تاریخ کے سبق آموز باب

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  اتوار 7 اپريل 2013
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

کنفیوشس کہتا ہے کہ وہ حقائق جو آنکھوں سے نہیں دیکھے اور کانوں سے نہ سنے جاسکیں ان سے زیادہ سچے اور واضح حقائق اور کوئی نہیں۔ اصل حقیقت تو نگاہوں سے اوجھل ہے، ظاہر اور باطنی حقائق میں زمین و آسمان کا فرق ہے جب کہ سقراط اسی حقیقت کو اس طرح واضح کرتا ہے کہ تم لوگ بیش بہا چیزوں کو کم بہا تصور کرتے ہو اور جن چیزوں کی کوئی قیمت نہیں ان کو بیش بہا سمجھتے ہو، تم نرے دھوکے اور گھاٹے میں ہو۔

دنیا کی حرص اور یہاں کا سازوسامان و اسباب انسان کو اصل خوشی سے محروم کردیتے ہیں، اگر انسان زندگی میں حقیقی خوشی چاہتا ہے تو اسے دنیا کے سازوسامان سے کنارہ کشی نہیں لیکن حسب ضرورت واجبی سا لگاؤ رکھنا پڑے گا، اس جہان فانی کی محبت ہماری حقیقی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، انسان کی اصل ضروریات انتہائی مختصر ہیں لیکن انسان اپنی ضروریات کا دائرہ اتنا پھیلا دیتا ہے کہ پوری زندگی کا سفر تمام ہوجاتا ہے لیکن ضروریات و خواہشات کبھی ختم نہیں ہوتیں اور انسان اسی حرص میں لب گور تک جا پہنچتا ہے۔

ہم تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھتے؟ تاریخ کا مطالعہ انسان کو خودکشی سے روکتا اور حیات آفرین، شعور وآگہی بخشتا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ (جنھیں پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے) کی حیات اس قوم کے لیے جسے اﷲ تعالیٰ حکمراں ہونے کا شرف بخشے نمونہ ہے۔ جب خلیفہ سلیمان نے بیماری کے آخری ایام میں آپ کو اپنا جانشین نامزد کیا تو آپ نے خلیفہ کے انتقال کے بعد مسند خلافت کو قبول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اے لوگو! میری خواہش اور تمہاری استصواب رائے کے بغیر مجھے تمہارا خلیفہ مقرر کیا گیا لیکن میں تمہیں اپنی بیعت سے خود ہی آزاد کیے دیتا ہوں، تم جسے چاہو اپنا خلیفہ مقرر کرلو‘‘۔

مجمع سے بالاتفاق آواز آئی’’یا امیرالمومنین! ہمارے خلیفہ آپ ہی ہیں‘‘ ارشاد فرمایا ’’صرف اس وقت تک میں اطاعت الٰہی کی حد سے قدم باہر نہ رکھوں‘‘۔ آپ نے اپنے دور خلافت میں جو طویل مثالی اصلاحات فرمائیں وہ بلاشبہ انقلابی تھیں۔ جب خلافت کی ذمے داریوں کا پہاڑ آپ پر ٹوٹا تو غذا اور خوراک اور لباس انتہائی سادہ ہو گئے، سارا دن سلطنت کی ذمے داریاں ادا فرماتے اور رات کو عشاء پڑھ کر تن تنہا مسجد میں بیٹھ جاتے، ساری ساری رات جاگتے اور گریہ و زاری میں بسر کردیتے۔

آج ہمارے درمیان کتنے ایسے سیاستدان اور رہنما ہیں جو اندیشہ آخرت اور اﷲ اور اس کے رسولؐ کے سامنے جوابدہی کے خوف اور احساس سے لرزہ براندام ہوں؟ سب ہی پاکستان کو بچانے اور انقلاب لانے کے بلند بانگ دعوے کرتے نظر آتے ہیں لیکن ان کے دلوں اور نیتوں میں کیا چھپا ہے اس کی گواہ پاکستان کی گزشتہ 65 سالہ تاریخ ہے، سابقہ حکومتوں نے گزشتہ 65 برس میں وطن عزیز کی جتنی اور جس طرح عظیم خدمت کی ہے وہ تاریخ کا بخوبی حصہ بن چکی ہے اور اس بے مثال تاریخ کا ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بدرجہ اتم گواہ ہے، ہمارے لیڈر صاحبان جس اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کے لیے اپنا دن رات ایک کیے دیتے اور جائز و ناجائز تمام تر ہتھکنڈے اپناتے اور بیش قیمت توانائیاں صرف کرتے ہیں وہ اقتدار، وہ کرسی، وہ حکومت، وہ سیاست کس قدر بے وفا اور ناپائیدار ہے اس کی ایک معمولی جھلک ملاحظہ فرمایئے۔

کافی عرصے پہلے کی بات ہے ایک میگزین کے مطالعے کے دوران ایک صفحے پر نظر پڑی، امریکا کے صدر کینیڈی اپنے والد کے ساتھ کھیلتے دکھائے گئے تھے سوچنے لگا کہ یہ شخص کتنا خوش نصیب ہے اربوں پتی ہے، بیٹا امریکا کا صدر، دوسرا وزیر، تیسرا سینیٹر۔ دولت و اقتدار ان کی باندیاں ہیں، کیا دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی خوش نصیب ہوسکتا ہے۔۔۔۔پھر عرصہ بیت گیا اور اتفاق سے بوڑھے کینیڈی کی تصویر اسی میگزین میں دیکھنے کا اتفاق ہوا، لیکن اب صورت حال یکسر مختلف تھی، قسمت کی دیوی ہمیشہ مہربان نہیں رہتی۔ کینیڈی فالج زدہ اسٹریچر پر پڑا تھا۔ اسٹریچر پر انھیں جیکولین کے کمرے میں لے جایا جارہا تھا وہ اپنے مقتول بیٹے جان کینیڈی کی بیوہ کو اوناسس سے شادی پر مبارک باد دینے جارہے تھے، زیادہ عرصہ پرانی بات نہیں کہ جب ایک فضائی حادثے میں کینیڈی خاندان کا آخری چشم و چراغ بھی لقمہ اجل ہوگیا۔

31 اکتوبر 1984 میں نہرو کی اکلوتی بیٹی، 71 پاک بھارت کی بھارتی ہیرو اور بھارت کی وزیر اعظم جس نے مشرقی پاکستان میں ہزاروں بھارتی مسلح گوریلوں کو داخل کرکے وہاں خون کی ندیاں بہادیں اور جس کے حکم پر سکھوں کی عبادت گاہوں پر فوج کشی کی گئی اسے اپنے ہی محافظوں نے مار ڈالا اور پھر اس کے بعد اس کے بیٹے اور سابق بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی بھی خودکش حملے کا شکار ہوئے۔

بھٹو جیسا ذہین لیڈر جسے عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل تھی لیکن اپنی کرسی کی مضبوطی کے دعوے کے باوجود اپنے ہی ایک محسن کے ہاتھوں تختہ دار تک پہنچ گئے، پھر جنرل ضیاء الحق بھی اپنے ساتھیوں سمیت فضائی سازش کی نذر ہوگئے۔ اکتوبر 1999 میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف بھاری مینڈیٹ سے منتخب ہونے کے باوجود جنرل مشرف کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہوکر قید ہوئے اور پھر جلاوطن بھی۔ 2008 میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی اور پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت بنی تو وہی جنرل مشرف جو اپنے دور اقتدار میں PPP اور PMLN کے بارے میں کہتے تھے کہ اب ان پارٹیوں کا دور کبھی نہیں آئے گا خود عافیت اسی میں جانی کہ وطن چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور آج نگران حکومت کے دور میں جب وہ واپس ہوئے ہیں تو تاریخ کے سبق آموز باب میں ایک نئے اضافے کے آثار و امکان کی پیش گوئیاں عروج پر ہیں جب کہ صدر زرداری جنہوں نے ایک زمانے میں خود بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں اب نئی حکومت کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اقتدار کی جنگ میں خون کے رشتے تک باہم دست وگریباں ہوئے ایک مثال دارالشکوہ کی ہی لیجیے۔ تخت کے بجائے تختہ نصیب ہوا، بھائی (اورنگ زیب) کے حکم پر دلی کے ایک تنگ و تاریک مکان میں بند کر دیا گیا۔ شاہ جہان قید تنہائی میں مرا اور نورجہاں ملکہ ہند کو مرنے تک لاہور کی حدود سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی، بہادر شاہ ظفر سے جب انگریزوں نے اقتدار چھینا تب دلی میں بڑا قتل عام ہوا، شہزادوں اور شہزادیوں نے بمشکل بھاگ کر اپنی جان بچائی، بعض شہزادیوں نے اپنے ہی ملازموں سے شادیاں کر لیں اور شہزادے عموماً تانگہ بان بن گئے۔ تقسیم ہند کے بعد وطن عزیز کا قیام عمل میں آیا لیکن قائداعظم کی پراسرار حالات میں وفات، نوابزادہ لیاقت علی خان کا قتل، محترمہ فاطمہ جناح کی لاش پر ضربوں کے نشان، بھٹو کو پھانسی، مجیب الرحمن کی بغاوت اور قتل، ضیاء الحق کا ہوائی حادثہ، محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت یہ سب تاریخی حادثات، تقدیر کے عجائبات اور ہماری سیاست کی ستم ظریفی تھے۔

یہی اس دنیا کی بے ثباتی اور تاریخ کا المیہ و سب سے بڑا سبق ہے جس کی جانب ہم توجہ نہیں دیتے، تاریخ انسان کو خودکشی اور اجتماعی ہلاکت سے روکتی اور دائمی حکمرانی کے گر سکھاتی ہے، آج دنیا میں انقلابی سیاست کا آغاز ہوچکا ہے انقلاب ایران تو اب پرانی بات ہوگئی، شاہ ایران کا جب تختہ الٹا تو اسے کن عبرتناک حالات سے دوچار ہونا پڑا سب جانتے ہیں، عراق میں صدام حسین کی طویل حکومت کا خاتمہ اور پھانسی پورے خاندان کی تباہی وبربادی اس کے نصیب کے ساتھ ساتھ اعمال کے بھی بشاشت زدہ ہونے کی عجب داستان ہے، تیونس کے بعد مصر میں کامیاب انقلاب اور حسنی مبارک کے طویل دور کا سبق آموز خاتمہ، لیبیا میں کرنل قذافی کا عبرتناک انجام اور حکومت کی تبدیلی، الجزائر اور یمن میں اﷲ اکبر کے نعروں کی گونج، ہماری آیندہ حکومت کے لیے بھی تاریخ وہ سبق ہے جس سے اگر نصیحت نہ لی گئی تو آج دنیا میں برپا ہونے والی انقلابی سیاست کا یہ طوفان ہمارے ملک میں بھی سب کچھ بہا لے جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔