بلوچستان کل اور آج (دوسرا حصہ)

زاہدہ حنا  بدھ 21 مارچ 2018
zahedahina@gmail.com

[email protected]

آر سی ڈی سی گوادر کے ناصر سہرابی اور ان کے ساتھیوں نے پانچویں کتب میلے کا اہتمام بڑے پیمانے پر کیا تھا۔ عبدالمجید گوادری آڈیٹوریم لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ حاضرین میں 50 سے زیادہ بلوچ خواتین اور لڑکیاں بھی موجود تھیں۔

فاطمہ حسن اس سے پہلے کے گوادر کتاب میلے میں شریک ہوچکی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ پہلی مرتبہ اس میں شریک ہوئیں تو بمشکل تین یا چار خواتین جلسہ گاہ میں موجود تھیں اور اب تو دنیا ہی بدلی ہوئی تھی۔ ان خواتین میں نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی بھی بیٹھی ہوئی تھیں جو سیاست پر گفتگو کررہی تھیں۔

آر سی ڈی کونسل کو اس بات کی داد دینی چاہیے کہ اس نے اپنے کام کی ابتدا پرائمری اسکول سے کی تھی اور اب اس کے زیراہتمام ایک ڈگری کالج، لڑکوں کے لیے چار اور لڑکیوں کے لیے تین ہائی اسکول چل رہے ہیں۔ ان لوگوں نے گوادر کلب بنایا، لائبریری قائم کی، بہبود جوانان، بہبود نسواں، تعلیم نسواں اور فروغ ادب اور ثقافت کے لیے خدمات انجام دیں۔

بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جس کے بزرگوں اور نوجوانوں کو کتابوں سے عشق ہے۔ یہ وہی عشق ہے جس کے سبب شعروادب ایک طرف رہے یہاں فلسفے، تاریخ اور عمرانیات کی کتابیں سب سے زیادہ تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ یہ جو پانچواں کتب میلہ آر سی ڈی سی کے تحت گوادر میں منعقد ہوا، اس میں کتاب فروخت کرنے والوں سے پوچھیے، یہ آپ کو بتائیں گے کہ یہاں نوجوانوں نے کن موضوعات پر سب سے زیادہ کتابیں خریدی ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جنھوں نے ایک ایسے خطے کے ذہین اور سوال کرنے والے نوجوانوں کو کتاب سے جدا ہو کر پہاڑوں پر جانے کے لیے مجبور کیا۔

گوادر تیزی سے بدل رہا ہے، فضا میں بھاری مشینوں کی گھن گرج ہے، سڑکیں بن رہی ہیں، بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں بچھ رہی ہیں، سمندر جو ہزاروں برس سے اپنا تھا، اب کچھ پرایا محسوس ہورہا ہے۔ بلوچ بوڑھے اور نوجوان آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ یہ ترقی ہمیں بھی اچھی لگتی ہے، لیکن ہماری شناخت کا کیا ہوگا؟

بڑے اسٹور، ریستوران اور ریسٹ ہاؤس کھل رہے ہیں، بازار میں ایرانی مصنوعات کی بھرمار ہے۔ ذوالقرنین جمیل، صدر انجمن ترقی اردو ایران کی بنی ہوئی زعفرانی آئس کریم سے ہمارا منہ میٹھا کراتے ہیں۔ ایرانی ڈیزل اور پٹرول بھی اسمگل ہوکر آرہا ہے۔ گوادر سے حب اور پھر کراچی تک اس کے خریدار ملتے ہیں۔گوادر ایک چھوٹا سا ساحلی شہر اپنے پرزے نکال رہا ہے۔ مجھے برادرم ادیب سہیل کے چند اشعار یاد آگئے ہیں جو ان کے مجموعے ’یہ زندگی یہ اپسرا‘ میں شامل ہیں:

بلوچستاں، گوادر تیری پیشانی کا جھومر ہے

بجا ہے ناز اس پر، تو مقدر کا سکندر ہے

یہ ارض پاک میں اک شہر ایسا بن کے ابھرے گا

کہے گا دیکھنے والا، کراچی کا یہ ہم سر ہے

تو باہر جتنا باثروت نظرآتا ہے، نظروں کو

حقیقت میں کہیں بڑھ کر وہ دولت تیرے اندر ہے

یہ غزل مسلسل ادیب سہیل نے بارہ پندرہ برس پہلے کہی تھی۔ آج کے گوادر کو دیکھتے تو وہ کیسے شاداں و فرحاں ہوتے۔ شادمانی تو بلوچوں کو بھی ہے لیکن وہ اندیشہ ہائے دور و دراز میں بھی گرفتار ہیں۔ گوادر کے لوگوں کے سینے میں آزادی اور علم کی طلب گاری کی آگ جلتی ہے، وہ ترقی کے خواہاں ہیں لیکن بلوچ تشخص کا تحفظ ان کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ وہ اپنے سمندر میں جانے والے ماہی گیروں کو جاتے اور پھر خالی ہاتھ واپس آتے دیکھتے ہیں تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ گہرے سمندروں میں کھڑے ہوئے ٹرالروں کو کس نگاہ سے دیکھیں۔ یہی وہ ٹرالر ہیں جنھوں نے اپنے جدید جال سمندر میں ڈال کر ماہی گیروں کے حصے کی مچھلیاں اور جھینگے چھین لیے ہیں۔ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی ہے۔ یہ پانی عام بلوچ کو دستیاب نہیں، جس نے اسے ناراض کر رکھا ہے۔

بلوچ اپنے حقوق کی لڑائی قیام پاکستان کے فوراً بعد سے لڑتے رہے ہیں۔ ان لڑائیوں کی جھلک ہمیں اخباروںکے صفحات اور ادبی کتابوں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ یہاں ایک سماجی کارکن فریدہ مولابخش کی ایک تحریر یاد آتی ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’مجھے آج بھی یاد ہے جب مجھے آر سی ڈی سی کی ٹیم میں شامل کرکے کیچ ڈسٹرکٹ میں اسکول قائم کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ ہماری اس ٹیم میں کوئٹہ سے آئی ہوئی دو اور لڑکیاں ثمینہ رئیسانی اور فضا خانم بھی تھیں۔

ان کی موجودگی اور ساتھ نے میری ہمت بڑھادی، ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ پھر بھی میں گوادر جانے کے لیے بے چین رہتی تھی، کیونکہ وہاں میری شیرخوار بچی تھی اور کیچ میرے لیے ایک نیا علاقہ تھا۔ میرے ساتھیوں نے مجھے بہت سمجھایا۔ آخر میں مان گئی اور اپنی ساتھیوں کے ساتھ گاؤں کا دورہ کیا۔ اسکول کھولے، مگر پھر اچانک ہماری ساتھی فضا خانم کی طبعیت ناساز ہوئی، اور وہ ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلی گئی۔ وہ دن میرے لیے قیامت سے کم نہ تھا۔ اچانک کسی ساتھی کا اس طرح جدا ہونا کتنا درد بھرا ہوتا ہے اس کا مجھے اس وقت احساس ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرا آرسی ڈی سی سے ایک کبھی نہ ختم ہونے والا مضبوط رشتہ قائم ہوا۔‘‘ فریدہ کے یہ جملے ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ سماجی کام کرنے کے لیے جو لوگ نکلتے ہیں، وہ آخرکار کس طرح تراشا ہوا ہیرا ہوجاتے ہیں۔

ہم میں سے کون ہے جو یہ نہیں جانتا کہ ادب کے ذریعے لوگوں کو سوچنے، سمجھنے اور سماج کو بدلنے پر اکسانے والے ادیبوں کے حصے میں زہر کا پیالہ سقراط کے زمانے میں بھی آتا تھا اور آج بھی ان کی زباں بندی حکومتوں کے لیے نہایت اہم ٹھہرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ادیب اور دانشور کبھی سرکار دربار میں بار نہیں پاتے جو زبان وادب کو مقتدر طبقات کے خلاف ایک کاری ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ باضمیر اور باشعور لکھنے والوں کی کتابیں ہر وضع کی نفرتوں کے خلاف لڑتی ہیں۔ بلوچستان میں روشن فکر اور بیدار مغز ادیبوں اور دانشوروں کی کتابیں، آج سے نہیں سالہا سال سے سیکڑوں ہزاروں تعداد میں فروخت ہوتی رہی ہیں۔

سبط حسن، ڈاکٹرمبارک علی، اشفاق سلیم مرزا، شاہ محمد مری، عابد میر وہ لکھنے والے ہیں جو لفظوں کے طوطا مینا نہیں اڑاتے، یہ سوتے ہوئے ذہن بیدار کرتے ہیں اور ان میں سوال کرنے کی جرات پیدا کرتے ہیں۔ یہ خطہ ملک بننے کے بعد سے آج تک سوال کرنے والوں اور جواب کی جستجو میں نکلنے والوں کا وطن رہا ہے۔ کچھ لوگ ہمیں حب وطن کا سبق پڑھاتے ہیں، ان کا یہ سبق سر آنکھوں پر لیکن جب ان سے پوچھا جائے کہ حضور سردار نوروزخان اور ان کے بیٹوں کے خون کا قصاص ہم کس سے طلب کریں؟ بلوچستان اور پاکستان کے ایک بزرگ رہنما سردار بگٹی کے قتل کا پرچا کس کے نام کٹوائیں؟

سردار عطاء اللہ مینگل، نواب خیربخش مری اور جمہوری طور پر ان کے منتخب ہونے والے ساتھیوں کی حکومتوں کو ذبح کرنے کا نسخہ 1973 کے آئین میں کہاں درج تھا؟ ولی خان کے نوجوان ساتھی کس جرم میں گولیوں سے اڑائے گئے، جی ایم سید، جام ساقی اور دوسرے سیکڑوں سندھیوں، بلوچوں اور پشتونوں کی گردنوں میں غداری کے طوق لٹکائے گئے اور الحمدﷲ کہ اب پنجاب میں بھی غداری کے تمغوں کی تقسیم شروع ہوچکی ہے۔ یہ کہانی بہت طویل ہے، ہمیں جواب کہیں سے نہیں ملتا اور اب بھی منصف منیر کا بھوت ہر طرف منڈلاتا نظر آتا ہے۔ اور ہاں سابق مشرقی پاکستان کا شیخ مجیب الرحمان، جو 1947 سے مسلم لیگی تھا اور جسے بعد میں غداراعظم کہا گیا، جس کے سر پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کا الزام گیا، اس کی کہانی کون بیان کرے گا؟

بات ادب اور کتابوں کی ہورہی تھی۔ آج بلوچستان کو اور پاکستان کے ہر کونے میں سوچنے اور سوال کرنے والوں کو کتاب اور ادب کی جتنی ضرورت ہے، کبھی نہیں تھی۔ آج بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کی سرزمین پر کھڑے ہوکر یہ کیوں نہ سوچا جائے کہ مقتدر قوتوں نے کیسی کمال بساط بچھائی ہے، بزنجو کے مقابل بھی بزنجو ہے۔ ہم حاصل بزنجو کے ساتھ کیوں نہ کھڑے ہوں کہ ہمارا اور ان کا پرانا رشتہ ہے۔ بابا غوث بخش بزنجو اس دنیا سے گئے تو میں نے لکھا تھا ’’مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے‘‘۔

اور اب آج حاصل بزنجو یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ

آنے لگے ہیں تیر مری خیمہ گاہ تک

ایسے میں بساط بچھانے والوں سے، پس پردہ رہ کر چال چلنے والوں سے، اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ

خنجر پہ کوئی داغ، نہ دامن پہ کوئی چھینٹ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔