باکمال لوگ لاجواب پرواز !

وسعت اللہ خان  منگل 20 مارچ 2018

ذرا اپنے اردگرد نگاہ ڈالیے۔آپ کو بھانت بھانت کے آمرانہ اور جمہوری نمونے ٹپائی دیں گے۔کچھ کلی یا جزوی پسند آئیں گے،کچھ بالکل نہیںآئیں گے۔مگر ان دونوں طرح کے نمونوں میں ایک قدرِ مشترک ہے کہ یہ جیسے دکھائی دیتے ہیں اندر سے بھی ویسے ہی ہیں لہذا ان ماڈلز کا اپنے بارے میں نہ تو معذرت خواہانہ رویہ ہے اور نہ ہی منافقانہ۔

مثلاً چین میں کیمونسٹ پارٹی کی آمریت ہے سو ہے۔جب تک چینی سوشلزم کے کسانی ماڈل کو ضروری سمجھا اپنائے رکھا۔پھر ایک دن فیصلہ ہوا کہ ’’ اگر بلی چوہے پکڑ سکتی ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ بلی سفید ہے یا سیاہ‘‘۔چنانچہ سوشلزم میں سرمایہ داری کا تڑکا لگا دیا گیا۔ماؤ کو تاریخ کے منبر پر بٹھا کر سلام کیا اور زمانہ آگے بڑھ گیا۔

چینی کیمونسٹ پارٹی کو ایک زمانے تک شخصی آمریت  کے فوائد نظر آئے تو اسی پر اتفاق رہا۔پھر پارٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ تاحیات شخصی حکمرانی ملک کو آگے بڑھانے میں رکاوٹ ہے تو پارٹی نے ہر دس برس بعد اعلی قیادت کو گردشی انداز میں تبدیل کرنے کا راستہ اختیار کر لیا۔اب پارٹی کو لگتا ہے کہ تسلسل کے لیے ایک شخص کی مسلسل قیادت ضروری ہے تو اس نے موجودہ صدر زی پنگ کو اکسیویں صدی کا ماؤزے تنگ بننے کا راستہ دے دیا۔کل پارٹی سمجھے گی کہ یہ تجربہ درست نہیں تو کوئی اور راستہ ڈھونڈ لے گی۔

روس کو دیکھ لیں۔بھلے ولادیمیر پوتن کا طرزِ حکمرانی کسی کو پسند آئے نہ آئے وہ بہرحال پرسوں چوتھی بار صدر بن گئے۔ پوتن نے کبھی نہیں چھپایا کہ وہ شخصی آمر ہیں، حزبِ اختلاف کو تب تک برداشت کرتے ہیں جب تک وہ سنجیدہ چیلنج نہ بن جائے ورنہ چیلنجرز کو جیل بھیجنے یا راستے سے ہٹا دینے کے بیسیوں طریقے بھی موجود ہیں۔

بھائی پوتن اتنے پراعتماد اور صاف گو ہیں کہ آخری انتخابی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ کتنے فیصد ووٹ پڑتے ہیں۔ صرف یہ چاہتا ہوں کہ اگلی مدت حاصل ہو جائے۔کیونکہ اس وقت میں ہی بہترین انتخاب ہوں۔

افغانستان ہمیشہ سے ایک ڈھیلی ڈھالی قبائلی کنفیڈریشن رہا۔طویل عرصے تک اس ڈھانچے کو بادشاہت نے سنبھالا دیے رکھا۔پھر شخصی اور پھر کیمونسٹ شورائی نظام کے مختصر مگر جان لیوا تجربات ہوئے۔ان کے اثرات سے افغانستان اب تک نہ نکل پایا۔کابل میں اس وقت جیسی کیسی بھی حکومت ہے اس نے نہ تو اپنی کمزوری چھپائی  اور نہ ہی اس حقیقت سے منکر ہے کہ طالبان ایک بڑی قوت ہیں اور ان سے مسلسل محاذ آرائی کے باوجود کابل حکومت بیرونی مدد کے بغیر اپنے پیروں پر کھڑی نہیں رہ سکتی۔یعنی جو بھی اچھے برے حالات ہیں شفاف اور تاویلاتی لیپا پوتی سے پاک ہیں۔اسی طرح طالبان کا یہ موقف بھی مسلسل ہے کہ مذاکرات کٹھ پتلیوں سے نہیں ان کی ڈور ہلانے والوں سے ہی ممکن ہیں۔

ایران نے سوائے بادشاہت کے کبھی کچھ نہیں دیکھا۔ڈھائی ہزار برس دنیاوی بادشاہت کی قید میں رہا ، چالیس برس سے روحانی بادشاہت کے زیرِ انتداب ہے۔ سن پچاس کے عشرے میں وزیرِ اعظم محمد مصدق کے انتہائی دورِ مختصر میں ایرانیوں  نے آزادی کے خواب ضرور دیکھے مگر یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا کہ ان کا حکومتی ڈھانچہ بنیادی آزادیوں کی مغربی تشریح پر پورا اترتا ہے۔

اس ڈھانچے کے تحت سیاسی و عسکری نظام پہلے شخصی بادشاہت کے تابع تھا، اب روحانی آمریت کے تابع ہے۔بنیادی حقوق طے شدہ دائرے کے اندر ہی استعمال ہو سکتے ہیں۔دائرے سے باہر نکلنے والوں کے لیے کوئی رعائیت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔آپ اس نظام پر بھلے طعن و تشنیع کے ترکش خالی کر دیں مگر ایران میں جو بھی نظام ہے وہ دھڑلے سے ہے اور اپنی رٹ برقرار رکھے ہوئے ہے۔

بھارت پر اگرچہ ہندو فاشزم کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ پھر بھی وہاں ایک آئینی و قانونی ڈھانچہ سات دہائیوں سے ملک کو بالائے آئین اور غیر جمہوری جھکڑوں سے بچاتے ہوئے ہر رنگ و نسل و عقیدے کے جھمیلوں کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے۔یہ آئینی ڈھانچہ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی جھیل گیا اور شائد مودی کا فاشزم بھی جھیل جائے۔

کچھ چیزیں شروع سے طے ہو گئیں اور اب تک طے ہیں۔یعنی کوئی بالائے آئین قدم برداشت نہیں ہوگا۔بنیادی حقوق پوری طرح سے عملاً نہ بھی مل پائیں پھر بھی کاغذ پر لکھے ان حقوق کو کوئی بھی اچھے خان نہیں چھیڑ سکتا۔انتخابات مقررہ وقت پر خود مختار الیکشن کمیشن کے تحت ہوں گے اور انھیں کسی بھی بہانے سے پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن کی رضامندی کے بغیر آگے پیچھے نہیں کیا جا سکے گا۔

چنانچہ اسی ڈھانچے نے یہ امید بھی نہیں بجھنے دی کہ اس بار اگر غلط اجتماعی فیصلہ ہو گیا ہے تو  پانچ برس بعد اس کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔اس امید کی بنیاد بھارتی آئین کا سیکولر اور پارلیمانی کیریکٹر ہے جو نسلی، علاقائی و مذہبی تھپیڑے کھانے کے باوجود برقرار ہے اور اس بابت کسی جانب سے کوئی معذرت خواہانہ رویہ نہیں۔ستر برس کے دوران بھارتیوں کو اچھے سے معلوم ہوگیا ہے کہ یہی آئین قومی ایکتا کی واحد ضمانت ہے۔اس کے سوا کوئی ترازو نہیں جو مینڈکوں کو تول سکے۔

سری لنکا والوں کو بھی اپنے آئینی ڈھانچے کے بارے میں کوئی کنفیوژن نہیں۔اسی آئین کے سہارے وہ بیس سال سے جاری خانہ جنگی اور صدر راجہ پکسے کی آمرانہ خواہشات سے نمٹ چکے ہیں اور اب بھی بلا رکاوٹ سفر میں ہیں۔

بنگلہ دیش نے بھی بہت سارے تجربے کرنے کے بعد سیکھ لیا کہ حسینہ واجد کی آمریت بھی پارلیمانی نظام  کے تحت ہی چل سکتی ہے ورنہ جو بھی راستہ اختیار کیا جائے گا وہ مزید انتشار اور خون خرابے کی جانب ہی لے کر جائے گا۔حزبِ اختلاف کا حال بنگلہ دیش میں خاصا برا ہے۔مگر کوئی جماعت مار کھانے کے باوجود بالائے آئین اقدامات کے لیے کسی اور ادارے کی جانب دیکھنے کو تیار نہیں۔جو بھی اچھا یا برا ہو رہا ہے جمہوریت کے طے شدہ سائے میں ہو رہا ہے۔

اس تناظر میں پاکستان اب تک کیوں فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ یہاں جمہوریت چلے گی کہ فوجی آمریت یا جمہوری آمریت یا عدالتی آمریت یا پھر اسلامی جمہوریت یا کوئی بھی ایسا نظام جو استحکام کی ضمانت دے سکے۔ تہتر کا آئین ایک ایسی موٹر سائیکل کی طرح ہے جس کے گئیر اسلامی ہیں، ہینڈل مغربی، پٹرول کی ٹنکی عسکری، ٹائر نجی ، گدی سیاسی اور لائٹیں طفیلی کیپٹلسٹ ہے۔کوئی شخص کوئی ادارہ، کوئی جماعت واضح طور پر نہ اچھی بات پوری طرح بتانے کو تیار ہے نہ ہی بری بات مکمل طور پر اگلنے پر آمادہ۔

ان حالات تک پہنچانے کا ذمے دار کون ہے؟ جب واضح جواب مانگا جائے تو گونگوں کی طرح ایک دوسرے کی جانب اشارے بازی شروع ہو جاتی ہے۔یہ پوچھا جائے کہ جو بھی نظام آپ لوگوں نے اس وقت اپنا رکھا ہے کیا آپ اس پر کامل یقین رکھتے ہیں تو پھر تاویلاتی و معذرت خواہانہ و الزامیہ گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔

کیا آپ اس نظام سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں؟ جواب آتا ہے ہاں۔اچھا تو اس کی جگہ کیا لانا چاہتے ہیں؟ جواب میں آتی ہے خاموشی،گول گول گھومتی آنکھیں اور بس۔ایسے میں کوئی بیرونی یا اندرونی ہمدرد کسی پائیدار راستے پر لگانے کے لیے مدد بھی کرنا چاہے تو کیسے کرے۔

نہ آپ پوتن بننا چاہتے ہیں، نہ آپ کو ایرانی ماڈل پسند ہے، نہ آپ کو چینی نظامِ حکومت اپنانے سے کوئی دلچسپی ہے، نہ آپ بھارتی ڈیموکریٹک فیڈرل ماڈل کو ہضم کر سکتے ہیں نہ آپ اپنا کوئی ایسا آمرانہ یا جمہوری ماڈل بنانے کے قابل ہیں جو اس ملک کے شہریوں کو بے یقینی کے بھنور سے نکال کے سلامتی کے جزیرے تک لے جا  سکے۔تو پھر آپ ہیں کون اور کیوں ہیں اور چاہتے کیا ہیں؟ بقولِ فیض صاحب ’’ باکمال لوگ لاجواب پرواز ‘‘۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔