مراثی کبھی چوہدری نہیں بن سکتا

حسن اعظم  بدھ 21 مارچ 2018
مراثی کے چوہدری نہ بننے کی مثال سب سے زیادہ مشاہد اللہ صاحب اور ان جیسے لاتعداد کاسہ لیسوں پر صادق آتی ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

مراثی کے چوہدری نہ بننے کی مثال سب سے زیادہ مشاہد اللہ صاحب اور ان جیسے لاتعداد کاسہ لیسوں پر صادق آتی ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے سیکریٹری اطلاعات اور وفاقی وزیر برائے ماحولیات جناب مشاہد اللہ خان نے گزشتہ دنوں ایک نجی چینل (سماء، مؤرخہ 3 مارچ 2018) پر دیئے گئے ایک انٹرویو میں جوش خطابت اور معزول وزیراعظم نواز شریف کی مدحت میں چُور چُور ہو کر فرمایا: ’’چاہے سار اگاؤں مرجائے، پر مراثی کبھی چوہدری نہیں بن سکتا۔‘‘ موصوف نے یہ ریمارکس خاتون اینکر پرسن کے اس استفسار پر دیئے کہ موجودہ حالات میں ملک کے آئندہ وزیراعظم جناب عمران خان ہوسکتے ہیں یا نہیں۔

مشاہد اللہ خان صاحب نے نواز شریف کی ستائش اور اُن کے خاندان کی مدح سرائی میں محض یہاں تک موقوف نہیں کیا بلکہ اس کے بعد انہوں نے باقاعدہ اپنی جسمانی حرکات و سکنات سے چوہدری صاحب کے نہایت کرّوفر سے اپنے گاؤں میں چلنے پھرنے اور گاؤں کی رعیت کو چوہدری صاحب کو اپنے سامنے آجانے پر جھک جانے کی اداکاری بھی کرکے دکھائی جو ناظرین کے لئے یقیناً ان کی گوناگوں صلاحیتوں کا ایک نیا پہلو تھا۔

مشاہد اللہ صاحب اپنے تئیں ایک کہنہ مشق سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنی عملی سیاست کا آغاز پی آئی اے ایمپلائز یونین کے ایک دائیں بازو کے دھڑے بنام ’’پیاسی‘‘ سے 70 کی دہائی میں کیا تھا۔ موصوف اس کے بعد ایک طویل عرصے سے مسلم لیگ (نواز) سے وابستہ ہیں اور اس دوران ایک سے زیادہ مرتبہ اس کے سیکریٹری اطلاعات اور وفاقی وزارت کے مزے لوٹ چکے ہیں۔

مشاہد اللہ صاحب اگرچہ ایک کہنہ مشق خطیب ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ جب بات نواز شریف اور ان کے خاندان کی مدح سرائی کی ہو تو ان کے اندر کا درباری پن اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ اور یہی وہ فن ہے جس کی بدولت وہ نہ صرف ایک سے زیادہ مرتبہ پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات اور وفاقی وزارت کے عہدے پر تعین رہ چکے ہیں بلکہ محض اسی فن کی بدولت وہ اپنی صاحبزادی کو خواتین کے لئے مختص نشستوں پر رکن قومی اسمبلی اور اپنے دو بھائیوں کو بیرون ملک پی آئی اے کے اسٹیشن مینیجر کی انتہائی پُرکشش اسامیوں پر تعینات کروانے میں بھی کامیاب ہوچکے ہیں۔

مزید برأں گزشتہ برسوں میں بیرون ملک علاج کے نام پر ملکی خزانے کے لاکھوں روپے اپنی ذات پر خرچ کروا چکے ہیں۔

یاد رہے کہ جب جنرل مشرف نے ناسازئ طبع کے نام پر ملک سے باہر علاج کی درخواست کی تو مشاہد اللہ صاحب اور ان کے ہمنوا چراغ پا ہوگئے تھے کیونکہ ان کے نزدیک وطنِ عزیز میں ہر طرح کی بیماری کا تشفی بخش علاج ممکن تھا۔

اگرچہ مشاہد اللہ صاحب کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار، بسا اوقات شومئی قسمت راس نہیں آتا جس کی مثال 2015 میں اُن کی وفاقی وزارت سے جبری معزولی تھی اور وہ بھی اُس وقت جب وہ بیرون ملک سرکاری دورے پر تھے۔ یاد رہے کہ اُن کی معزولی پاک فوج اور اس کے ماتحت ایک حساس ادارے پر الزامات کی بوچھاڑ کا نتیجہ تھی۔

اغلب خیال تھا کہ مشاہد اللہ صاحب اپنی اس معزولی اور اُس سے جڑی جگ ہنسائی پر حکومت وقت اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے پر زور احتجاج کریں گے لیکن نواز شریف کی لاتعداد عنایات، جو ان کی مدح سرائی اور چاپلوسی کے فن کا انعام تھیں، اُن کے پاؤں کی بیڑیاں بنیں رہیں اور موصوف ’’پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ‘‘ کے مصداق ایک نئے جذبے اور حوصلہ مندی سے شریف خاندان کے قصیدے گانے میں کچھ اس طرح مصروف ہوئے کہ وفاقی وزارت کا پرتعیش اور مراعات سے بھرا قلمدان ایک بار پھر ان کی جھولی میں ایک پکے ہوئے پھل کی طرح آ گرا جس کے مزے سے وہ آج تک مستفید ہورہے ہیں۔

مشاہد اللہ صاحب آج کل کے بدلتے ہوئے حالات میں اپنے آپ کو کسی بڑے عہدے اور مقام پر دیکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں جس کے لئے وہ ایک بار پھر فن خطابت اور اپنی درباریت کے اوصاف بروئے کار لارہے ہیں۔ اور یقیناً اسی حکمت عملی کے تحت انہوں نے عمران خان کے وزیراعظم بننے کے امکان کو ’’چاہے سارا گاؤں کیوں نہ مرجائے، پر مراثی کبھی چوہدری نہیں بن سکتا‘‘ سے معمور کیا ہے۔

موصوف نے اپنے تئیں اپنے مربی اور آقا جناب نواز شریف کو خوش کرنے کی کوشش کی تھی جہاں عین ممکن ہے کہ دربار شریفیہ سے اُن کو اب تک کوئی خلعت فاخرہ عنایت کی جاچکی ہو لیکن مشاہد اللہ صاحب کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ جس وقت وہ یہ تمام ہرزہ سرائی اور انگشت نمائی کررہے تھے تو ان کے ہاتھ کی چار انگلیاں اُن ہی کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔

پاکستان کے باشعور عوام اس بات کا مکمل ادراک رکھتے ہیں کہ مراثی کے چوہدری نہ بننے کی مثال سب سے زیادہ مشاہد اللہ صاحب اور ان جیسے لاتعداد کاسہ لیسوں پر صادق آتی ہے۔ موصوف کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلم لیگ (ن) درحقیقت ایک جدی پشتی جماعت ہے جس میں شامل اُن جیسے لوگوں کا کردار محض ایک مراثی تک ہی محدود ہے۔

پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ نواز شریف جب بھی معزول یا جلاوطن ہوئے تو مسلم لیگ کی صدارت ہمیشہ اُن کے چھوٹے بھائی شہباز شریف اور ان کی زوجہ شریف تک ہی محدود رہتی ہے۔ اسی طرح ملک کی وزارت عظمیٰ اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ 1997 سے محض اپنے خاندان میں ہی موقوف رہتی ہے۔ حلقہ 120 کا ٹکٹ نواز شریف کی اہلیہ شریف اور پاکستان کے ممکنہ وزیراعظم اور وزارت اعلیٰ پنجاب کے لئے شہباز شریف اور مریم نواز کی نامزدگی موروثی سیاست کی واضح دلیل ہے جب کہ پارٹی کے بزعم خود بڑے رہنما جس کے مشاہد اللہ صاحب ہمیشہ سے دعویٰ گیر ہیں، محض ایک مراثی کے کردار تک محدود ہیں۔

مشاہد صاحب، آپ بالکل صحیح فرما رہے ہیں، ’’چاہے سارا گاؤں مرجائے، پر مراثی کبھی چوہدری نہیں بن سکتا،‘‘ لیکن آپ کی یہ تصحیح ازحد ضروری ہے کہ یہ مثال عمران خان پر نہیں بلکہ آپ اور آپ کی جماعت پر بخوبی صادق آتی ہے جہاں خاندان شریفیہ کی موجودگی میں آپ اور آپ کے لاتعداد کاسہ لیس ساتھیوں کا کردار محض مراثیوں سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا۔

آخر میں آپ اور آپ کے ساتھیوں کی خدمت میں عرض ہے:

سلطانئ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔