ماضی کا فنکار اور استاد

ایم قادر خان  منگل 20 مارچ 2018

جو مر چکے ان کا ملال ہے

جو مر رہے ہیں ان کی فکر نہیں

میں سمجھتا ہوں آج کی بات نہیں شروع سے دیکھا گیا جب کوئی مر جاتا ہے تو اس کی تعریف، اچھائیاں، نیک اعمال، خوبیاں اور قصیدہ خوانی ہوتی ہے۔ وہی شخص اپنی زندگی کے آخری دنوں میں مشکل ترین دن پورے کر رہا ہوتا ہے حیات گزارنا اسے مشکل ہوتی ہے ۔ سمجھ سے قاصر ہوں جب وہی شخص رفتہ حیات کے مشکل دن گزار رہا ہوتا ہے تو اس وقت کسی کو خیال نہیں آیا یا پھر اس شخص کی جانب توجہ نہیں دیتے۔ چونکہ اب کوئی ایسا کام نہیں جو اس شخص سے حاصل ہو دوسرے یہ بھی شاید سوچ ہوتی ہے اگر جائیں تو کہیں کوئی کام نہ کہہ دیا جائے اس لیے وہ اپنی جان چھڑانا ضروری سمجھ لیتے ہیں۔

ایسا بھی ہوا ماضی کے نامور لوگوں کو وہ مقام نہ مل سکا جو انکو بلند پایہ، اعلیٰ و ارفع کردار، بہترین صلاحیتوں، اعلیٰ فنکاری پر ملنا چاہیے تھا۔ ان تمام باتوں سے الگ میں ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں جو خود میں نے محسوس کی، ماضی میں ایک بلند پایہ کمال و فن حاصل کردہ لوگ جب خستہ حالات میں ہوں تو ہم ان کی فکر نہیں کرتے جب شروع میں عرض کیا ان کے پاس جانے سے کتراتے ہیں۔ ماضی میں کون کیا تھا؟ اب کیا ہے؟ یا پھر وہ اپنی زندگی کے لمحات کس طرح گزار رہا ہے اس پر کسی سے گلہ ہے نہ شکوہ۔ میرے دوست کہنے لگے آپ جن باتوں کا ذکرکرتے ہیں یہ لاحاصل ہیں ضرورت نہیں اس قسم کی باتوں کی۔ خان صاحب! آپکو معلوم ہے وہ زمانہ گزرگیا جب ان باتوں کو اہمیت دی جاتی تھی۔

یہاں آپ کو ایک مختصر جملہ کہوں گا ’’شاید ہم مردہ پرست تو نہیں؟‘‘ یہ تو خیر میرے دوست کی بات ہے ہر شخص اپنی رائے اور تبصرے میں آزاد ہے۔ بڑے بڑے نامور اداکار، کلاکار، شاعر، قلمکار، صحافی، ادیب، مفکر، مبلغ الغرض اپنے شعبہ ہائے زندگی میں پایے کا مقام رکھنے والے آخر میں آکر بے اختیار بے بس ہوجاتے ہیں چونکہ ان کی جگہ دوسرے وقت کے کمال یافتہ نوجوان اعلیٰ اقدار کے لوگوں نے حاصل کرلی، اس لیے یہ ماضی کے بلند پایے کے لوگوں کو ہم یاد نہیں کرتے شاید وقت گزرنے کے ساتھ بھولتے جاتے ہیں خبر گیری تک نہیں کرتی آنے والے کو خوش آمدید جانے والے کو اللہ حافظ شاید ایسا ہی ہو۔

میں درجہ چہارم کا طالبعلم تھا میرے ایک کامل جید استاد نے بڑی پیاری خاص بات کہی بولے ’’تم لوگ ابھی علم حاصل کر رہے ہو آگے بڑھو گے مزید علم حاصل کرو گے، استاد پرائمری کا ہو یا سیکنڈری کا وہ استاد رہے گا جب کہ اس کا طالبعلم کمشنر یا بڑے عہدے پر پہنچ جاتا ہے لیکن اس کا استاد وہی استاد ہی رہتا ہے وہ پرائمری یا سیکنڈری کے بچوں کو پڑھاتے ہوئے بوڑھا ہوجاتا ہے اس کے بعد ملازمت سے ریٹائرڈ ۔ بچوں دراصل یہ ہے زندگی ایک استاد کی۔‘‘ بڑی اہم بات ہے آج بھی یاد ہے عموماً یاد آتی ہے مشاہدے سے دیکھا بات 100 فیصد صحیح اس وقت جس استاد نے یہ بات کہی وہ تو اب اس دنیا میں نہیں لیکن حقیقتاً وہ استاد ریٹائرڈ ہوئے، جو کہا صحیح کہا جو آج بھی صحیح ہے۔

سیکنڈری کے ایک استاد نے مجھے ایک مراسلہ اپنے لڑکے کے ہاتھ بھجوایا جس کو پڑھ کر میں نے جو بھی عمل کیا وہ اپنی جگہ لیکن اس مکتوب کو اس قدر حفاظت سے رکھا جیسے مجھے کوئی بہت بڑی رقم مل گئی۔ میں اس امر پر بے حد مسرور ہوا میرے کامل، جید، قابل ترین استاد نے مجھے اس قابل جانا جو اپنے صاحبزادے کے ہاتھ یہ خط بھیجا۔ میری خواہش ہے پورا نہیں لیکن مختصراً یہ مراسلہ جناب کی خدمت میں پیش کروں۔ قارئین اس کو پڑھیں اور اپنی گہری نگاہ سے اس مراسلے پر غور کریں ۔

منجانب: علیم اللہ، استاد سیکنڈری اسکول

مورخہ 1 دسمبر 1976

برخوردار! میرے شاگرد قادر خان۔ السلام علیکم! سدا خوش رہو!

بیٹا آج میں نے تم کو مین روڈ سے گزرتے دیکھا یقینا تم نے مجھے نہیں دیکھا ورنہ تم ضرور رکتے، حالات پہلے سے بھی خراب ہوگئے تم نے دیکھا ہے کچی آبادی والا مکان بڑا لڑکا ایک سرکاری اسکول میں پرائمری ٹیچر ہوگیا ہے دوسرا موٹرسائیکل مکینک کے پاس کام کرتا ہے۔ اب اگر یہ موٹرسائیکل کا کام پورا سیکھ بھی جائے تو اتنی حیثیت نہیں کہ کہیں اس کو علیحدہ دکان کراسکوں۔ بقیہ دونوں لڑکے ابھی زیر تعلیم ہیں، میرے ریٹائرمنٹ میں ابھی تقریباً چھ سال باقی ہیں۔ میرا ارادہ ہے ریٹائرمنٹ کے بعد جو بھی جی پی فنڈ ملے گا اس کو مکینک کی دکان کرادونگا یہ اچھا کام ہے دوسرے دونوں لڑکے بھی اس کے ساتھ کام کرینگے۔

بیٹا! تم کو معلوم ہے اب وہ زمانہ ختم ہوگیا جب استاد کی عزت تھی کہا جاتا تھا باپ سے بڑھ کر استاد ہے اب وہ عزت کہاں کیا کہوں چند باتیں ایسی ہیں جو بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ ایک بات اور ذہن میں ہے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک ٹیوشن سینٹر کیوں نہ کھول لوں؟ بقیہ زندگی علم دینے میں اسی طرح گزر جائے گی۔ بیٹا! مجھے بڑا فخر ہے تم واحد ایسے ہو جو میرے دوسرے شاگردوں سے زیادہ سعادتمند ہو۔ مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے جب تم کبھی کبھی مجھ سے گھر پر ملاقات کرنے آتے ہو۔ خالی ہاتھ کبھی نہ آئے اپنے استاد اور استانی کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آتے ہو، اکثر گھر پر تمہارا ذکر ہوتا ہے۔

بیٹا! پچھلے دنوں تمہارے بزرگوار والد صاحب بڑی تپاک سے ملے میں نے ان کو بھی اپنا ارادہ بتایا وہ کہنے لگے آپ اپنے شاگرد قادر خان کو کہیں وہ اپنے دوست کی دکان بغیر ایڈوانس دلا دیگا میں بھی ذکر کروں گا لیکن آپکا ذکر زیادہ اہم ہے۔ کرایہ بھی کم تقریباً ایک ماہ سے دکان خالی ہے۔ مکینک کی دکان کھولنے میں اوزاروں کے علاوہ صرف ایک لکڑی کی بینچ درکار ہوگی زیادہ خرچ نہیں وہ جیسے تیسے کر ہی لوں گا۔ بیٹا! اگر تم مناسب سمجھو تو بڑے لڑکے کے نام اپنے دوست کی خالی دکان دلوادو۔ دکان کا جو کرایہ ہوگا وہ ہر ماہ باقاعدگی سے ادا ہوتا رہے گا۔ بیٹا! تم کو اللہ رب العزت خوش رکھے آمین۔

دعا گو

تمہارا استاد

اس خط کو پیش کرنے کا مقصد یہ ظاہر کرنا مقصود ہے ایسا کامل، جید، عظیم المرتبت استاد ان کے کافی سے زیادہ شاگرد تھے چند تو مجھ سے بہت زیادہ مالدار اچھے گھرانوں سے تھے۔ میرے ذہن میں اپنے اس استاد کا مراسلہ ذہن کے دریچوں میں چہل قدمی کرتا رہا سوچتا رہا کہ دیکھو آج مجھ جیسے معمولی انسان کو اس قابل سمجھا۔ بڑے لڑکے نے محنت و مشقت سے چلائی دونوں بھائیوں کو ساتھ رکھا۔

میرے استاد کے بڑے لڑکے نے اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کو مکینک بنادیا ۔ انکو الگ الگ دکانیں کرا دیں۔ ایک اچھے مکان کے مالک بن گئے ان کے والدین میرے استاد اور استانی دونوں اس دنیا سے جاچکے ہیں لیکن یہ سارے بھائی پرائمری اسکول میں جو پرائمری کا ٹیچر ہے وہ اور بڑا مکینک دو چھوٹے مکینک بھائی یہ سب ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ان سب میں بہت اتفاق ہے سارے بھائی نیک سعادتمند ہیں۔ میں جب ان کی دکان پر جاتا تو ایک بات بڑی اہم کہتے تھے اور میں مسکرا کر ان سے ان کے والد کی استاد والی بات کہتا۔ مجھ سے بڑے لڑکے نے کہا بھائی جان! میرے والد نے ساری عمر بحیثیت استاد گزار دی سیکڑوں شاید اس سے بھی زیادہ شاگرد ہونگے لیکن ساری زندگی کچی آبادی کے مکان میں گزری ہم لوگوں کو اس قابل کر گئے کہ ہم کسی کے محتاج نہیں۔ مکان بھی اپنا اور دو بھائیوں کی انھوں نے شادیاں بھی کردی تھیں۔

چھوٹے والے رہ گئے ان کی وفات کے بعد شادیاں ہوئیں۔ ڈبل منزل مکان ہے سارے بھائی اور ان کی بیویاں سب ایک ساتھ ہیں۔ ہاں ایک بات یاد آئی میرے نزدیک ان کے مراسلے کی سب سے بڑی اہمیت اپنے ذاتی معاملات کو مجھ تک پہنچایا میں جب بھی ان کے گھر جاتا تو گھر کی ساری باتیں کرتے تھے ایسا لگتا تھا میں ان کا بڑا لڑکا ہوں۔ ان کی انکساری، خلوص، کسی بھی لالچ سے دور تھے میرے نزدیک ان کی بڑی اہمیت رہی ہے اور اکثر جب ان کی بہت یاد آتی ہے تو ان کا یہ خط نکال کر پڑھتا ہوں ذہن اس دور میں چلا جاتا ہے اس مراسلے کے مطالعے سے اس قدر تقویت حاصل ہوتی ہے جو شاید میں بیان نہ کر سکوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔