئرمین سینیٹ منتخب ہوا۔ سیاسی جماعتیں جمہوری نظام کا بنیادی یونٹ ہوتی ہیں لہٰذا جب آزاد افراد کسی بڑے جمہوری ادارے میں منتخب ہوتے ہیں تو سوالات اٹھتے ہیں اورخصوصاََ اس وقت جب خود سیاسی جماعتیں ان امیدواروں کو منتخب کریں۔

بعض حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ عام انتخابات ملتوی ہوجائیں گے جبکہ یہ رائے بھی سامنے آرہی ہے کہ اب انتخابات ملتوی کرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا عام انتخابات وقت پر ہوں گے، ان میں جوڑ توڑ سامنے آئے گا اور نئے آلائنس بنیں گے۔ مسلم لیگ (ن)مشکل ترین حالات سے گزر رہی ہے۔ حالیہ صورتحال میں شطرنج کی چالیں چلی جارہی ہیں ، اس کھیل کا محور نواز شریف کی ذات ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس سسٹم میں اب نواز شریف اور مریم نواز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

حکومتی جماعت کو سینیٹ میں نشستیں لینے دی گئیں، ضمنی انتخابات میں بھی مداخلت نہیں ہوئی اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کو توڑنے کی کوشش کی گئی، میرے نزدیک یہ اشارے دیے جارہے ہیں کہ اگر نواز شریف خود کو سیاسی عمل سے الگ کر لیتے ہیں تو ان کی جماعت آگے بڑھ سکتی ہے اور انتخابات میں کامیاب بھی ہوسکتی ہے لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر ان کی جماعت کا بہت نقصان ہوگا۔

ایک بات واضح ہے کہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہونگے تاہم عبوری حکومت کے معاملے پر مسئلہ ہوسکتا ہے کہ وہ باہمی رضامندی سے بنے گی یا پھر اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن اور عدالت میں ہوگا۔ ایک اشارہ چیف جسٹس نے بھی دیا ہے کہ شفاف انتخابی عمل کیلئے بیوروکریسی کے تبادلے ہوں گے جس پر پنجاب کی بیوروکریسی پریشان ہے اور اب وہ شریف برادران کو زیادہ سپورٹ نہیں کرے گی۔ میرے نزدیک مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس طرح آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اگر نوازشریف خود کو الگ کر لیتے ہیں تو کچھ بہتری آسکتی ہے بصورت دیگر مارچ کے بعد سے معاملات تیزی سے تبدیل ہوں گے اور ان کے کیلئے مشکلات میں بے حد اضافہ ہوجائے گا جس کے بعد مسلم لیگ (ن) ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتی ہے۔

بیرسٹر محمد علی گیلانی ( چیئرمین ہیومن سیفٹی کمیشن آف پاکستان)

پاکستان اس خطے میںواقع ہے جہاںصدیوں تک شہنشاہ حکومت کرتے رہے جبکہ انگریز دور میں بھی یہاں بھی  یہاں ملکہ برطانیہ کی حکومت رہی ہے ۔ 1947ء میں یہ سلسلہ ٹوٹا اور پہلی مرتبہ جمہویت کا تجربہ کیا گیا جو چند برس میں ہی ناکام ہوگیا ۔ ہماری افواج اور ایجنسیاں انتہائی قابل ہیں اور وطن عزیز پر مصیبت آنے سے پہلے ہی اس کا سدباب کرلیتی ہیں۔ جب بھی عالمی سازشیں ہوئیں تو ملک میں فوجی حکومت آگئی۔ افغانستان میں روس کے حملے سے پہلے ہی پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت آچکی تھی۔ اسی طرح 9/11 کے واقعہ سے قبل جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت تھی۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں ایک جنونی امریکی صدر ہے جو مسلمانوں پر اپنا زور آزما رہا ہے اور پاکستان اس کی ’’ہٹ لسٹ‘‘ پر ہے۔ پاکستانی افواج اور ایجنسیوں کو اس کا ادراک ہے کہ امریکا یہاں کوئی تجربہ ضرور کرے گا لہٰذا اب ایسی حکومت کی ضرورت ہے جواداروں کے ساتھ چلے۔ پاکستان میں حالات تبدیل ہوچکے ہیں اور اب مارشل لاء نہیں لگایا جاسکتا۔ عالمی سطح پر پاکستان کو درپیش مسائل سے نبرد آزما ہونے اور ایک مضبوط پاکستان کیلئے ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ٹکراؤ کی طرف نہ جائے بلکہ تمام اداروں کے ساتھ باہم رضامندی سے کام کرے۔

سینیٹ انتخابات بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے شروع ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں پہلے حکومت تبدیل کی گئی، پھر نیاوزیراعلیٰ بنا اور آزاد امیداوار سامنے آئے جو کسی بھی طور معجزہ نہیں ہے۔ اس کے بعد فاٹا کے لوگوں کو اہمیت دی گئی جبکہ خیبر پختونخوا سے منتخب ہونے والے تمام سینیٹرز نے بلوچستان کے امیدوار کو ووٹ دیکر چیئرمین منتخب کیا۔ سینیٹ انتخابات کی صورت میں جو نقشہ سامنے آیا ہے میرے نزدیک یہ آئندہ انتخابات کا منصوبہ ہے۔ بلوچستان کو چیئرمین سینیٹ دے کر خاموش کروادیا گیا۔ عام انتخابات میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی بلکہ آزاد امیدواروں کی تعداد زیادہ ہوگی اور کسی بھی جماعت کا بڑا لیڈر انتخاب جیت کر وزیراعظم بننے کے قابل نہیں ہوگا۔

بے نظیر بھٹو کے بعد سندھ سے کوئی وزیراعظم نہیں بنا لہٰذا اگلا وزیراعظم سندھ سے ہوگا۔ انتخابات کے بعد آزاد امیدوار اور سینیٹ میں اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتیں یہ نعرہ بلند کریں گی چونکہ کافی عرصہ سے سندھ سے کوئی وزیراعظم نہیں بنا لہٰذا اب سندھ سے وزیراعظم ہونا چاہیے اور پھر ایسا امیدوار سامنے آئے گا جو قابل قبول ہوگا۔ نواز شریف جیسی مضبوط شخصیت کی ملکی سیاست میں ناکامی ، حکومت کے بعد جماعت سے بھی چھٹی آئندہ آنے والوں کے لیے مثال ہوگی کہ وہ ٹکراؤ کی طرف نہ جائیں۔ عام انتخابات وقت پر ہوں گے، غیر معروف شخص وزیراعظم بنے گا اورایسی قیادت سامنے آئے گی جو ملکی مفاد میں بہتر ہوگی اور ٹکراؤ کی طرف نہیں جائے گی تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں درپیش چیلنج سے نمٹا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔