جرائم کی بنیادیں

سعد اللہ جان برق  بدھ 21 مارچ 2018
barq@email.com

[email protected]

کئی سال پہلے کی بات ہے، ہم لاہور میں ایک مرغن دعوت سے فارغ ہو کر چلے تو راستے میں غلطی یہ کی کہ ایک گنے کے جوس والے سے ٹھنڈا ٹھار جوس پیا جس سے مزید بھڑکی لگی، پھر تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہم کوئی ٹھنڈی چیز پیتے رہے لیکن پیاس اور زیادہ بڑھتی رہی، پیٹ مشک کی طرح پھول گیا لیکن پیاس تھی کہ بجھ کر نہیں دے رہی تھی۔

مجبوراً سارے کام چھوڑ کر ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے کیونکہ واپسی کا ٹکٹ بھی لے رکھا تھا، دل و دماغ بھی ساتھ نہیں دے رہے تھے، ویٹنگ روم میں ایک بوری کی طرح ڈھے گئے لیکن پیاس کہاں چھوڑنے والی تھی، ویٹنگ روم کے نلکے سے منہ لگایا اور اچھا خاصا گرم پانی پی لیا ۔ اچانک ہم نے محسوس کیا کہ پیاس بجھ گئی، ایک مرتبہ پھر گرم پانی پیا تو کافی زیادہ افاقہ محسوس کیا، بینچ پر لیٹ کر چائے منگوائی، رہی سہی پیاس بھی بجھ گئی اور ہم آرام سے سوگئے۔

ان دو واقعات کو اپنے معاشرے پر منطبق کرتے ہوئے سوچئے کہ یہ جو اس وقت دو لت کی ’’ العطش العطش ‘‘ لگی ہوئی ہے کیا یہ مزید، پھر مزید اور پھر مزید دولت سے بجھ سکتی ہے اور سوچنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، سامنے سب کچھ نظر آرہا ہے کہ لوگ لکھ پتی،کروڑ پتی، ارب پتی اور کھرب پتی ہورہے ہیں لیکن ایک بھی مثال کہیں نہیں ملے گی کہ جب کسی نے کہا ہو کہ ’’ بس۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ تشخیص اور علاج دونوں ہی غلط ہیں اور ’’ مقام ‘‘ یعنی نظام تو ان دونوں سے بھی زیادہ غلط ہے۔ ہم نے جو نظام کو تشکیل دیا ہوا اسے رنگا برنگ اور چتکبرا نظام کہنا چاہیے ۔  ملک تو برائے نام اسلام کے نا م پر بنا تھا، لوگوں نے اسے اتنا رف اور غلط استعمال کیا کہ طرح طرح کے رنگین ٹکڑے چپکانا پڑے اور یہ پورا ملنگوں کا رنگ برنگ کمبل بن گیا ۔ جس کا بھیانک نتیجہ یہ نکلا کہ عدم تحفظ کا احساس شدید سے شدید تر ہوگیا اور شدید ترین ہوتا جا رہا ہے کیونکہ حکومت یا نظام تب کہلایا جا سکتا ہے جب حکومت اور نظام اپنی چار بنیادی ذمے داریاں پوری کر رہا ہوں ۔

1 ۔ جان مال اور عزت کا تحفظ ۔2  ۔ صحت۔ 3 ۔ تعلیم اور نمبر 4  ۔ روزگار یا ذریعہ معاش ۔ جب ان چار چیزوں کی طرف سے ’’ فرد ‘‘ کو اطمینان ہو جائے تو انسان کیا پاگل ہے جو خوامخوا  غلط کام کرکے مال جمع کرنے کا دیوانہ ہو جائے، آرام سے عزت کی زندگی کیوں نہیں جیتا ۔ لیکن یہاں عدم تحفظ کا احساس اتنا شدید اور ہمہ گیر ہے کہ دولت کے ڈھیر پر بیٹھ کر بھی اسے یقین نہیں کہ وہ محفوظ ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ اسے اپنے آپ کو سب سے زیادہ مضبوط اور محفوظ بنانا ہے اور اگر میں اس دوڑ میں پیچھے رہ گیا تو کچل دیا جاؤں گا ۔

یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا۔ ایسا ہی تعلیم صحت اور  روزگار کا معاملہ بھی ہے اور جس معاشرے کے ہر فرد کا سارا بار خود اس کے اپنے کندھوں پر ہو تو لازم ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کما کر زیادہ سے زیادہ خود کو محفوظ بنانے کی کوشش کرے گا، چاہے جائز ہو یا ناجائز ۔ یہی جرائم کی اصل بنیاد ہے بلکہ نظام کی یہی ناہمواری ہی ’’ ام الجرائم ‘‘ ہے کہ جس کا جس طرح بھی بس چلے اپنے تحفظ کے لیے کوشاں رہے گا، چاہے سرکار دربار کا با اختیار فرد ہو یا چوری ڈکیتی یا فراڈ کرنے والا ہو۔ کہیں بھی بس نہ چلے تو جرائم، منشیات بلکہ دہشت گردی تک جائے گا۔ اب آتے ہیں علاج کی طرف تو علاج سارے کا سارا ایلوپیتھی طرز کا ہے جس میں ’’ مرض ‘‘ کا علاج کیا جاتا ہے، بخار کے لیے اینٹی فیور، درد کے لیے پین کلرز اور جراثیم کے لیے اینٹی بائیو ٹیکس حالانکہ یہ امراض نہیں بلکہ امراض کی علامات ہوتی ہیں۔

اس کے برعکس ہومیو پیتھی طرز علاج کا نظر یہ الٹا ہے۔ ہم نظریات کی بات کرتے ہیں ورنہ عملی طور پر یہ سارے طریقہ ہائے علاج اب علاج نہیں بلکہ کاروبار بلکہ انڈسٹری بن چکے ہیں ۔ہومیو پیتھک طریقہ علاج میں ’’مرض ‘‘ کا علاج نہیں ہوتا بلکہ ’’ مریض ‘‘ کا ہوتا ہے کہ آخر کیاوجہ ہے کہ اس پر مرض کے جراثیم کار گر ہو گئے ہیں جب کہ اسی جیسے لوگوں پر کارگر نہیں ہوئے حالانکہ جراثیم کہاں نہیں ہوتے اور حملہ آور کس پر نہیں ہوتے بلکہ اکثر محتاط اور صاف صفائی رکھنے والوں پر زیادہ اثر انداز ہو جاتے ہیں اور گرد و غبار میں اٹے ہوئے غیر محفوظ اور غیر صحت مند کھانے پینے والے محفوظ رہ جاتے ہیں، اس لیے اثر انداز ان پر ہوتے ہیں جن کا اندرونی نظام مضبوط ہوتا ہے اور وہ حملہ آور وں کو غیر مؤثر کر دیتا ہے ۔یہی ہماری قوم کا علاج ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔