کراچی کی زبوں حالی، ماسٹر پلان کی ضرورت

ایڈیٹوریل  منگل 20 مارچ 2018
شہر کی ’’کمائی‘‘ سے تو سب فائدہ اٹھانے کے لیے حاضر ہیں لیکن کوئی بھی اسے ’’اون‘‘ کرنے پر راضی نہیں۔ فوٹو: فائل

شہر کی ’’کمائی‘‘ سے تو سب فائدہ اٹھانے کے لیے حاضر ہیں لیکن کوئی بھی اسے ’’اون‘‘ کرنے پر راضی نہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان کا معاشی ہب کراچی اپنی تباہی و بربادی کا نوحہ بیان کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک اپنے بڑے شہروں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں لیکن شہر قائد جسے ’’روشنیوں کا شہر‘‘ کا خطاب دیا گیا.

آج بدانتظامی اور غلط منصوبہ بندی کے تحت ناقابل رہائش اور خطرناک شہروں میں شمار کیا جاتا ہے، انفرااسٹرکچر بالکل تباہ ہوچکا ہے، بغیر منصوبہ بندی بسائی گئی بستیاں اور خوبصورت ٹاؤنز میں تبدیلیوں اور گنجائش سے زیادہ رہائش کے باعث چھوٹے پلاٹ کے مکانات کو فلیٹوں کے جال میں تبدیل کرنے کی غلطیوں نے کراچی کے مسائل کو اتنا گنجلک کردیا ہے کہ عوام حیران ہیں ان مسائل کا حل کیسے ممکن ہوسکے گا۔ شہر کی بیشتر شاہراہیں اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، شہر کے مسائل کا ادراک کیے بغیر شروع کیے جانے والے بڑے منصوبوں نے عوام کے لیے مزید درد سر کا انتظام کیا ہے۔

ادھرشہر میں صفائی کے فقدان اور گندگی و کچرے کے ڈھیروں نے صحت کے مسائل بھی پیدا کردیے ہیں۔ شہر کی ’’کمائی‘‘ سے تو سب فائدہ اٹھانے کے لیے حاضر ہیں لیکن کوئی بھی اسے ’’اون‘‘ کرنے پر راضی نہیں۔ بلدیاتی نظام ہونے کے باوجود بلدیاتی اداروں کی کارکردگی ناقص ہے، صوبائی حکومت کی اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کی ’’خواہش‘‘ بھی مسائل کے حل میں رکاوٹ ہے لیکن سب سے زیادہ پیچیدہ صورتحال شہر میں صفائی کے انتظام کی ہے، وہ شہر جہاں روزانہ ٹنوں کے حساب سے کچرا پیدا ہوتا ہے وہاں صفائی ستھرائی کا کوئی معقول انتظام نہیں، نہ ہی اداروں میں کچرے کو اٹھانے اور ڈمب کرنے کی صلاحیت ہے۔

سیوریج نظام تباہ حال و بوسیدہ ہے، شہر حقیقی معنوں میں موئن جو دڑو جیسا کھنڈر بنتا جارہا ہے لیکن اداروں میں معاملات کو سنبھالنے کی اہلیت نظر نہیں آتی۔ مسائل کے حل اور شہر میں صفائی کے احکامات تو موجود ہیں لیکن جب تک اداروں میں اہلیت اور استعدادکار پیدا نہیں ہوگی یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر کے انفرااسٹرکچر اور صفائی ستھرائی کے نظام کے لیے باقاعدہ ماسٹر پلان ترتیب دیا جائے اور مسائل کے حل کی جانب صدق دل سے پیش رفت کی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔