غیرملکی کرکٹرز کے اتنے نخرے کیوں؟

سلیم خالق  منگل 20 مارچ 2018
ہمیں پی ایس ایل اور ٹور پر رضامند ٹیموں سے سیریز کرا کے دنیا کا اپنے اوپر اعتماد بڑھاتے رہنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

ہمیں پی ایس ایل اور ٹور پر رضامند ٹیموں سے سیریز کرا کے دنیا کا اپنے اوپر اعتماد بڑھاتے رہنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

ندیم عمر بہت ٹھنڈے مزاج کے انسان اورکرکٹ سے بہت محبت کرتے ہیں اسی لیے سب کی مخالفت کے باوجود کوئٹہ گلیڈی ایٹرزکی فرنچائز بھی خریدی، مگر گذشتہ 2 برس سے ان کی ٹیم پلے آف میں آکر مشکلات میں گھر جاتی ہے،گذشتہ سال بھی اہم غیرملکی کرکٹرز نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا اور فائنل میں ٹیم کو شکست ہوگئی۔

اب ایلیمنیٹر سے قبل بھی کئی پلیئرز دورے سے معذرت کر چکے،پہلی بار ندیم عمر کو اتنا غصہ آیا کہ میڈیا میں آکر کہنا پڑا ’’جو کھلاڑی پاکستان نہیں آنا چاہتے انھیں پی ایس ایل میں شامل نہ کیا جائے‘‘ ان کی بات درست اور غصہ جائز ہے،گذشتہ برس کا ایکشن ری پلے اس بار بھی دیکھنے کو مل رہا ہے، پی ایس ایل کے رنگ میں پھر بعض غیرملکی کرکٹرز نے بھنگ ڈال دیا۔

بیچارے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز حکام ہر برس اتنی سرمایہ کاری کرتے ہیں، ٹیم سخت محنت سے اگلے مرحلے میں آتی ہے مگر پھر غیر ملکی کرکٹرز کے انکار سے سارے کیے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے، دوسرے ایڈیشن کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے پی سی بی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس بار کنٹریکٹ میں خصوصی شق رکھی گئی ہے اور کوئی کھلاڑی پاکستان جانے سے انکار نہیں کرے گا، مگر ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی ، کئی کرکٹرز باری باری انکار کرتے رہے۔

شین واٹسن ایونٹ کے دوران پاکستان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے مگر جب بات ٹور کی آئی تو فیملی کی تشویش کا جواز دے کر چلتے بنے، بین لافلن، کیون پیٹرسن اور جیسن روئے بھی کوئٹہ کو بیچ منجھدار میں چھوڑ گئے۔

اب جو پلیئرز ملے وہ اتنا بڑا نام نہیں ہیں، تھشارا پریرا کو ملتان سلطانز نے کوئی میچ نہیں کھلایا وہ اب کوئٹہ کی ٹیم میں شامل ہو گئے ہیں، ایون مورگن کی خدمات سے کراچی کنگز کو محروم ہونا پڑا،لینڈل سمنز نے پہلے ناں پھر اب ہاں کر دی، شاید ایسا ریٹ بڑھانے کے بعد ہوا،پشاور زلمی کے ڈیوائن اسمتھ واپس چلے گئے،البتہ اسلام آباد یونائٹیڈ کے بارے میں اب تک یہی اطلاعات ہیں کہ سیم بلنگز کے سوا تمام کھلاڑی پاکستان آنے کو تیار ہوں گے۔

غیر ملکی کرکٹرز پی ایس ایل کا حسن ہیں، پلے آف میں اسلام آباد کے لیوک رونکی نے کراچی کنگز کیخلاف 92 رنز کی جو طوفانی اننگز کھیلی وہ اس کا اہم ثبوت ہے، اگر ان کے بغیر میچز کرائے جائیں پھر تو لیگ قومی ٹی ٹوئنٹی کپ ہی بن جائے گی۔

لہذا یہ پی سی بی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے کھلاڑیوں کو ایونٹ میں شامل کرے جو پاکستان آنے کو تیار ہوں،اگر پیٹرسن اور واٹسن نہ آئیں تو کچھ نہیں ہوگا، دنیا میں سیکڑوں دیگر باصلاحیت کرکٹرز موجود ہیں جنھیں بلایا جا سکتا ہے،ویسے بھی پیٹرسن تو اب ریٹائر ہو چکے، یو اے ای میں خالی گراؤنڈز اور آئندہ آنے والی دیگر لیگز پاکستان کیلیے خطرے کی گھنٹی بجا چکیں، جلد ہی ہمیں مکمل پی ایس ایل کو ملک میں منتقل کرنا پڑے گا ایسی صورت میں تو غیرملکی کرکٹرز کے خدشات جلد ختم کرنا انتہائی لازمی ہیں،ایک بات طے ہے کہ کوئی بھی کھلاڑی باہر سے پاکستان کی محبت میں یہاں کھیلنے نہیں آتا، ورلڈ الیون کے ہر پلیئر نے بھی ایک، ایک کروڑ روپے لیے تھے۔

ویسٹ انڈین ٹیم کو بھی بھاری رقم دی جائے گی، اس کے بیشتر کھلاڑیوں کو پاکستان میں کھیلنے پر کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے، ان کے اپنے بورڈ سے معاوضوں پر خاصے پرانے اختلافات ہیں، آپ یہ دیکھیں کہ کئی پلیئرز اپنے ملک کو ورلڈکپ میں کوالیفائی کرانے کی مہم میں شرکت کے بجائے پی ایس ایل کھیلنے دبئی آگئے، اس سے ایک بات ظاہر ہے کہ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ لیکن کہاں کہاں اور کس کس کو پیسہ دیا جائے گا،اخراجات بھی تو کنٹرول میں رکھنا ہوں گے۔

ایک طریقہ یہ ہے کہ دیگر بورڈز سے تعلقات اچھے بنائے جائیں اور ان کی لیگز میں شرکت پی ایس ایل میں حصہ لینے سے مشروط کردیں،کھلاڑیوں کو یقیناً اچھا معاوضہ دیں لیکن عادت خراب نہ کریں ورنہ۰ بعد میں بڑی مشکل ہوگی۔

انھیں سمجھائیںکہ اب ہمارے ملک میں حالات ماضی کے مقابلے میں خاصے بہتر ہیں، اکا دکا واقعات تو دنیا میں کہیں بھی ہو سکتے ہیں، ہمیں آہستہ آہستہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ مکمل طور پر واپس لانی ہے،پلیئرز کی دستبرداری جیسے معاملات ہمارا کیس خراب کر سکتے ہیں، جب سیکیورٹی ماہر ریک ڈیکسن لاہور اور کراچی کو میچز کیلیے محفوظ قرار دے چکے،جب سربراہ مملکت کے برابر سیکیورٹی فراہم کرنے کا یقین دلایا جا چکا تو انکار کیوں؟ پھر تو دبئی بھی نہیں آتے، لاکھوں ڈالرز اکاؤنٹ میں منتقل کرا کے اچانک خیال آیا کہ پاکستان غیرمحفوظ ہے یہ تو کوئی اچھی بات نہیں ہوئی، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے، اس کے پاس سرفراز جیسا فائٹر کپتان اور کئی دیگر میچ ونرز بھی موجود ہیں۔

یہ بات بھول جائیں کہ پیٹرسن اور واٹسن چلے گئے،بھرپور مقابلہ کریں،اس بات پر خوش ہوں کہ اپنے ملک میں ہم وطنوں کے سامنے اتنا بڑا میچ کھیلنے کا موقع مل رہا ہے، زندہ دلان لاہور بھی پی ایس ایل میچز کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں، وہ بھی بیحد مسرور ہیں،دونوں ایلیمنیٹرز میں شائقین کا جوش وجذبہ دیکھنے کے قابل ہو گا۔

اس سے قبل بھی گذشتہ برس لاہور میں جو میچز ہوئے ان میں بہترین ماحول دیکھنے کو ملا، میں نے خود بھی میچ کور کیے اور اس دوران اندازہ ہوا کہ بہترین سیکیورٹی فراہم کی گئی یقیناً اس بار بھی ایسا ہی ہوگا، اس کے بعد کراچی میں شائقین فائنل کے منتظر ہیں، یہاں بھی جوش و خروش آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے، اسٹیڈیم کافی حد تک تیار ہو چکا، اس بار جو ہوا بورڈ کو اس سے سبق سیکھتے ہوئے اگلی پی ایس ایل میں غیرملکی کرکٹرز کیلیے کوئی واضح پالیسی تیار کرنی چاہیے۔

اگر پورا ایونٹ منتقل نہیں کر رہے تو فائنل سے پہلے بھی چند ابتدائی میچز کا پاک سرزمین پر انعقاد کریں تاکہ انھیں دیکھ کر غیرملکی کرکٹرز کو سیکیورٹی صورتحال کا اندازہ ہو سکے اور فیصلے میں آسانی ہو، یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ طویل عرصے سے سونے میدان راتوں رات آباد نہیں ہو سکتے، ابھی چھوٹے چھوٹے قدم ہی اٹھانے ہیں، ویسٹ انڈیز اور زمبابوے کی ٹیمیں پیسے کیلیے کہیں بھی چلی جاتی ہیں انھیں بلانا کوئی مسئلہ نہیں۔

سری لنکن بورڈ سے بھی ہمارے تعلقات اچھے ہیں وہ بھی اپنی ٹیم بھیج دے گا لیکن دیگر کو قائل کرنے میں ابھی مزید کئی برس لگیں گے، اس سے ہمیں مایوس ہونے کی بھی ضرورت نہیں، ہمیں پی ایس ایل اور ٹور پر رضامند ٹیموں سے سیریز کرا کے دنیا کا اپنے اوپر اعتماد بڑھاتے رہنا چاہیے، پھر وہ دن بھی آئے گا جب بڑی ٹیمیں بھی ہمارے ملک میں ایکشن میں دکھائی دیں گی اور ہم عالمی ایونٹس کی بھی میزبانی کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔