عوام کی ذمے داری

ظہیر اختر بیدری  منگل 20 مارچ 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

بلاشبہ ہماری آبادی کے 60 فیصد سے زیادہ عوام تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور جو تعلیم یافتہ ہیں، ان میں بھی بڑی تعداد سماجی اور سیاسی شعور سے بے بہرہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے عوام مجموعی طور پر سیاستدانوں کے سامنے بے دست و پا ہیں۔

سیاستدان یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ عوام اگر تعلیم یافتہ ہوجائیں اور ان میں سیاسی شعور پیدا ہوجائے تو پھر یہ باشعور عوام سیاستدانوں کی لٹیری کلاس کو جن میں جاگیردار ہیں، وڈیرے ہیں، صنعت کار ہیں، سرمایہ دار ہیں، بیوروکریٹس ہیں، سیاست سے اٹھا کر باہر پھینک دیں گے، یہی خوف ہے کہ اس ملک کی برسر اقتدار اشرافیہ اور اشرافیائی اپوزیشن  نہ ان کے لیے تعلیم کے دروازے کھولتی ہے نہ ان میں سیاسی شعور پیدا ہونے دیتی  ہے۔ یہ کام یہ طبقات براہ راست بھی کرتے ہیں اور بیوروکریسی اور ماتحت طبقے کے ذریعے بھی کراتے ہیں جن کا تعلق عموماً لوئر مڈل کلاس سے ہوتا ہے۔

ہماری اشرافیہ اس ’ یس سر‘ طبقے کو مراعات دیتی ہے اور یہ طبقہ سیدھے سادے عوام کو اپنے اپنے سیاسی وڈیروں کا گرویدہ بناکر اور حکومت میں آنے کے بعد ان کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے وعدوں پر انھیں سیاسی جلسوں میں بھی استعمال کرتے ہیں اور انتخابات کے موقعے پر ان کے ووٹ اپنے آقاؤں کے حق میں ڈلوا کر انھیں مسند اقتدار تک پہنچا دیتے ہیں، اس کے بعد یہ سیاسی  وڈیرے عوام کی غریب آبادیوں سے گدھے کے سینگ کی طرح غائب ہوجاتے ہیں، یہ کام دیہی علاقوں میں بڑی خوش اسلوبی سے انجام پاجاتا ہے، البتہ شہری علاقوں میں انھیں مشکلات اور مقابلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ترقی یافتہ ملکوں کے عوام نہ صرف تعلیم یافتہ ہوتے ہیں بلکہ باشعور بھی ہوتے ہیں لہٰذا وہ عموماً ان امیدواروں کی حمایت آنکھ بند کرکے نہیں کرتے بلکہ خوب چھان پھٹک کر خوب آزمائش کے بعد اپنی مرضی کے مطابق اپنے معیار پر پورا اترنے والے امیدوار کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرتے ہیں اورکامیاب امیدوار پر نظر رکھتے ہیں کہ وہ اپنے منشور اپنے وعدوں کے مطابق ان کے مسائل حل کر رہا ہے یا نہیں۔ اس خوف کی وجہ سے ترقی پسند ملکوں کے حکمرانوں کو عوام کے مسائل حل کرنا پڑتا ہے۔

پسماندہ ملکوں کا المیہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں سیاسی شعورکی کمی کی وجہ سے پسماندہ ملکوں کے عوام نہ سیاسی منشور سے واقف ہوتے ہیں نہ انتخابی وعدوں کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں، لہٰذا کامیاب امیدوار بے دھڑک ہوکر لوٹ مار میں لگ جاتے ہیں ہمارے ملک میں یہ کام 70 سال سے ہو رہا ہے۔

انتخابات میں اگر کوئی آسمانی سلطانی نہ ہو تو اب صرف چند ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے، سیاسی اور مذہبی جماعتیں نئے نئے وعدوں اور انتہائی جاذب نظر منشور کے ساتھ عوام کی آبادیوں کا رخ کر رہی ہیں۔ برسر اقتدار جماعت اپنے رہنماؤں پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات اور عدالتوں میں ان کے خلاف چلنے والے کیسوں اور میڈیا میں اس کی تشہیر کی وجہ پریشان تو ہیں لیکن اپنے آپ کو معصوم بناکر عوام کے سامنے پیش ہوکر عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں عوامی شعورکی بیداری میں میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا اگرچہ  اشرافیہ کی لوٹ مار کی داستانیں بڑی تفصیل کے ساتھ عوام کی خدمت میں پیش کر رہا ہے لیکن میڈیا کی یہ مجبوری اور صحافی اخلاق کے مطابق چوروں اور لٹیروں کا پوائنٹ آف ویو بھی عوام کے سامنے پیش کرنا پڑتا ہے اور لٹیری کلاس بڑی چالاکی سے میڈیا میں مظلوم بن کر عوام کو کنفیوژ کرنے اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن عوام کا مرض ہے کہ لٹیروں کے یکطرفہ پروپیگنڈے سے متاثر ہونے کے بجائے یہ دیکھے کہ دو دو تین تین بار حکومتوں میں آنے والوں نے اپنے منشور اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق عوام کے کتنے مسائل حل کیے اور کہاں کہاں عوام کو دھوکا دیتے رہے؟

سیاسی پارٹیوں خصوصاً بائیں بازو کی ترقی پسند پارٹیوں میں عوام کی سیاسی تربیت کے لیے اسٹڈی سرکل چلائے جاتے تھے جن میں ارکان اسٹڈی سرکل کو بورژوا اور ترقی پسند سیاست کا فرق بتایا جاتا تھا دو طبقاتی معاشرے میں عوام کو طبقاتی تضادات اور اشرافیہ کے کردار سے واقف کروا کر انھیں سیاسی شعور سے آراستہ کیا جاتا تھا تاکہ وہ طبقاتی تضادات کے ساتھ ساتھ اپنے طبقاتی دشمنوں کے کردار کو سمجھ کر ان کی سیاسی چالوں سے خود بھی واقف ہوں اور اپنے ساتھیوں کو بھی واقف کراسکیں۔

ہمارے وہ سیاستدان جو اپنے کرتوتوں کی وجہ سے آج کل احتساب کی زد میں ہیں اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور سادہ لوح عوام ان کی مظلومیت کی داستانوں سے متاثر بھی ہو جاتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ ان کے پاس اربوں روپے کی دولت کہاں سے اتنی اور ترقی یافتہ ملکوں میں ان کی اور ان کے خاندانوں کی اربوں ڈالر کی جائیدادیں کس کے پیسے سے خریدی گئیں۔ عوام کو اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ دولت خواہ وہ ملک کے بینکوں میں ہے یا باہر کے بینکوں میں اربوں روپوں کی جائیداد خواہ وہ ملک کے اندر ہو یا ملک کے باہر سب آپ یعنی اس ملک کے غریب عوام کی محنت کی کمائی ہے جس کے مالک وہ ہیں۔

کرپٹ اشرافیہ نے عدلیہ کے سامنے اپنے جرائم قبول کرنے کے بجائے سخت جارحانہ پالیسی اپنا کر عدلیہ کو اپنے دباؤ میں لانے کی کوشش کی اور یہ کوشش کھلم کھلا توہین عدالت تک پہنچی اس کا مقصد یہ تھا کہ عدلیہ پر دباؤ ڈال کر اور اس پر جھوٹے الزامات لگا کر اسے اپنا مشن روکنے پر مجبورکیا جائے لیکن عدلیہ نے ان کے سارے ہتھکنڈے ناکام بناکر قومی دولت کے لٹیروں کے خلاف احتساب کا عمل جاری رکھا ہوا ہے اب یہ اس ملک کے اکیس کروڑ عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ عدلیہ کی پشت پر کھڑے ہوکر قومی دولت کے لٹیروں کی سازشوں کو ناکام بنائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔