جمہور کے مسائل

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  منگل 20 مارچ 2018
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

پاکستانی جمہوریت میں سیاست دانوں کے اپنے مسائل ہیں اور جمہور کے اپنے مسائل ہیں۔ سیاست دان اپنے مسائل حل کرنے میں نہایت کامیاب نظر آتے ہیں، جب کہ عوام حسرت سے ٹی وی چینلز پر صرف ٹاک شوز دیکھ کر ہی گزارا کر رہے ہیں۔ حال ہی میں سینیٹ کے الیکشن ہوئے تو جمہور حیران تھے کہ جمہوریت کے دعویدار کیا کچھ کر رہے ہیں؟ تحریک انصاف کی پارٹی کس طرح انصاف کا مظاہرہ کر رہی تھی؟ ایک جانب عمران خان اس بات پر نالاں نظر آتے تھے کہ ان کی جماعت کے ووٹ ان کے مخالف امیدوار کو کیسے پڑ گئے؟

اس عمل کو انھوں نے غیر جمہوری، غیر اخلاقی قرار دیا اور کہا کہ وہ کمیٹی بٹھا کر پتہ لگائیں گے کہ کن لوگوں نے یہ منافقت کی اور پارٹی کے نظم و ضبط کے خلاف کام کیا، یہی کچھ ایم کیو ایم کے منتخب ارکان اسمبلی کے ووٹو ں کا ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یہی عمل دوبارہ عمران خان کی مرضی کے مطابق ہوا یعنی سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کے لیے بعض ووٹرز نے اپنی پارٹی کو چھوڑ کر عمران خان اور پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ ڈالا تو عمران خان کو یہ بے اصولی اور غیر اخلاقی بات بہت اچھی لگی بلکہ عمران اور پیپلز پارٹی نے دوسروں کے ووٹ حاصل کرنے کی خود سے کوششیں کیں اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔

مختصر یہ کہ ہمارے سیاستدانوں کے مسئلے ہی اس قسم کے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ کامیابی کیسے حاصل کی جائے، خواہ اس کے لیے انھیں جس قدر بھی غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل سے گزر نا پڑے، اور اگر کامیاب ہوجائیں تو دھڑلے سے کہیں کہ ہم جمہوری طاقت ہیں، کیونکہ انھیں عددی برتری حاصل ہے اور ناکام ہونے والا ٹاک شوز میں بیٹھ کر کہتا ہے کہ یہ غیر جمہوری اور غیر اخلاقی اور غیر قانونی عمل ہے۔ منافقت کا یہ عمل روزانہ اس جدید عہد کی ٹیکنالوجی ’ٹی وی‘ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کے کیا کیا مسائل ہیں اور وہ کس کامیاب طریقے سے انھیں حل بھی کررہے ہیں۔

دوسری طرف اس جمہوری تماشے میں جمہور کے الگ ہی مسائل ہیں اور ان میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے منتخب نمایندے ان مسائل کو پیدا کرکے فائدے بھی اٹھا رہے ہیں۔ مثلاً کراچی جیسے بڑے شہر میں کار پارکنگ کے نام پر عوام سے دن رات پیسہ بٹورا جارہا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی رقم ’اوپر‘ تک جاتی ہے۔ ’فٹ پاتھ‘ کا لفظ ہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ پیدل چلنے والوں کا حق ہے مگر اب یہ کار پارکنگ کا متبادل لفظ بن چکا ہے، جہاں کہیں فٹ پاتھ ہو اور قریب میں کوئی بازار یا اسپتال وغیرہ ہو، وہاں فٹ پاتھ پر موٹر سائیکلوں کی پارکنگ بنا کر عوام سے بیس بیس روپے وصول کرنا شروع کردیے جاتے ہیں۔

پھر یہ رقم صرف موٹر سائیکل کھڑی کرنے پر لی جاتی ہے، اس کی حفاظت کے لیے نہیں، صاف لکھا ہوا ایک ٹکٹ دیا جاتاہے کہ چوری ہونے کی صورت میں ہم ذمے دار نہیں۔ جب ذمے داری ہی نہیں تو پھر یہ تو سراسر بھتہ ہی ہوا؟ سب سے اہم بات کہ اسپتال جاکر ایک عام فرد کا ویسے ہی خرچہ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے، ڈاکٹرز کی معائنہ فیس ہی کم ازکم ہزار سے شروع ہوتی ہے، دوائیں الگ ہوتی ہیں، پھر اگر کوئی مریض اسپتال میں ہے تو تیماردار کو بار بار اسپتال آنا جانا پڑتا ہے، یوں ہر چکر پر سٹی گورنمنٹ کا ایک شخص سامنے آکھڑا ہوتا ہے کہ پارکنگ چارجز دو۔ گویا تیماردار ویسے ہی ٹینشن میں ہوتا ہے جب کہ ہر چکر پر پارکنگ چارجز مزید ٹینشن۔

راقم نے اس مسئلے پر ایک نجی اسپتال کے مالک ڈاکٹر کی توجہ دلائی تو انھوں نے نہایت خوبصورتی سے جواب دیا کہ اس سے تو عوام ہی کا فائدہ ہے کہ ان کی گاڑی کے چوری ہونے کے چانس کم ہوجاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ یہ ذمے داری تو اسپتال کی بنتی ہے کہ وہ کار پارکنگ کے لیے مناسب جگہ مہیا کرے اور اپنے گارڈ رکھے، عوام سے کیوں اس مد میں رقم بٹوری جارہی ہے؟

ہمارے ایک دوست کسی نجی کمپنی میں کام کرتے ہیں، ان کا شکوہ ہے کہ نجی اداروں میں ملازمین کا بہت استحصال ہو رہا ہے۔ مزدوروں کے لیے بنائے گئے قوانین پر عمل نہیں ہوتا۔ عموماً کوئی شخص جب بہت عرصے تک ملازمت کرکے تجربہ کار ہوجاتا ہے تو اس کی تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا جاتا، جو فوائد قانون کے تحت اسے ملنے چاہئیں وہ نہیں دیے جاتے اور ایسے ملازمین خاموشی سے ملازمت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، کیونکہ انھیں یہ باور کرا دیا جاتا ہے کہ اگر انھوں نے ذرا سی بھی آواز بلند کرنے کی کوشش کی تو ان کو ملازمت سے سبکدوش کرکے کسی نئے شخص کو ملازم رکھ لیا جائے گا اور عموماً ایسا بغیر کسی وجہ کے بھی کیا جاتا ہے کیونکہ کم تجربہ کار شخص وہ ہی کام کم اجرت میں کرنے کے لیے باآسانی مل جاتا ہے۔

اس سلسلے میں آج کل مزدور اپنے حقوق کے لیے کوئی یونین بنانے میں بھی کامیاب نہیں ہوتے، کیونکہ جیسے ہی سیٹھ یا مالک کو اطلاع ملتی ہے کہ فلاں فلاں ملازمین کوئی یونین بنانے جارہے ہیں تو انھیں فوراً ملازمت سے ہی فارغ کردیا جاتا ہے۔ یہ اطلاع یونین کو رجسڑ کرنے والے محکمے کی جانب سے بھی دے دی جاتی ہے اور اگر کوئی اپنے حقوق کے لیے کسی وکیل کی مدد لے تو مالک یا سیٹھ وکیل سے ہی ضمیر کا سودا کرلیتا ہے۔

ہمارے دوست کے بقول تقریباً تمام ہی نجی اداروں میں یہ معاملات چل رہے ہیں اور کوئی سیاسی تنظیم بھی اس میں مدد کرنے کو تیار نہیں ہوتی، اس طرح عوام کی ایک بڑی تعداد جو نجی اداروں میں کام کر رہی ہے اپنے حقوق کی پامالی پر صبر اور خون کے گھونٹ پی کر خاموش ہو جاتی ہے، مگر کسی سیاسی جماعت کے منشور میں اس قسم کے معاملات شامل نہیں ہوتے اور نہ ہی اس ضمن میں وہ کوئی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

اسی طرح سے ایک چھوٹا مگر اہم مسئلہ کسی سرکاری ملازمت کے لیے درخواست جمع کرانے کا ہے۔ اس عمل میں کم ازکم پانچ سو روپے کاغذات کی تیاری پر لگ جاتے ہیں اور اگر الگ سے پے آرڈر طلب کیا جائے تو پھر کم سے کم ایک ہزار سے اوپر ہی خرچہ آتا ہے۔ اس عمل سے ایک تو درخواست گزار کئی کئی کاغذات کی فوٹو کاپیاں کراتا ہے، ان کی تصدیق کے لیے سترہ گریڈ کا سرکاری شخص تلاش کرنے میں اپنا وقت بر باد کرتا ہے اور دوسری طرف پے آرڈر سے حکومتی ادارے اچھی خاصی رقم ان بے روزگاروں سے حاصل کر لیتے ہیں جن کو وہ روزگار دینے کا ’خواب‘ دکھاتے ہیں۔

یہاں ایک آدھ چھوٹے مگر اہم عوامی مسائل کا تذکرہ کیا گیا ہے مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے منتخب نمایندے اس طرف توجہ دیں گے؟ کیا وہ جس ایوان میں اپنے لیے کروڑوں کے ووٹ کی لین دین کرنے کا ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں وہاں عوام کے یہ چھوٹے مسائل حل کرنے کے لیے بھی کوئی عملی آواز اٹھائیں گے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔