سیاستدان تحمل سے کام لیں

ایڈیٹوریل  منگل 20 مارچ 2018
ملکی سیاست کا بنیادی المیہ بھی جمہوری سیاسی جماعتوں کی سیاسی روش کے تعمیری اور معروضی پہلو سے لاتعلقی پر مبنی ہے۔ فوٹو: فائل

ملکی سیاست کا بنیادی المیہ بھی جمہوری سیاسی جماعتوں کی سیاسی روش کے تعمیری اور معروضی پہلو سے لاتعلقی پر مبنی ہے۔ فوٹو: فائل

نیرنگیٔ سیاست دوران تو دیکھئے کہ اکیسویں صدی ہے اور ملک 70 برس کے تلخ و شیریں تجربات، تاریخی حادثات و واقعات سے گزرتے ہوئے الزام تراشیوں اور کردارکشی کی بند گلی میں داخل ہوگیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ملکی سیاست شعوری یا لاشعوری طور پر 80 یا 90 کے سیناریو کی جھلک دکھلا رہی ہے جب  ملک کو درپیش کثیر جہتی اور مگر مچھ کی طرح منہ کھولے چیلنجز سے غفلت برتی گئی، سیاسی جماعتوں نے وقت کی نزاکت کا احساس نہیں کیا۔

مگر آج لمحہ موجود میں مخالف سیاسی لہروں سے لڑتے ہوئے اہل سیاست کو توازن کیسے برقرار رکھنا ہے، سانس پر قابو رکھتے ہوئے منزل مراد پانے کی والہانہ اور فاتحانہ جستجو کس طرح جاری رکھنی ہے، تاہم بدقسمتی سے ان کی ساری توانائیاں اختلافات کی نذر ہورہی ہیں، بلاوجہ کی معرکہ آرائی ہے جس کا لازمی نتیجہ عدم رواداری، اشتعال انگیزی، محاذ آرائی ، انارکی اور بے یقینی ہے حالانکہ سیاست امکانات کی سائنس بھی ہے اورملک کو مسائل اور بحرانوں کے بھنور سے نکالنے کی دوراندیشی اور نکتہ وری بھی۔

ملکی سیاست کا بنیادی المیہ بھی جمہوری سیاسی جماعتوں کی سیاسی روش کے تعمیری اور معروضی پہلو سے لاتعلقی پر مبنی ہے جب کہ دنیا کے سارے جمہوری ممالک میں یہ اصول مسلمہ ہے کہ سیاسی انحطاط زبان کی شائستگی سے انحراف کا نتیجہ ہوتا ہے ، سیاست دان ملکی مسائل جو ان کے اپنے ملک کے مسائل ہوتے ہیں کے حل کے لیے بات چیت اور سنجیدہ مکالمہ کی نفاست کو ایوانوں کے اندر بھی ملحوظ رکھتے ہیں اور سیاسی فیلڈ سے باہر پبلک مقامات پر بالخصوص ان کا لسانی شرافت اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے کبھی نہیں چھوٹتا،لیکن گزشتہ چند برسوں کی سیاست  نے ملک کو الزامات ، دھمکی آمیز بیانات، بلند آہنگ نعرہ بازی، بڑھکوں اور بدزبانی کی گہری پاتال میں پھینک دیا ہے۔

اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ناظرین اور سیاسی کارکنوں سے لے کر ملک کے فہمیدہ حلقے انگشت بدنداں ہیں کہ سیاسی ڈائیلاگ کا ابتذال، اس لاؤڈازم کا تماشا کب ختم ہوگا، سیاسی رہنما وطن عزیز کو مسائل کے دلدل سے نکالنے کے لیے اپنی فکر، سیاسی اخلاقیات، پارلیمانی رویوں اور جمہوری اقدار کے تحفظ کا کون سا معاہدہ طے کرنے پر اتفاق رائے کریں گے،ذاتی اختلافات کے خاتمہ اور صحت مند جمہوری عمل کی بقا کو اپنی اولین ترجیح کب بنائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست جب تک قومی اہداف تک رسائی کے جمہوری سفر کی شفافیت سے ہمقدم نہیں ہوگی سیاسی رہنماؤں کی نورا کشتیاں، سیاسی یوٹرن، داخلی تضادات اور ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے تک ہی محدود ہوگی۔

اہل سیاست اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کی شعلہ بیانی سے معاشرتی انتشار ، جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں، غربت اور بیروزگاری کے دہکتے ہوئے جہنم کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو گی، ملک کی تین بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان آیندہ کے الیکشن کی دوڑ لگی ہوئی ہے، اس کا باوقار انجام جمہوری اسپورٹس مین شپ سے ممکن ہے، قوم کو اس بات کا اشارہ مل جانا چاہیے کہ جس سیاسی جماعت کو اقتدار ملنا ہے اسے قومی امنگوں ، ملکی ترقی اور عوامی ریلیف کے لیے گراں قدر اقدانات کرنا ہونگے جو اب تک حکمرانوں نے نہیں کیے۔ لہذا عمران ، نواز ، شہباز، آصف زرداری اور بلاول سے قوم کو یہی امید ہے کہ وہ لارجر دین لائف larger than lifeسیاست کا نصب العین میڈیا کے ذریعہ اپنے ووٹرز کے سامنے پیش کریں گے۔

کردار کشی جمہوریت کا حسن نہیں، جمہوری عمل عوام کی زندگیوں کو آسودگی سے جوڑنے کی عظیم سیاسی جدوجہد سے عبارت ہے، تعمیری سیاست انتخابی منشور سے جڑی ہوتی ہے، 2018 کے انتخابات کا آفتاب چند ہفتوں میں نصف النہار پر ہوگا، جلسے جلوسوں کی ریل پیل ہوگی، انتخابی جلسے ابھی سے شروع ہوچکے ہیں ،ان کا رخ اب ملکی سیاسی نظام کی بنیادی تبدیلیوں کے ہدف کی تکمیل سے مربوط ہو، اہل وطن کو یہ خوشخبری ملے کہ آیندہ انتخابات سیاست دانوں کو سرکش سیاسی گھوڑے سے جلد اترنے کا موقع دیں گے، ووٹرز کو اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے اور اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کا آزادانہ جمہوری ماحول ملے گا، کوئی سونامی نہیں آئے گی، سیاست میں تحمل اور شائستگی کے راستے ابھی بند نہیں ہوئے لیکن سیاست دوراں سر برہنہ پھر رہی ہے اس کی توقیر سیاست دانوں کے ہاتھوں میں ہے۔

انتخابات کے لیے ماحول سازگار کرنے کی اجتماعی کوششیں کریں ۔گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا کے نظارے عوام اور ووٹرز دیکھ چکے، جن سیاست دانوں کو اپنے وزرائے اعظم کی بے بسی اور ماضی کی رسوائیوں کا رنج ہے وہ قوم کو ساتھ لے کر چلنے کے سیاسی اصولوں کو بڑھاوا دیں جن پر ہماری آیندہ نسلیں فخر کریں، سیاسی رہنما اپنے تند و تیز بیانات کی تلواریں نیام میں ڈالیں، باہمی کشمکش خود کشی سے بدتر نتائج دے سکتی ہے جب کہ اصولی سیاست تدبر، حکمت ،دور اندیشی اور خیر سگالی کی پیغامبر بنے گی تو پاکستان کا سیاسی وقار بلند ہوگا۔

دنیا ایک ایٹی جمہوری ملک میں قیادت کے عروج، ملکی وقار اور اس کے سافٹ امیج سے متاثر ہونے کے بجائے اس مخمصہ میں مبتلا نہ ہوکہ جس پاکستان کے سیاسی اسٹیک ہولڈرز سیاسی و سماجی نظام کی نشاۃ ثانیہ سے گریز پا اور جہاں زبان بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا جیسی صورتحال ہے ایسے دلگداز منظر نامہ کی کایا پلٹ سیاست دانوں کی ذمے داری نہیں تو پھر کس کی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔