الیکشن نہیں تو کچھ بھی نہیں

عبدالقادر حسن  اتوار 7 اپريل 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہمارے آپ کے قومی مسائل میں جس قدر انتشار پیدا ہو چکا ہے اور حالات جس قدر الجھ چکے ہیں، ان میں تعجب ہے کہ روز مرہ کے مسائل اور حالات حاضرہ پر لکھنے والے کالم نویس بھی ایک بڑی الجھن میں پڑ گئے ہیں جب کہ مضمون یا جواب مضمون لکھنے والوں کے لیے الجھن درپیش نہیں ہے،  میں ان کالم نویسوں میں سے ہوں جو روز مرہ کی اخباری رپورٹنگ کے راستے گزر کر کالم نویس بن گئے اور عادتاً یا اپنی اخباری تربیت یعنی رپورٹنگ کے لحاظ سے صرف تازہ اور روز مرہ کے موضوعات پر ہی لکھنے لگے، جب کبھی کوئی کالم مضمون بن گیا تو خود تعجب ہوا کہ میں نے یہ کیا کر دیا ہے۔

میں تو خبر کی روزنامہ اخبار میں رپورٹنگ کرتا ہوا کالم نویس بن گیا لیکن میں نے ایسے کالم نگار بھی دیکھے ہیں جو اگرچہ کسی اخبار میں نہیں رہے اور ’نیوز سنس‘ کی خوبی انھوں نے کسی اخبار میں خبروں کے ڈیسک پر کام کر کے حاصل نہیں کی بلکہ یوں کہیں کہ ان کی یہ ایک خداداد صلاحیت ہے جو غیر اخباری زندگی گزارنے کے باوجود ان کو حاصل ہو گئی۔ ہمارے ایک دوست تھے مرحوم خالد حسن بڑے نامور کالم نویس تھے۔

انھوں نے کبھی اخبار کے دفتر میں کام نہیں کیا تھا، وہ سرکاری ملازمت ترک کر کے صحافت میں آئے اور رپورٹنگ کرنے لگے، ساتھ ساتھ ہفتہ وار کالم بھی لکھا کرتے تھے، اپنے علمی و ادبی تعلقات کی وجہ سے وہ ایک کامیاب اخبار نویس بن گئے، اگرچہ بھٹو دور میں پھر سرکاری ملازمت میں چلے گئے اور بھٹو صاحب کے پہلے پریس سیکریٹری بن گئے لیکن یہ آزاد منش یہ ملازمت زیادہ دیر جاری نہ رکھ سکا۔ ان دنوں ایک کالم نویس ایاز امیر بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ کبھی عملاً صحافی نہیں رہے لیکن بطور ایک کالم نگار کے وہ ایک کامیاب اور پاپولر صحافی ہیں اور سیاستدان بھی۔ اسی طرح کچھ اور مثالیں بھی مل جائیں گی لیکن ایک صحافی کا اپنے قارئین یا عوام کے ساتھ جو تعلق ہوتا ہے، وہ ڈگریوںاعلیٰ ملازمتوں اور تحریری صلاحیتوں سے پیدا نہیں ہوتا۔ وہ ایک خاص مزاج سے متعلق وصف ہے۔

مزاج کی یہ خاصیت زیادہ تر صحافیوں میں پائی جاتی ہے اور وہ بھی کارکن صحافیوں میں۔ ایک زمانہ تھا کہ اخباروں کے دفتر صحافت کی تربیت گاہ اور اکیڈیمی بھی ہوا کرتے تھے۔ سینئر صحافی اپنے جونیئر ساتھیوں کو ان کے شعبے کی تربیت دیتے تھے۔ مثلاً میں ایک رپورٹر تھا، اگر کبھی رپورٹنگ میں کوئی غلطی رہ جاتی تو شہید صاحب (نیوز ایڈیٹر) کی بلند، بے تکلف آواز گونجتی، اوئے توں ایہہ کیہہ لکھ کے لیایا ایں یعنی کیا لکھ کر لائے ہو، پھر وہ غلطی کی نشاندہی کرتے۔ ایسی غلطی پھر نہیں ہوتی تھی۔ ان دنوں یا تو وہ سینئر نہیں رہے یا جونیئرز کا مزاج بدل گیا ہے کہ مجھے اخباروں میں غیر اخباری غلطیاں دکھائی دیتی ہیں۔

میرا نہیں خیال کہ صحافتی زوال کے اس دور میں کوئی بڑا پائے کا صحافی پیدا ہو گا پھر رہی سہی کسر ٹی وی نے پوری کر دی ہے، اس کی اسکرین پر صحافت اور زبان و کلام کی جو مٹی پلید کی جاتی ہے، یہ بہت ہی نا مناسب بلکہ شرمناک ہے۔ میرا خیال ہے اخباروں اور ٹی وی کو دیکھ کر اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اب صحافت کے معیار بدل گئے ہیں۔ اس پر تو بات ہوتی ہی رہے گی فی الحال الیکشن۔

عام خیال تھا کہ یہ آواز لندن سے نہیں کینیڈا سے آئے گی لیکن الطاف صاحب نے الیکشن کو موثر کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے اور اب بلا سوچے سمجھے ان کے پیروکار اسے دہرانا شروع کر دیں گے۔ انھوں نے جو پہل کی ہے، اس پر شیخ الاسلام پریشان ہیں کہ الیکشن کو سبوتاژ تو انھوں نے کرنا تھا کر کوئی اور گیا ہے یعنی یہ کوشش اور پہل کسی دوسرے نے کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن امیدواروں سے جو سوالات پوچھ رہا ہے اور جس طرح انھیں زچ کر رہا ہے اسلامی تعلیمات میں تو اس کی گنجائش نہیں ہے۔ ایک بدو حاضر ہوا اور اسلام لانے کی خواہش کی۔ حضور پاکؐ نے اسے کلمہ سکھایا اور وہ دیہاتی یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ میں نے اس سے زیادہ کچھ کہوں گا نہ اس سے کم۔ آنحضرتؐ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے مومن ہونے کی بشارت دی۔

اسلام خدا کی وحدانیت اور رسول پاک کی رسالت پر ایمان لانے کا نام ہے لیکن میں اس اہل نہیں کہ اس پر مزید کچھ عرض کر سکوں اگر کوئی انسان دل سے تصدیق کرتا ہے اور زبان سے اقرار تو کفر کی برتری کے اس زمانے میں ہمیں اور کیا چاہیے۔ الیکشن کے دشمن بہت ہیں کیونکہ یہ طے ہے کہ ملک کو صرف الیکشن ہی بچا سکتے ہیں اور چیف الیکشن کمشنر کی اس بات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اس ملک بقا کے لیے الیکشن لازم ہے ورنہ یہ ملک باقی نہیں رہے گا۔ ان کی نگرانی میں الیکشن کمیشن اسی جذبے سے کام کر رہا ہے اور یہ ادارہ ملک کو بچانا چاہتا ہے۔

عوام کو اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ان کے لیڈر اس غلط فہمی میں رہ سکتے ہیں کہ وہ اس کے بغیر بھی گزر بسر کر سکیں گے۔ ان کی جائیداد باہر ان کی دولت باہر اور اولاد بھی باہر اس ملک میں ان کا اگر کچھ ہے تو اقتدار کی کرسی ہے لیکن ہمارا آپ کا یہاں کچھ بھی نہیں۔ ایک ٹوٹی پھوٹی کرسی بھی نہیں اور اب تو دو وقت کی روٹی بھی نہیں لیکن روٹی اگر ملے گی تو یہیں سے ملے گی اور زندگی کی سلامتی بھی اسی ملک سے ہے۔ اس لیے ہر قیمت پر ووٹ ڈالیں اور الیکشن کے دشمنوں کو ناکام بنا دیں۔ کینیڈا اور برطانیہ کی آرام دہ اور عیش والی زندگی رکھنے والوں کو ہماری کیا فکر۔ ہمیں اپنی فکر خود ہی کرنی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔