آگے بڑھیے

ذیشان الحسن عثمانی  منگل 20 مارچ 2018
شیطان راہ اسی کی کاٹتا ہے جس کے پہنچنے کا ڈر ہو۔
فوٹو:انٹرنیٹ

شیطان راہ اسی کی کاٹتا ہے جس کے پہنچنے کا ڈر ہو۔ فوٹو:انٹرنیٹ

اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آگے بڑھنے کا ہنر کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی بس ایک جگہ ٹھہر گئی ہے اور آگے بڑھنے کی کوئی راہ انہیں سجھائی نہیں دیتی۔ اس ساکت و جامد زندگی میں کوئی تحریک یا Motivation کیسے آئے؟

کیوں ان کی زندگی ان کے آس پاس موجود فلاں اور فلاں لوگوں جیسی نہیں ہے؟ کیوں ان کا فلاں فیس بک فرینڈ ان سے آگے نکل گیا؟ اور کیوں فلاں رشتہ دار کا بیٹا ترقی پہ ترقی کرتا جا رہا ہے اور ان کے ہاتھ سوائے حسرت کے کچھ نہیں آتا؟ ایسا کیوں ہے کہ اتنی بڑی دنیا میں انہیں کوئی استاد کوئی رہبر یا ایسا شخص نہیں ملتا جو ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں چلا سکے؟ حالات سے مجبور اور زندگی سے مایوس نوجوانوں کے درجنوں ایسے پیغامات ہر ہفتے پڑھ کر میں سوچتا ہوں کے انہیں کیا مشورہ دوں۔ میں ان سے کہتا ہوں کوئی نہیں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آگے بڑھیں، زندگی پڑی ہے۔

آج میں آپ کو آگے بڑھنے کے 3 تیر بہدف آزمودہ طریقے بتاتا ہوں۔ ان پر دل و جان سے عمل کریں، انشاءاللہ ضرور افاقہ ہوگا۔

1۔ اعتراض نہ کریں

اپنے آپ سے وعدہ کریں کہ آج کے بعد اعتراض نہیں کریں گے۔ ہاں، اگر آپ کسی کے سرپرست ہیں، ماں باپ ہیں، استاد یا راہبر ہیں اور اس کی اصلاح مقصود ہے تو اسے ضرور سمجھا دیں۔ اور اگر ایسا کوئی رشتہ نہیں تو آپ اعتراض کو یکسر ختم کر دیں۔ دنیا میں کبھی اعتراض اور نفع جمع نہیں ہوتے۔ آپ ٹول پلازہ والے سے بحث کریں، گالیاں دیں اور امید رکھیں کہ وہ آپ سے ٹول وصول نہیں کرے گا تو یہ بےوقوفی ہی ہے۔ آپ گھر پہنچ کر بیگم کے ہر کام پر اعتراض کریں، بچوں کی دیکھ بھال سے کھانا بنانے تک اور گھر کی صفائی سے لے کر آپ کے سامان کی رکھوالی تک۔ اور امید رکھیں کہ وہ آپ سے ہنس کے، مسکرا کے کلام کریں گی تو یہ ممکن نہیں۔

خدارا لوگوں کا احتساب کرنا چھوڑ دیں۔ ہم جس چھلنی سے لوگوں کو چھانتے ہیں اس سے تو صرف نبوت ہی باہر آسکتی ہے۔ یہ کیوں کہا، یہ کیوں پہنا، ایسے کیوں بیٹھے، اس سے کیوں ملے؟ بھائی اپنے کام سے کام رکھیں۔ آپ کو اس شخص سے جو فائدہ پہنچ رہا ہے وہ اٹھائیں اور منہ بند رکھیں۔ اعتراض مٹی کی وہ بوری ہے جو ہم کسی نلکے کے منہ پر باندھ دیتے ہیں، اس کے بعد جو پانی نکلے گا وہ گدلا ہی ہوگا۔ اعتراض کے حملوں کا نشانہ عموماً استاد، راہبر یا مولوی حضرات ہی بنتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ وہ غریب آدمی نہ پلٹ کے جواب دے گا نہ بد دعا۔ جو چاہے کہہ لو۔

آپ نے آج تک موچی سے پوچھا ہے کہ تمہارے گھر میں کتنے ہیوی بچے ہیں؟ نہیں ناں! کیونکہ آپ کو تو جوتا سلوانا ہے۔ ڈاکٹر سے پوچھا کہ فلاں کپڑے کیوں پہنے ہوتے ہیں؟ وکیل سے سوال کیا کہ کل بازار میں کس کے ساتھ جا رہے تھے؟ مگر جہاں سوال استاد یا مولوی صاحب کا آیا، جب تک آپ ان کے شجرہ نصب کے بارے میں مکمل جانکاری حاصل نہ کر لیں آپ کو چین ہی نہیں آتا۔

شیطان راہ اسی کی کاٹتا ہے جس کے پہنچنے کا ڈر ہو۔ ہر وہ شخص جس سے آپ کو فائدہ پہنچ رہا ہو اسی کے بارے میں سب سے زیادہ خدشات و خیالات آتے ہیں۔ وہ آپ کو گھر بلا لے تو آپ کہتے ہیں کہ شاندار گھر بنایا ہے، حرام کا پیسہ آیا ہوگا۔ وہ کھانا کھلا دے تو آپ اس کی فضول خرچی اور پرتعیش زندگی پر ماتم شروع کر دیتے ہیں۔ وہ گاڑی لے لے تو آپ کے دل پر سے ٹرک گزر جاتا ہے۔ حتٰی کہ وہ فٹ پاتھ پر آجائے تو آپ پھر بھی طعنے کستے ہیں کہ دنیا کے کسی کام کا نہیں رہا۔

کس سے ملے، کیا پہنا، کیا پوچھا، کیا بولا، کیسے بولا، کس کو بولا، یہ کیوں بولا، یہ کیوں نہیں بولا، اسے وقت دیا، اس کو کیوں نہیں دیا، میرا فون کیوں نہیں اٹھایا، میری تعریف کیوں نہیں کی؟ سارے سوال آپ ہی نے پوچھنے ہیں تو حشر میں کیا ہوگا؟

اور پھر ان تمام اعتراضات اور الزامات کے بعد آپ ایسے بن جائیں جیسے ہوا ہی کچھ نہیں اور آپ کو مسلسل ان سے فیض ملتا رہے، یہ ممکن نہیں۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ کنویں میں تھوکنے والے کی پیاس چھن جاتی ہے۔ علم تو مومن کی میراث ہے، اگر کسی شخص سے آپ ایک بات بھی سیکھ سکتے ہیں تو وہ سیکھ لیں اس کے نامہ اعمال کی پرکھ کرنا چھوڑ دیں۔

اعتراض وہ بدترین خصلت ہے جس کی وجہ سے منزل تو کیا، راستہ اپنے مسافر کو چھوڑ دیتا ہے۔ اعتراض ہدایت کا راستہ روک دیتا ہے اور ایسے شخص کو جواب میں سوائے برائیوں کے کچھ نہیں ملتا۔ اس کی مثال کچرا اٹھانے والے جمعدار کی سی ہے جسے پھولوں بھرے باغ میں سے بھی پھٹے پرانے ڈبے اور خالی بوتلیں مل ہی جاتی ہیں۔

فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ پھول چننے ہیں یا خالی بوتلیں۔ قدرت نے تو سب آپ کے سامنے رکھ چھوڑا ہے۔

2۔ شکر ادا کریں:

اللہ ربّ العزت نے بڑا نوازا ہے آپ کو۔ آپ ایک کام کریں کہ ایک ایکسل شیٹ Excel sheet بنا لیں اور جس دن سے آپ نے کمانا شروع کیا ہے اس دن سے ہر مہینے ملنے والی رقم اس میں لکھ لیں۔ آپ دیکھیں گے کہ قدرت آپ کو کیسے نوازتی آئی ہے۔ پیدائش سے مرنے تک ہم کھاتے پیتے بھی ہیں، دوا، زیب و زینت، چھت اور آسائیش بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ پڑھائی، سفر، اور باقی اخراجات بھی۔ ہم میں سے کوئی اپنے ساتھ 70، 75 سالوں کا راشن لے کر نہیں آیا اور نہ ہی ہم ان تمام اسباب کو لادے لادے پھرتے ہیں۔ اگر آپ پر قدرت کے صرف 500 روپے بھی روزانہ خرچ ہوئے ہوں تو یہ زندگی میں کئی کروڑ بنتے ہیں۔ کیا مشکل تھا کہ قدرت آپ کو مار کے ان پیسوں سے کوئی ادارہ بنوا دیتی جو کتنوں کے کام آتا۔ ہم میں سے غریب سے غریب ترشخص بھی کروڑوں کی آسامی ہے، جسے قدرت نے سینچا ہے، اس شخص کی قدر کریں، اپنی منزلت کو پہچانیں.

مایوسی کو کفر کہتے ہی اس لیے ہیں کہ اس شخص کو اپنے مسائل کے سامنے خدا نظر نہیں آتا۔ خدا کا شکر ادا کرتے رہیں۔ پانچویں پارے کی آخری آیت دیکھیں۔ اللہ پاک کہتا ہے کہ وہ عذاب دے کر کیا کرے گا اگر ہم شکر ادا کرتے رہیں اور ایمان لائیں۔ شکر ایمان سے پہلے آیا ہے۔ شکر ادا کرتے رہیں تو ایمان کی توفیق بھی مل جاتی ہے۔

3۔ اپنا ذکر نہ کریں:

یہ آگے بڑھنے کے لئے سب سے اہم کام ہے۔ لوگ آزاد پیدا ہوئے ہیں۔ٓ انہیں اپنے سحر میں جکڑنا، اپنی چرب زبانی اور قصیدوں سے اپنی طرف متوجہ کرنا کہ وہ آپ سے رجوع کریں، شرک ہے۔ انہیں اللہ سے جوڑیں۔ یاد رکھیں! تواضع و انکساری کا ہر وہ جملہ جو خالق کے بجائے مخلوق کے سامنے کہا جائے، کبر کی ہی ایک شاخ ہے۔

آپ کی شخصیت، آپ کی قربانیاں، آپ کی کاوشیں، آپ کی محنت، دینی و دنیاوی کارنامے، اگر اس ایک اللہ کو راضی نہ کر سکیں تو سب بےکار ثابت ہوگا۔ اپنے آپ کو ٹریننگز میں مثال بنا کر پیش کرنا، یہ خواہش کہ فلاں فلاں میرا فالوور ہو جائے یا میرے زیرِ اثر ہو۔ خدا تک بھی پہنچے تو مجھ سے ہو کر، شرک کی ہی ایک قسم ہے۔

اپنا ذکر تو بندے کو کبھی اپنے آپ سے بھی نہیں کرنا چاہیے اِلاّ یہ کہ وہ دوسروں سے کرے۔ راتوں کو اُٹھ کر اپنے رب کے پاس جائیں، اسے سارے قصے سنائیں، بتائیں کیا کیا خامیاں ہیں، کیا کیا مصیبتیں ساتھ اُٹھائے پھرتے ہیں۔ باقی کسی سے ذکر نہ کریں۔

اپنی بڑائی کے تذکروں اور فضیلت کے قصّوں سے کبھی فرصت ملے تو اس کی بھی بڑائی بیان کردیں جس کا حق ہے، ایک بھوکا بھیڑیا بکریوں کے ریوڑ میں اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنا ہر جا مال و عزت کا متمنی شخص۔ اپنے کو اوروں سے برتر سمجھنے والے شخص کو توبہ کی توفیق نہیں ملتی کے اسے وہ گناہ ہی نہیں سمجھتا اور پھر وہ ایسی جگہ سے ذلیل ہوتا ہے جہاں سے اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتا۔

یقین جانیے کہ اگر آپ یہ 3 کام کر سکتے ہیں کہ اعتراض کرنا چھوڑ دیں، شکر ادا کرتے رہیں اور اپنا ذکر نہ کریں تو آگے بڑھنے کا سفر شروع ہو کے ہی رہے گا۔

اور نہ بھی ہوا تو کیا، راہ تو اسی کی تھی، رخ تو اسی کی طرف تھا۔ وہ بےنیاز ہے، نہ دیکھے تو بھی کیا۔ ہم سے جو ہو سکتا تھا وہ ہم نے کر دیا۔ باقی رب جانے اور اس کا کام۔

اس کی مرضی ہے جسے چاہے پاس بٹھالے اپنے
اس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا
(تہذیب حافی)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔