پاکستان سپرلیگ؛ استحکام اور مقبولیت کے سفر پر

محمد سعید رفیق  منگل 20 مارچ 2018
ہمیں اس پر فخر ہے کہ نامساعد حالات کے باوجود پی ایس ایل وقت کے ساتھ ساتھ انتہائی شاندار ثابت ہورہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہمیں اس پر فخر ہے کہ نامساعد حالات کے باوجود پی ایس ایل وقت کے ساتھ ساتھ انتہائی شاندار ثابت ہورہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

تیسری پاکستان سپر لیگ کے مقابلے 3 فروری سے پوری آن بان شان کے ساتھ متحدہ عرب امارات میں جاری رہنے کے بعد آج سے لاہور میں شروع ہوں گے اور اس بار فائنل کراچی میں کھیلا جائے گا۔ اس سے قطع نظر کہ موجودہ سیزن کا فاتح کون ہوگا، اس بار پی ایس ایل کے رنگ ہی جدا ہیں۔ پہلے سے زیادہ ٹیمیں، انعامی رقم میں اضافہ اور انداز بھی جدا۔ شوبز ستاروں سے لے کر کرکٹ لیجنڈز تک معروف شخصیات کی بڑی تعداد اسٹیڈیم میں رونق افروز ہے۔

پی ایس ایل کی ہر فرنچائز نے شوبز سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کواپنا سفیر بھی مقرر کر رکھا ہے۔ کرکٹ ٹیموں کی دبئی آمد سے لیکر افتتاحی تقریب اور میچز کے انعقاد تک سبھی کچھ لاجوا ب ہوا۔ البتہ کمی ہے تو صرف اسٹیڈیمز میں تماشائیوں کی، جس کی وجہ ظاہر ہے کہ کسی دوسرے ملک میں لیگ کا انعقاد ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ بہرحال وہ دن بھی دور نہیں جب پاکستان سپر لیگ کے مقابلوں کا انعقاد پاکستان کی ہوم گراؤنڈز پر ہوگا اور مقامی اسٹیڈیم تماشائیوں سے کھچاکھچ بھرے نظر آئیں گے، ان شاء اللہ۔

دنیا میں کرکٹ لیگ مقابلوں کی شروعات انڈین پریمیئر لیگ سے 2008 میں ہوئی، جس کا موازنہ آج عالمی سطح کی اسپورٹس لیگز مثلاً این اے بی امریکا اورپریمیئر لیگ برطانیہ سے کیا جارہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ انڈین پریمیئر لیگ کو کرکٹ کےلیے بھارت میں پائے جانے والے جنون اور ایک بڑی مارکیٹ کی دستیابی نے غیرمعمولی کامیابی بخشی، جس کے بعد کرکٹ کھیلنے والے دیگر ممالک میں بھی کرکٹ کے فروغ اور مالی فائدے کےلیے لیگ کرکٹ کا سلسلہ شروع ہو۔ پہلے بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز، سری لنکا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا میں مقامی سطح پر کرکٹ لیگز منظم کی گئیں، جن میں سے سری لنکن پریمیئر لیگ 2012 میں ایک ایونٹ کے بعد سے التوا کا شکار ہے۔

گزشتہ سال جنوبی افریقہ کی گلوبل کرکٹ لیگ کا زور و شور سے اعلان کیا گیا مگر پہلے ہی سال اسپانسر نہ ملنے پر ملتوی کردی گئی، البتہ بنگلہ دیش پریمیئر لیگ اور کیریبین لیگ، جارجی پائی سپر اسمیش اور بگ بیش کا سفر جاری ہے۔

2016 میں پہلے سیزن کے آغاز پر پی ایس ایل کی تمام پانچ ٹیموں کی بولی 93 ملین ڈالر رہی۔ فی ٹیم اوسط مالیت 18.5ملین ڈالر رہی۔

اگر پی ایس ایل کا دوسری لیگز سے موازنہ کیا جائے تو بی پی ایل کے پہلے ٹیم آکشن میں کل 6.49 ملین وصول ہوئے، اوسطاً ایک ٹیم کی مالیت صرف 1.908 ملین ڈالر رہی۔ سری لنکا کی پریمیئر لیگ کی ٹیمیں ٹوٹل 30.15 ملین ڈالرمیں فروخت ہوئیں، اوسطاً ایک ٹیم 4.3 ملین ڈالر میں بکی۔ دوسری جانب 2010 میں آئی پی ایل کی صرف پونے واریئرز ہی 370 ملین ڈالرز میں فروخت ہوئی۔ اس سے قبل 2008 میں ہونے والے پہلے ٹیم آکشن میں فروخت ہونے والی 8 ٹیموں کی مالیت 723.5 ملین ڈالر وصول ہوئی۔ واضح رہے کہ آئی پی ایل نے فرنچائز کے مالکانہ حقوق تاحیات بنیادوں پر جاری کیے ہیں مگر پی ایس ایل کی جانب سے مالکانہ حقوق صرف 10 سال کےلیے دیئے گئے۔

اگر حساب لگایا جائے اور صرف تیسرے سیزن میں چھٹی ٹیم ’’ملتان سلطانز‘‘ کی 41.5 ملین ڈالرز کی غیرمعمولی بولی کو مدنظر رکھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پی ایس ایل 10 سالہ مدت کی تکمیل پر دوبارہ آکشن میں آئی پی ایل ٹیموں کی ابتدائی قیمت کا ہمالیہ عبور نہ کرسکے۔

پاکستان سپر لیگ کے آغاز پر ناقدین کی جانب سے آخری وقت تک شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا۔ جہاں غیرملکی وینیوسے لیکر پلیئرز مارکیٹ سے سستی خریداری کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، وہیں اسپانسرز کی جانب سے نام نہاد بے توجہی کے خدشات کا بھی اظہار ہوا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کم مگر حوصلہ افزا منافع سے آغاز کرنے والی پی ایس ایل اپنے تیسرے سیزن میں ہی دنیائے کرکٹ کی دوسری بڑی لیگ بن چکی ہے۔ ملتان سلطانز کی اچھی قیمت پر فروخت نے روشن مسقتبل کی نوید سنادی ہے۔ تیسرے سیزن میں پی سی بی نے ٹورنامنٹ کی پرائز منی اور میچز کی تعداد میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ پہلے دو سال ایک ملین ڈالر پرائز منی کے بعد اس بار انعامی رقم 3ملین ڈالر رکھی گئی جو آئی پی ایل کے بعد عالمی کرکٹ لیگز میں سب سے زیادہ ہے۔

آئی پی ایل نے 2008 میں پہلے سیزن میں انعامی رقم ایک ملین ڈالر رکھی جو آج دس سال بعد 6 ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کی پرائز منی تیسرے سیشن میں 1.5 ملین ڈالر ہوئی، جس میں سے فاتح ٹیم کےلیے 0.7 ملین ڈالر ہیں۔ کیریبین لیگ میں پرائز منی ایک ملین ڈالر کے گرد گھوم رہی ہے۔ بگ بیش میں انعامی رقم رواں سال بڑھ کر 0.89 ملین ڈالر کردی گئی ہے۔

آئی پی ایل اور پی ایس ایل میں مارکیٹ کے حجم اور دستیاب مواقع میں واضح فرق کے باوجود پاکستان سپر لیگ کا ایک کامیاب لیگ کے طورپر شمار ہی بڑی کامیابی ہے۔ اگر دونوں لیگز کے بر اڈکاسٹنگ حقوق کی فروخت کا جائزہ لیا جائے تو بظاہر بڑا فرق نظر آتا ہے، مگر بین السطور حقائق قطعی مایوس کن نہیں۔

انڈین پریمئئر لیگ نے آئندہ 5 سال کےلیے براڈکاسٹنگ رائٹس 2.55 بلین ڈالر سالانہ کی بنیاد پر فروخت کیے جبکہ 2016 میں نوزائیدہ پی ایس ایل نے تین سال کےلیے براڈ کاسٹنگ رائٹس 60 ملین ڈالرمیں دیئے۔ 2008 میں لیگ کے آغاز پر آئی پی ایل نے سونی انٹرٹینمنٹ کو براڈکاسٹنگ رائٹس 10 سال کےلیے 908 ملین ڈالر میں فروخت کیے تھے۔ دونوں لیگز کے مارکیٹ حجم کا جائزہ لیا جائے تو پی ایس ایل کی براڈ کاسٹنگ ڈیل کو کسی حد تک پر کشش کہا جاسکتا ہے۔

آئی پی ایل کے ٹی وی اشتہارات کسی بھی دوسرے ایونٹ کے مقابلے میں 250 فیصد زیادہ منفعت بخش ہوتے ہیں جبکہ ذرائع ابلاغ میں گردش کرتی خبروں کے مطابق دوسرے پی ایس ایل سیزن میں اشتہاری انڈسٹری نے 26 ارب روپے کا کاروبار کیا۔ آئی پی ایل کے 47روز سیزن میں 60 میچز کھیلے جاتے ہیں جبکہ 6 ٹیموں پر مشتمل پی ایس ایل کے 25 روزہ بیرون ملک سیزن میں صرف 34میچز، فرق صاف ظاہر ہے۔

پی سی بی پی ایس ایل کے بیرون ملک انعقاد پر زائد اخراجات بھگتنے اور تماشائیوں سے خالی اسٹیڈیمز کے باوجود دوسرے سیزن میں 2.6 ملین ڈالر کمانے میں کامیاب رہا، مقابلے میں بی سی سی آئی آئی پی ایل سے ایک سیزن میں 600 ملین ڈالر کمارہا ہے جو بہرحال غیرمعمولی ہے، جو اس کے ایک ورلڈ کلاس لیگ ہونے کی گواہی بھی ہے۔ آئی پی ایل کی کاروباری وسعت کا اندازہ یوں بھی لگاسکتے ہیں کہ فیس بک گزشتہ سال 600 ملین ڈالر کی پیشکش کے باوجود آئی پی ایل کے ڈیجیٹل حقوق حاصل کرنے سے محروم رہا، حالانکہ تین سال قبل ڈیجیٹل رائٹس محض 45 ملین ڈالر میں فروخت کیے گئے تھے۔

میچ فکسنگ اور کرپشن تنازعات کے باوجود آئی پی ایل کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ 2015 میں میچ فکسنگ الزامات سے لیگ کے گہنائے جانے پر پیپسی کولا انٹرنیشنل ٹائٹل اسپانسرشپ سے باہر آگیا مگر آئی پی ایل نے چند ہی دنوں میں نیا اسپانسر ڈھونڈ نکالا۔

چینی موبائل کمپنی نے پہلے کے مقابلے میں 554 فیصد زائد پر نئی ڈیل کی، جس کے تحت 340 ملین ڈالر کے عوض 2022 تک ایونٹ ’’آئی پی ایل ویوو (vivo) ٹائٹل‘‘ کہلائے گا۔ آئی پی ایل میں شریک بڑی ٹیموں کے پاس بھی اسپانسرز کی کمی نہیں، ہر فرنچائز ٹیم 20 سے 25 اسپانسر سے 5 تا 7 ملین ڈالر کی آمدنی حاصل کر رہی ہے۔

تینوں ایونٹس کےلیے کھلاڑیوں کی خرید و فروخت کا جائزہ لیا جائے تو یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ دستیاب مارکیٹ سے اچھی قیمت پر اچھی خریداری کی گئی۔ فرسٹ کیٹگری میں پی ایس ایل نے ایک لاکھ 40 ہزار ڈالر کے عوض دنیا کے صف اول کے کھلاڑیوں کو ایونٹ کھیلنے کی پیشکش کی۔ دوسری جانب 2008 میں آئی پی ایل نے فرسٹ کیٹگری میں شامل کھلاڑیوں کی زیادہ سے زیادہ بولی 4 لاکھ ڈالر لگائی۔ پی ایس ایل کے پہلے سیزن میں ہر ٹیم کو کم از کم 8 میچز کھیلنا تھے جبکہ آئی پی ایل کے پہلے سیزن میں ہر ٹیم کے حصے میں 14میچز تھے۔ کوئی شک نہیں کہ دس سال بعد آج آئی پی ایل کے معاوضوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے، البتہ باقی تمام لیگز کے مقابلے میں پی ایس ایل کے معاوضوں کو کہیں زیادہ پرکشش کہا جاسکتا۔

زیرنظر بلاگ میں ایسا کہیں نہیں کہ پی ایس ایل کی چاہ میں آئی پی ایل اور دوسری کرکٹ لیگز کی اہمیت اور کامیابیوں کو گہنایا جارہا ہے، البتہ یہ کوشش ضرور کی ہے کہ ہم وطنوں کو پی ایس ایل کی کم ترین عرصے میں غیرمعمولی کامیابی اور روشن مستقبل سے متعلق آگاہ کیا جاسکے۔ بلاشبہ 5 بلین ڈالر مالیت کی انڈین پریمیئر لیگ، مدر آف کرکٹ لیگز ہے جس کا انعقاد انڈین جی ڈی پی میں قابل قدر حد تک اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ مگر ہمیں فخر ہے تو اس بات پر کہ نامساعد حالات کے باوجود پی ایس ایل وقت کے ساتھ ساتھ انتہائی شاندار ثابت ہو رہا ہے۔

امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ ایونٹ میں جب تمام میچز کا انعقاد پاکستان میں ہوگا تو کامیابی کے مزید رنگ نکھر کر سامنے آئیں گے، ان شاء اللہ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔